مضامین

’کہیں امن تو کہیں جنگ‘ پر مبنی اپنی حکمت ِ عملی سے چین کیسے دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل کرنا چاہتا ہے؟

ٹیسا وانگ

گزشتہ سنیچر کو چین کے شہر گوانگ ڈونگ میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون اور چین کے صدر شی جن پنگ نے ملاقات کی اور اس دوران چائے بھی ایک ساتھ پی۔اس میٹنگ میں چینی صدر اور ان کے فرانسیسی ہم منصب نے یوکرین میں قیام امن پر زور دیا تاہم دوسری جانب اس میٹنگ کے چند ہی گھنٹے بعد چین کے لڑاکا طیارے آبنائے تائیوان کی فضاؤں میں اپنی فوجی قوت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔چینی لڑاکا طیاروں کی یہ پروازیں اُن فوجی مشقوں کا حصہ تھیں جن کا مقصد تائیوان پر رعب جمانا اور اسے خوفزدہ کرنا تھا۔ ان مشقوں کا آغاز فرانسیسی صدر کے چین کے سرکاری دورے کے ایک روز بعد کیا گیا تھا۔ فرانسیسی صدر کا دورہ چین کی سفارت کاری کے اعتبار سے اہم سمجھا جا رہا تھا۔چین کی یہ دوہری پالیسی اس امر کی تازہ ترین مثال ہے کہ کیسے چین دنیا کے سامنے اپنے دو روپ ظاہر کرتا ہے۔ یعنی ایک روپ جس میں وہ امن کی بات کرتا ہے اور جس کا مقصد دنیا کے سامنے بطور ایک ثالث سامنے آنا ہے جبکہ دوسرا روپ ایک جارحانہ ملک کا سا ہے جو اس علاقہ کا دفاع کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے جسے وہ اپنا حصہ سمجھتا ہے۔تاہم سوال یہ ہے کہ کیا چین مستقبل میں اپنی اس دوہری حکمتِ عملی کو برقرار رکھ پائے گا یا نہیں؟
کووڈ کی پابندیاں ختم ہوتے ہی چین نے سفارتی سطح پر تعلقات استوار کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران شی جن پنگ نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی، برازیل کے صدر سمیت متعدد عالمی رہنماؤں کی میزبانی کی، یوروپ کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے خصوصی مندوب بھیجا اور پھر یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے 12 نکاتی حل پیش کیا۔چین نے حال ہی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان خلیج کم کرنے کے لیے بھی ثالث کا کردار ادا کیا تھا جسے سفارتی محاذ پر چین کی اب تک کی سب سے بڑی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔چین کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں ایسا کرنا اس سے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ یہاں کے معاملات میں ماضی میں امریکی مداخلت متنازع رہی ہے اور اسے ناکامیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس دوران چین نے عالمی سلامتی اور ترقی کے لیے متعدد تجاویز دی ہیں جن سے یہ صاف ظاہر ہے کہ چین ’گلوبل ساؤتھ‘ کی ویسے ہی تشہیر کر رہا ہے جیسے کچھ عرصہ پہلے تک ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کی تشہیر کی تھی جس کے تحت چین نے دوسرے ممالک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔چین نے حال ہی میں اپنے جارحانہ سفارتی رویے میں نرمی لاتے ہوئے اپنے سفارت کار ژاؤ لجیان کا تبادلہ کیا تھا اور ایسے سفارتکاروں کو پروموشن دی تھی جن کے رویے قدرے متوازن سمجھے جاتے ہیں جیسے وانگ یی اور کن گینگ۔
اس سفارتی رویے کے باعث چین دنیا میں ایک ثالث کے طور پر ابھرا ہے اور اسے مقبول چینی نظریے میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے جو ’چینی قوم کے دوبارہ عروج‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ نظریہ دراصل چین کا دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے کا ایک منصوبہ ہے۔ اسے چینی صدر کی جانب سے اقتدار میں آنے کے بعد ’چائنیز ڈریم‘ کا نام دیا گیا تھا۔
ایسٹ چائنا یونیورسٹی کی پروفیسر زینگ ژن کہتی ہیں، اس سے چین کے رہنماؤں کو ’جدیدیت کی جانب بڑھنے کی حوصلہ افزائی‘ کرنے میں مدد ملتی ہے تاہم یہ نظریہ صرف چین کے سفارتی طریقہ کار کو آگے پھیلانے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ عالمی معاشی روابط بڑھانے کے لیے بھی اہم ہے۔ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ سے منسلک چینی سیاست میں فیلوشپ کرنے والے نیل تھامس کہتے ہیں کہ ’شی جن پنگ کو معلوم ہے کہ چینی قوم کا عروج اچھی معیشت کے بغیر ممکن نہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ اگر چین نے اپنے سفارتی کردار کو فروغ دینا ہے تو اسے مزید ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ چین ایسا مغرب کو مکمل طور پر خود سے دور کر کے نہیں کر سکتا، اس لیے اسے ان کے ساتھ اچھے معاشی تعلقات برقرار رکھنے ہیں۔ اس کے لیے چین کو سفارت کاری کی ضرورت ہے اور اسے اپنے جارحانہ رویے سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔‘تاہم سفارتی محاذ پر اس تیزی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چین کو لگتا ہے کہ وہ تیزی سے تنہا ہو رہا ہے۔مغربی ممالک میں عدم اعتماد کے نتیجے میں بہت سے ممالک نے ’اوکس‘ اور ’کواڈ‘ جیسے مضبوط دفاعی اتحاد اور پلیٹ فارمز بنائے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بیجنگ کی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ رواں برس مارچ میں چین کے صدر نے دعویٰ کیا تھا کہ ’امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک نے چین کے گھیراؤ اور اسے دبانے کی کوششوں کو فروغ دیا جس نے چین کی ترقی کے لیے بے مثال سنگین چیلنجز پیش کیے۔‘ چائنہ سینٹر کے تجزیہ کار ایان چونگ نے کہا کہ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو گزشتہ سال یوکرین میں جنگ اور ناٹو کے اندر تعلقات کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ پروان چڑھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’بیجنگ نے محسوس کیا ہے کہ امریکہ کے بہت سے طاقتور دوست ہیں۔ چین پر اپنے اوپر عائد پابندیوں کو زیادہ محسوس کرتا ہے جس کے باعث انھیں اس حصار کو توڑنے کے لیے مزید تحریک ملتی ہے۔‘ یہی وجہ ہے کہ چین کی حکمت عملی کا ایک اہم ستون ’کثیر قطبی دنیا‘ کے خیال پر مبنی ہے، یعنی کہ طاقت کا ایک مرکز ہونے کے بجائے متعدد مراکز کا موجود ہونا۔
شی جن پنگ اسے ’امریکی تسلط‘ کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کے بارے میں اْن کا کہنا ہے کہ اس سوچ نے کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ یہ فرانس کے صدر کے حالیہ دورہ چین کے دوران بھی واضح تھا جب چینی صدر نے یوروپ پر زور دیا کہ وہ خود کو ایک ’آزاد قطب‘ کے طور پر سوچیں۔ جہاں بیجنگ کا استدلال ہے کہ طاقت کی زیادہ متوازن تقسیم دنیا کو ایک محفوظ مقام بنا دے گی، وہیں چند دوسرے ممالک اسے چین کی طرف سے ایک ایسی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں جس کا مقصد دوسرے ممالک کو امریکہ کے اثر و رسوخ سے نکالنا اور چین کے اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔چین اکثر عراق اور افغانستان میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کو اجاگر کرتا ہے جبکہ وہ خود اپنے آپ کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا دنیا میں خون خرابہ یا اقوام کو جنگوں میں دھکیلنے کا کوئی ریکارڈ نہیں یعنی وہ اپنے آپ کو دنیا کی قیادت کرنے کے لیے ایک بہتر امیدوار کے طور پر پیش کرتا ہے۔چین کی ایک دلیل یہ ہے کہ کمیونسٹ چین نے کبھی کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی دنیا میں جاری پراکسی جنگوں میں مصروف عمل ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ چین نے تبت کو اپنے اندر ضم کر لیا، کوریا اور ویتنام کی جنگوں میں حصہ لیا، اس پر ہندوستان کے ساتھ حالیہ سرحدی جھڑپوں کے دوران ہندوستانی علاقوں پر قبضے کا الزام لگایا گیا اور بحیرہ جنوبی چین میں اس کے کئی ممالک کے ساتھ سمندری حدود کے تنازعات ہیں۔چین تائیوان کو اپنا صوبہ قرار دیتا ہے اور اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے یا ضرورت پڑنے پر طاقت کے ذریعے تائیوان کو اپنے قبضے میں لینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
تو کیا یہ حکمت عملی کام کر رہی ہے؟ ’گلوبل ساؤتھ‘ اور وہ دوسرے ممالک جو چین یا امریکہ کے کیمپ کا حصہ نہیں ہیں وہ شاید چین کی اس حکمت عملی کا خیرمقدم کریں گے۔ ژانگ کا کہنا ہے کہ ’چین ثالثی کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جس کی ’وسیع اپیل‘ ہے۔‘ آمرانہ حکومتوں والی ریاستوں کے سربراہان کو عدم مداخلت کی حکمت عملی اچھی لگتی ہے۔ تھامس کا کہنا ہے کہ ’بہت سے ممالک جمہوریت اور انسانی حقوق پر توجہ نہیں دے رہے ہیں اور چین عالمی گورننس میں ان کا سرپرست ہو گا تاہم یہ معلوم نہیں کہ آیا وہ چین کے لیے عالمی طاقتوں کی ناراضگی کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوں گے۔‘ ایسی ریڈ لائنز ہیں جنھیں وہ عبور نہیں کریں گے، جیسا کہ یوکرین جنگ پر اقوام متحدہ کے ووٹ میں دیکھا گیا، جہاں زیادہ تر ممالک نے حملے کی مذمت کرنے کا انتخاب کیا جبکہ چین نے ووٹ کرنے سے احتراز کیا۔ دوسری جانب امریکہ کے روایتی اتحادی، جیسا کہ یوروپ، اس بات پر بحث کرتے رہتے ہیں کہ چین کی تجاویز کو کس نظر سے دیکھا جائے۔کچھ لوگ چین کی حکمت عملی کو اتنی آسانی سے ہضم نہیں کریں گے جیسا کہ یوروپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین، جنھوں نے چین کا دورہ کرنے والے فرانس کے صدر کے لیے سخت لہجہ اختیار کیا۔ جبکہ وہ ممالک جن کو چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو برقرار رکھنے میں زیادہ دلچسپی ہے، انھوں نے اس حکمت عملی پر زیادہ کھلے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔
دورہ چین کے دوران فرانس کے صدر کا عمدہ استقبال کیا گیا اور اس موقع پر ملٹری پریڈ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ایک غیر معمولی اقدام کے تحت شی جن پنگ انھیں چین کے جنوبی شہر گوانگ ڈونگ لے گئے جہاں انھوں نے فرانس کے صدر کو ’قریبی دوست‘ قرار دیا۔ اس ملاقات کے بعد میکرون نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ یوروپ کے مفاد میں نہیں ہو گا کہ وہ تائیوان کے معاملے میں الجھے اور نتیجتاً ایک ’ایسے بحران میں پھنس جائیں جو ہمارا نہیں۔‘ اس کے بعد انھوں نے اپنے تبصروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا اتحادی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کی ’جاگیر‘ بن جائے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شی جن پنگ کی ’صحبت‘ نے اپنا کام کیا ہے۔ تھامس کے مطابق یوروپ امریکہ اور چین کے تعلقات کا ’مرکزی میدان جنگ‘ بنتا جا رہا ہے، ایک ’سوئنگ اسٹیٹ‘ کے طور پر جس میں جو بھی ان کی (یوروپی ممالک) حمایت حاصل کرے گا، وہ فاتح بن کر ابھرے گا۔لیکن اس معاملے میں فی الحال میکرون یوروپی رہنماؤں میں سب سے آگے ہیں۔
تائیوان کی صدر اور امریکی ایوان کے اسپیکر کیون میکارتھی کے درمیان گزشتہ ہفتے ہونے والی ملاقات کے جواب میں بیجنگ نے آبنائے تائیوان میں تازہ ترین فوجی مشقوں کا آغاز کیا۔ تاہم تائیوان وہ معاملہ ہے جہاں چین کی ثالثی اور ہمدردی پر مبنی کردار کا پردہ فاش ہو جاتا ہے۔ تائیوان کے صدر سائی انگ وین اور امریکی ایوان کے سپیکر کیون میکارتھی کے درمیان گزشتہ ہفتے ہونے والی ملاقات کے جواب میں بیجنگ نے تازہ ترین فوجی مشقوں کا آغاز کیا جس کے تحت جنگی طیاروں اور بحری جہازوں کو آبنائے تائیوان بھیجا گیا اور اس خطے میں اہداف کا تعین کیا گیا۔ تائیوان اس بات کی مذمت کرتا ہے کہ چین نے حالیہ برسوں میں اس کے فضائی دفاعی زون میں مداخلت پر مبنی کارروائیوں کو تیز کیا اور ہر ماہ چین کے فوجی طیارے اس خطے میں درجنوں پروازیں کرتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات چین کے پیغام سے متصادم ہیں کیونکہ وہ امن پھیلانے کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ دوسرے اسے فوجی جارحیت کے طور پر دیکھتے ہیں تاہم بیجنگ نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ یہ دفاعی اقدامات ہیں اور اس کا ’اندرونی معاملہ‘ ہیں۔ چونگ کا کہنا ہے کہ لیکن تائیوان کے خلاف جنگ کے عالمی نتائج ہوں گے۔ یہ جزیرہ دنیا کے چند مصروف ترین شپنگ لینز اور اْن زیر سمندر ٹیلی کمیونیکیشن کیبلز کا مرکز ہے جو یورپ کو ایشیا سے جوڑتا ہے اور بیجنگ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ اگر اس خطے میں کوئی تنازع پھوٹتا ہے تو اسے عالمی سطح پر ایشیا کو غیر مستحکم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کا تائیوان پر جلد ہی حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن اس بات کا خدشہ ہے کہ فوجی کارروائی میں اضافہ امریکہ کے ساتھ ایک خطرناک غلط فہمی اور جنگ کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ واشنگٹن تائیوان پر حملے کی صورت میں اس کے دفاع میں مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ تھامس کا کہنا ہے کہ ’شی جن پنگ تائیوان کے مسئلے پر طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی (چین کی) سفارتی موجودگی کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں اہداف کو تقسیم کرنے والی لائن پر چلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ تائیوان پر حملے کے بارے میں تیسرے ممالک کے درمیان خدشات بڑھ رہے ہیں۔‘ جیسا کہ بیجنگ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنی مہم کو تیز کرتا جا رہا ہے، وہ اپنے اقدامات کو بھی بڑھتی ہوئی جانچ کی زد میں آتا دیکھے گا اور تجزیہ کاروں کے مطابق چین کو جلد ہی ’امن کی فاختہ‘ یا ’شکاری کتے‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا، یعنی وہ کون سا روپ اپناتا ہے اسے جلد ہی اس کا فیصلہ کرنا ہوگا۔