مشرق وسطیٰ

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں ہندوستان نے ایک بار پھر فلسطینیوں کی حمایت کردی

ہندوستان کے علاوہ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والوں میں بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ چین‘ ملایشیا‘ مالدیپ‘ نیپال‘ روس‘ جنوبی افریقہ‘ سری لنکا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں جبکہ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ اسرائیل‘ برطانیہ اور امریکہ نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

اقوام متحدہ: ہندوستان نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں ایک مسودہ قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے جس میں شام کی گولان پہاڑیوں سے اسرائیل کے دستبردار نہ ہونے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔

متعلقہ خبریں
غزہ میں پہلا روزہ، اسرائیل نے فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روک دیا
غزہ میں امداد کے منتظرین پر اسرائیل کاحملہ، 70 افراد شہید
عمران خان کی رہائی کا مطالبہ، پاکستانی سینیٹ میں قرارداد جمع
اسرائیل جان بوجھ کر فلسطینیوں کو بھوکا مارنا چاہتا ہے: اقوام متحدہ
ہم فلسطینیوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں۔ اسرائیلی عوام کا حکومت کے خلاف مظاہرہ

شام کے جنوب مغربی علاقہ میں گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی افواج نے 5 جون 1967 کو قبضہ کرلیا تھا۔ 193 رکنی یو این جنرل اسمبلی نے مسودہ قرارداد ”شامی گولان“ پر منگل کے روز ووٹنگ کرائی۔

مصر کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کے حق میں 91 اور مخالفت میں 8 ووٹ ڈالے گئے جبکہ 62 ارکان غیرحاضر رہے۔

ہندوستان کے علاوہ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والوں میں بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ چین‘ ملایشیا‘ مالدیپ‘ نیپال‘ روس‘ جنوبی افریقہ‘ سری لنکا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں جبکہ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ اسرائیل‘ برطانیہ اور امریکہ نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

قرارداد میں کہا گیا کہ شامی گولان سے اسرائیل کے دستبردار نہ ہونے پر اسے سخت تشویش ہے اور یہ علاقہ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے باوجود 1967 سے زیرقبضہ ہے۔ قرارداد میں اعلان کیا گیا کہ اسرائیل نے سلامتی کونسل کی قرارداد 497(1981) کی تعمیل نہیں کی۔

اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ مقبوضہ گولان پہاڑیوں پر اپنے قوانین‘ دائرہ اختیار اور انتظامی اختیارات نافذ کرنے اسرائیل کا فیصلہ کالعدم اور منسوخ ہے اور اس کا کوئی بین الاقوامی اثر نہیں ہوگا۔

منگل کے روز منظورہ قرارداد میں اسرائیل کے 14 دسمبر 1981 کے فیصلہ کو بھی کالعدم اور منسوخ قراردیا گیا اور کہا گیا کہ اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ قرارداد میں اسرائیل سے اپنا فیصلہ واپس لینے کے لئے کہا گیا۔

قرارداد میں 1967 سے مقبوضہ شامی گولان میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر اور دیگر سرگرمیوں کو بھی غیرقانونی قراردیا گیا اور اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ شامی گولان سے دستبردار ہوتے ہوئے 4 جون 1967 کی لائن پر واپس چلاجائے۔

قرارداد میں مزید کہا گیا کہ شامی گولان پر قبضہ برقرار رکھنے اوراسے اپنے سے منسلک کرنے سے اس خطہ میں منصفانہ‘ جامع اور پائیدار امن قائم کرنے میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ اس امید کا اظہار کیا گیا کہ امن بات چیت اسی نکتہ سے دوبارہ شروع ہوگی جہاں تک پہنچی تھی۔