بھارت

آبادی کے لحاظ سے پارلیمانی نشستوں میں تبدیلی نامناسب: جئے رام رمیش

جرمنی کو چھوڑکر کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں ریاستوں کو آبادی کے لحاظ سے نمائندگی دی جاتی ہو۔ ملک کے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ 2026ء میں کیا ہوگا کیونکہ جنوبی ریاستوں کو اندیشے ہیں۔

نئی دہلی: سینئر کانگریس قائد جئے رام رمیش نے کہا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی اقدامات پر کامیابی سے عمل کرنے والی جنوبی ریاستیں 2031 ء کی مردم شماری کے مطابق لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی نشستوں میں بہ لحاظ آبادی تبدیلی پر اعتراض کریں گی جس کیلئے ملک کیلئے بڑا چیالنج پیدا ہوگا۔

جئے رام رمیش نے ایوان بالا کے رول اور ہندوستانی جمہوریت کیلئے اس کے تعاون پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے راجیہ سبھا میں آبادی کی بنیاد پر نمائندگی پر زوردیتے ہوئے کہا کہ امریکی سنیٹ کا اکثر تقابل راجیہ سبھا سے کیاجاتا ہے لیکن دونوں میں بڑا فرق ہے‘ کیونکہ سنیٹ میں بلالحاظ آبادی تمام ریاستوں کے دو نمائندے ہوتے ہیں۔

جرمنی کو چھوڑکر کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں ریاستوں کو آبادی کے لحاظ سے نمائندگی دی جاتی ہو۔ ملک کے سامنے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ 2026ء میں کیا ہوگا کیونکہ جنوبی ریاستوں کو اندیشے ہیں۔

کیرالا‘ ٹاملناڈو‘کرناٹک‘تلنگانہ اور آندھراپردیش وہ ریاستیں جہاں آبادی گھٹنی شروع ہوجائے گی جبکہ اترپردیش‘بہار‘مدھیہ پردیش‘ جھارکھنڈ اوڈیشہ اور راجستھان کی آبادی بڑھنے لگے گی۔

واجپائی حکومت نے ایک ترمیم کی تھی جس کی رو سے 2026ء تک کوئی حد بندی نہیں ہوگی یعنی 2026ء تک لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی اتنی ہی نشستیں برقرار رہیں گی۔

2031ء کی مردم شماری کے بعد ارکان پارلیمنٹ کی تعداد بدلے گی۔

جئے رام رمیش نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ یہ ملک کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ بعض ریاستیں ایسی ہیں جہاں پر خاندانی منصوبہ بندی پر اچھی طرح عمل ہورہا ہے لیکن اترپردیش‘بہار اور اوڈیشہ میں آئندہ 10 سال میں آبادی بڑھ جائے گی۔