سیاستمضامین

2022 اُتار چڑھاو کا سال جنگ کی گھن گرج ۔۔ انسانی حقوق کی پامالی

مسعود ابدالی

ایک اور سال بیت گیا۔ اس برس کووِڈ (COVID 19)کا زور کم تو ہوا لیکن اب تک اس ناگن کا سر پوری طرح کچلا نہیں جاسکا، اور چین و ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں اس کی زہر افشانی جاری ہے۔ انسانی زندگی اب کسی حد تک محفوظ ہے لیکن اسبابِ حیات کو غارت کرنے کا سلسلہ برقرار ہے۔ دنیائے تجارت کی زنجیرِ فراہمی (supply chain)اب تک پوری طرح ہموار نہیں ہوسکی، چنانچہ اشیائے ضرورت کی قلت اور نتیجے کے طور پر مہنگائی کے اثرات بہت واضح ہیں۔
کورونا پر تو یہ کہہ کر ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک آسمانی آفت اور آزمائش ہے، لیکن 24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے نے ساری دنیا کو توانائی، اور ایک بڑے حصے کو غذائی بحران میں مبتلا کردیا۔ نیٹو کی رکنیت اختیار کرنے کی یوکرینی خواہش اس حملے کا محرک قرار پائی۔ صدر پیوٹن کا کہنا ہے کہ وہ نیٹو کو اپنی دہلیز تک نہیں آنے دیں گے۔ روسی صدر کا خوف و اعتراض اپنی جگہ… لیکن اسے ایک آزاد و خودمختار ملک پر حملے کا منصفانہ جواز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
تاہم پڑوسیوں کی غیر مطلوبہ صف بندی پر بڑی قوتوں کی برہمی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں بھی اس سے ملتا جلتا معاملہ پیش آچکا ہے۔ ہوا کچھ اس طرح کہ اٹلی اور ترکی کے امریکی اڈوں پر میزائیلوں کی تنصیب کے جواب میں روس نے کیوبا کو دورمار منجنیقی (ballistic)میزائیل دے دیے۔ امریکہ کی جانب سے اس کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ صدر کینیڈی نے ان میزائیلوں کو تباہ کرنے کے لیے اپنی فضائیہ کو حملے کا حکم دے دیا اور علاقے میں جوہری جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ اُس وقت چونکہ دو جبار براہِ راست ایک دوسرے کے سامنے آگئے تھے لہٰذا درمیانی راستہ نکال لیا گیا۔ صدر خروشیف اور صدر کینیڈی کے درمیان بذریعہ فون ہنگامی چوٹی کانفرنس میں کیوبا پر حملہ نہ کرنے کی امریکی ضمانت کے بعد روس نے اپنے میزائیل کیوبا سے ہٹالیے۔
سال کے اختتام پر جنگِ یوکرین کو 310 دن ہوگئے۔ دنیا بھر میں جاری دوسری خونریزیوں کی طرح اس وحشت کی قیمت بے گناہ شہری ادا کررہے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ کروڑ یوکرینی بے گھر ہوچکے ہیں جن میں سے 52 لاکھ جان بچانے کے لیے پڑوسی ممالک کو ہجرت کرگئے۔
فلسطین، برما اور چین کے اویغور مسلمانوں کی حالت ویسی کی ویسی ہی رہی۔ بدترین اقتصادی پابندیوں کا شکار اہلِ شمالی کوریا کے لیے بھی راحت کے کوئی آثار پیدا نہ ہوئے۔
ہم انسانوں کے لیے اس سال کی اہم خبر یہ ہے کہ 2022ء کے اختتام پر دنیا کی آبادی 8ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان میں سے 3ارب 19 کروڑ یا 40 فیصد نفوس چین، ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں آباد ہیں۔
گزرے سال کے دوسرے اہم واقعات کچھ اس طرح ہیں:
چینی صدر کادورئہ سعو دی عرب اور عرب چین چوٹی مذاکرات : دسمبر کے آغاز پر چینی صدر ژی پنگ کا دورئہ سعودی عرب اس سال کا بڑا واقعہ ہے کہ اس دوران سعودی قیادت سے براہِ راست ملاقات کے علاوہ چین عرب لیگ سربراہی اجلاس اور چین خلیج چوٹی کانفرنس کا اہتمام بھی ہوا۔ اس دوران باہمی تجارت کے حوالے سے مفاہمت کی کئی یادداشتوں پر دستخط ہوئے اور ساتھ ہی ڈالر کے بجائے لین دین مقامی سِکّے (کرنسی) میں کرنے کی تجاویز پر غور ہوا۔ سیاسیات کے علما چینی صدر کے اس دورے اور عرب دنیا میں اُن کی غیر معمولی آو بھگت کو معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔
اسی حوالے سے یہ خبر بھی خاصی اہم ہے کہ امریکہ میں چین کے سفیر گِن گینگ (چینی تلفظ پِن یِن) کو نیا وزیرخارجہ نامزد کیا گیا۔ روانی سے امریکی لہجے میں انگریزی بولنے والے 56 سالہ گِن گینگ شائستہ لیکن دوٹوک جواب دینے کے لیے مشہور ہیں۔ اسی بنا پر واشنگٹن کے سفارتی حلقوں میں وہ لڑاکو شیر یا wolf warrior پکارے جاتے ہیں۔
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند : اس سال حوصلہ مند انسانوں نے کائنات کے پوشیدہ پہلووں کو بے نقاب کرنے کے لیے نئے تجربات کیے۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو بہتر بنایا گیا۔ امریکہ کے خلائی ادارے ناسا (NASA) نے کئی مہمات سر کیں اور ادارے کے منتظم بل نیلسن کے مطابق خلائی تحقیقات کے اعتبار سے 2022ء سرگرم ترین سال تھا۔
ناسا نے راکٹ بھیجنے کے لیے طاقتور ترین اسپیس لانچ سسٹم (SLS)کا تجربہ کیا جو ماضی کے اپولو سلسلے سے 15 فیصد زیادہ توانائی کا حامل تھا۔ چاند سے آگے مریخ تک سفر کی پیش بندی کی گئی۔ اس سلسلے میں طاقتور جیمز ویب خلائی دوربین سے کائنات کا تفصیلی مشاہدہ کیا گیا۔ خلائی رصدگاہ نے انفراریڈ روشنی میں سیاروں، ستاروں اور دوردراز کی کہکشاؤں کا جائزہ لیا اور قدرت نے ڈھونڈھنے والوں پر کائنات کے پوشیدہ پہلو بے نقاب کیے۔ مریخ پر تو کمند نہ ڈالی جاسکی لیکن سائنس دانوں نے سرخ سیارے پر آنے والے زلزلے کے دوران خلائی چٹانوں کے سیارے سے ٹکرانے کی آوازوں کو اپنی گرفت میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔
کامیابیوں کے ساتھ ماضی کی تباہی کا مشاہدہ بھی ہوا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1986ء میں ایک خلائی شٹل، پرواز کے آغاز پر ہی پھٹ کر بکھر گئی تھی، جس میں عملے کے ساتوں ارکان راکھ بن گئے۔ اس بدنصیب خلائی جہاز کا 20 فٹ طویل ٹکڑا 36 سال بعد سمندر سے برآمد کرلیا گیا۔
طویل ترین حکمرانی کا باب بند ہوگیا : برطانوی ملکہ ایلزبتھ 96 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ 1952ء میں تاج پہننے والی برطانوی تاریخ کی تیسری ملکہ 70 برس تک تخت نشین رہیں۔ اسی کے ساتھ برطانیہ کی تیسری اور سب سے کم عمر خاتون وزیراعظم لزٹرس نے سب سے کم عرصہ حکمرانی کا ریکارڈ قائم کیا اور حلف اٹھانے کے صرف 49 دن بعد ایوانِ وزیراعظم خالی کرگئیں۔ لزٹرس کے استعفے سے سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوا اور پہلی بار غیر سفید نسل کے وزیراعظم نے دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کی قیادت سنبھالی۔ بیالیس سالہ رشی سوناک کے دادا کا تعلق گوجرانوالہ سے، جبکہ ننھیال تنزانیا (تانگانیکا) کے ہند نژاد خاندان پر مشتمل ہے۔
عالمی فٹبال ٹورنامنٹ المعروف FIFA : فیفا کی تاریخ میں پہلی بار کھیلوں کے چار سالہ مقابلے مشرق وسطیٰ میں منعقد ہوئے۔ قطر نے اس کی تیاری پر 200 ارب ڈالر خرچ کیے۔ سنسنی خیز مقابلے کے بعد ٹرافی ارجنٹینا نے جیت لی۔ اضافی آدھے گھنٹے کے دوران بھی مقابلہ برابر رہنے کی وجہ سے فیصلہ ضرباتِ تاوان یا Penalty Strikes پر ہوا۔ مراکش کی شکل میں پہلی بار کوئی مسلم ملک سیمی فائنل تک پہنچا، تاہم فرانس کے ہاتھوں شکست کی بنا پر مراکش فائنل کھیلنے کے اعزاز سے محروم رہا اور تیسری پوزیشن کے مقابلے میں کروشیا سے ہار گیا۔ کھیلوں کے دوران قطری عوام اور عرب تماشائیوں نے فلسطینیوں سے یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
کاروبار کی دنیا۔۔ عالمی تجارت۔۔ تیل کی دھار : ٭امریکہ کے سیکورٹی ایکسچینج کمیشن نے ممتاز فنکارہ کم کرڈشن (Kim Kardashian) پر بارہ لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر جرمانہ کیا۔ موصوفہ سوشل میڈیا پر کرپٹو کرنسی فروخت کرنے والے ادارے EMAXکی تشہیر اس انداز میں کرتی تھیں کہ یہ گویا ای میکس کی ایک مطمئن کرم فرما کے جذبات ہیں، لیکن معلوم ہوا کہ محترمہ اس خدمت کے عوض بھاری معاوضہ وصول کررہی تھیں۔
٭ایلون مسک نے 44 ارب ڈالر کے عرض ٹویٹر خریدلیا۔ جناب مسک کے فیصلوں سے ٹویٹر کے صارفین میں مایوسی پھیلی جس پر انھوں نے استعمال کنندگان سے اپنے بارے میں رائے طلب کی۔ تقریباً 58 فیصد افراد نے رائے دی کہ جناب ایلون مسک ادارے کی سربراہی کے لیے ناموزوں ہیں، چنانچہ انھوں نے ٹویٹر کی قیادت چھوڑنے کا اعلان کردیا۔
٭فرانسیسی (اب سوئستانی) کمپنی Lafargeکو 77کروڑ 80 لاکھ ڈالر جرمانہ ہوا۔ اس مشہور سیمنٹ کمپنی نے 2012ء سے 2014ء کے دوران داعش کو ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر دیے تھے۔ جرمانہ امریکی حکومت نے کیا۔
٭ اوپیک پلس یعنی روس اور اوپیک اتحاد نے تیل کی پیداوار میں بیس لاکھ بیرل یومیہ کی کٹوتی کردی۔
٭جی 7 ممالک، یورپی یونین اور آسٹریلیا نے روسی تیل کی قیمت زیادہ سے زیادہ 60 ڈالر مقرر کردی۔ نئی قیمت کا اطلاق یکم جنوری سے ہوگا۔ اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے روس نے بازار سے کم قیمت مقرر کرنے والے ممالک کو تیل کی فراہمی بند کرنے اعلان کردیا۔
بدامنی، ہنگامے، ناخوشگور واقعات اور فوجی مداخلت : ٭سوڈان میں ہنگامے، وزیراعظم عبداللہ حمدوک مستعفی۔
٭قازقستان میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے پر ہنگامے، 264 افراد ہلاک، روس اور اس کے اتحادی CSTO دستوں کی آمد۔
٭مہنگائی اور بدعنوانی سے مشتعل ہوکر سری لنکا میں لوگ ایوانِ اقتدار پر چڑھ دوڑے۔ زبردست ہنگاموں کے بعد وزیراعظم مہندا راجا پکسا مستعفی۔
٭تیونس میں نئے آئین کے تحت انتخابات۔ غیر جماعتی انتخابات کا مکمل بائیکاٹ، ووٹ ڈالنے کا تناسب صرف 8 فیصد رہا۔
٭ایک کرد لڑکی مہسا امینی کی مذہبی پولیس کی حراست میں ہلاکت پر سارے ایران میں ہنگامے۔ ستمبر سے سال کے اختتام تک جاری رہنے والے جلسے جلوسوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ہنگاموں کے کئی ذمہ داروں کو پھانسی پر لٹکادیا گیا۔
٭روس سے بحیرہ بلقان کے ذریعے جرمنی آنے والی زیرآِب گیس پائپ لائنوں رودِشمالی ایک اور دو (Nord Stream 1 and 2) میں شگاف۔ یہ زیرآب دہشت گردی کا پہلا واقعہ ہے جس کا الزام روس نے یورپی یونین، نیٹو اور امریکہ پر عائد کیا۔
٭امریکی ریاست ٹیکساس میں Coleville کی یہودی عبادت گاہ میں ربائی (امام) سمیت چار افراد یرغمال۔ برطانوی نژاد اغوا کار ملک فیصل اکرم مبینہ طور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کررہا تھا۔ کارروائی کے دوران فیصل ملک جاں بحق۔ مغویوں کی بحفاظت بازیابی کے بعد فیصل ملک کو گولی ماری گئی۔(سلسلہ صفحہ ۷)
٭جاپان کے سابق وزیراعظم شینزو ایبے قاتلانہ حملے میں ہلاک۔ وہ نارا شہر میں انتخابی مہم کے جلسے سے خطاب کررہے تھے۔
٭توہین آمیز کتاب ”شیطانی ہفوات“ کے مصنف سلمان رشدی پر نیویارک میں قاتلانہ حملہ، ایرانی نژاد ملزم گرفتار
٭امریکی سی آئی اے نے ایک ڈرون حملے میں القاعدہ کے مبینہ سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کو کابل میں قتل کردیا۔ فضائی حدود کی پامالی پر افغانستان کا شدید احتجاج
٭بنگلہ دیش میں شفاف انتخابات کے لیے مہم۔ بی این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل فخرالاسلام عالمگیر اور امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر شفیق الرحمان گرفتار
اہم انتخابات:
٭سوئیڈن کے انتخابات میں دائیں بازو کی کامیابی۔
٭اٹلی میں قدامت پسندوں نے معرکہ سر کرلیا۔ برادرانِ اٹلی (اطالوی مخفف FdI)کی جارجیا میلونی اطالوی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔
٭اسرائیلی انتخابات میں دائیں بازو کے قوم پرست لیکڈ اتحاد اور انتہا پسند مذہبی جماعتوں کی کامیابی۔ یہ دو سال میں چوتھے انتخابات تھے۔ بن یامین نیتن یاہو نے چھٹی بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھالیا۔
٭فرانس کے انتخابات میں ایمانوئل میکراں دوسری مدت کے لیے صدر منتخب۔
٭ملائشیا کے انتخابات.. اسلامی تحریک پاس (PAS) سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ سیکولر نظریات کی حامل ڈیمو کریٹک ایکشن پارٹی دوسرے نمبر پر رہی۔ انتہائی سینئر سیاسی رہنما اور سابق وزیراعظم مہاتیر محمد اپنی نشست بچانے میں ناکام رہے۔ سابق وزیرخزانہ انور ابراہیم وزیراعظم منتخب۔
٭بینگ بینگ مارکوس فلپائن کے صدر منتخب ہوگئے۔ بینگ بینگ سابق فلپائنی آمر فرڈینانڈ مارکوس کے صاحبزادے ہیں۔ فرڈیننانڈ مارکوس 27 برس حکمرانی کے بعد زبردست عوامی مظاہرے کے نتیجے میں 25 فروری 1986ء کو اہلِ خانہ اور قریبی رفقا کے ساتھ امریکی ریاست ہوائی فرار ہوئے اور تین سال بعد حالتِ جلاوطنی میں ان کا وہیں انتقال ہوا۔
٭فلسطینی شہر جنین میں الجزیرہ کی نمائندہ شیریں ابوعاقلہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہلاک، القدس نیوز کے علی سمودی زخمی۔ شیریں کے جنازے پر بیت اللحم قبرستان میں حملہ۔ یہ قبرستان مسیحیوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
٭صحافت کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔ صدر بائیڈن نے پریس کانفرنس کے بعد اپنی دانست میں مائیک بند کرکے فاکس نیوز کے صحافی پیٹر ڈوسی کو گالی دی۔ شومیِ قسمت مائیک آن تھا اور صدر بائیڈن کی ”شیریں کلامی و گل افشانی“ سے لاکھوں ناظرین و سامعین محظوظ ہوئے۔
انسانی حقوق
٭بھارت میں ایک مسلمان بچی مسکان خان کو حجاب کی وجہ سے اسکول سے نکال دیا گیا، امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے مذہبی آزادی رشدحسین کی مذمت۔
٭سوئٹزر لینڈ میں ریفرنڈم کے ذریعے برقعے پر پابندی کا قانون منظور۔ فرانس، بیلجئیم اور آسٹریا کے بعد یورپ کے چوتھے ملک میں برقع پہننا ممنوع۔
٭اکتوبر میں دریائے ایورس (Evros River) (ترک یونان سرحد) پر یونانی سرحدی پولیس نے 92 ایسے پناہ گزینوں کو دیکھا جو بالکل برہنہ تھے۔ ان لوگوں کی اکثریت افغان اور شامی پناہ گزینوں پر مشتمل تھی، خیال ہے کہ انسانی اسمگلروں نے کمیشن اور فیس نہ ملنے پر ان بدنصیبوں کو سزا کے طور پر بے لباس کردیا۔ سچ تو یہ ہے کہ صرف یہ افراد نہیں بلکہ دنیا کے 8 ارب انسان اخلاقی طور پر برہنہ ہوگئے۔
ارضِ فلسطین و بیت المقدس
٭ذرائع ابلاغ کے مطابق اس سال نومبر تک اسرائیل کے مقبوضہ عرب علاقوں میں فوج کی فائرنگ سے 140 فلسطینی جاں بحق ہوئے، جبکہ پُرتشدد واقعات میں 36 اسرائیلی بھی مارے گئے۔ فلسطینی ذرائع نے ان اعداد و شمار کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی شہادتیں پانچ سو سے زیادہ ہیں جن کی اکثریت 16 سے 20 سال کے بچوں اور لڑکیوں کی ہے۔
٭اسرائیلی پارلیمان نے اس سال ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت اگر کوئی مہاجر (فلسطینی) کسی اسرائیلی شہری سے شادی کرلے تو اسے ملک کی شہریت نہیں ملے گی۔ بظاہر یہ بے ضرر قانون ہے، لیکن اس کی عملی تشریح یہ ہے کہ مہاجر کیمپوں کے وہ ہزاروں افراد جو اسرائیلی شہریت کے حامل عربوں سے شادی کرکے کیمپوں سے باہر شہروں میں رہ رہے ہیں انھیں کیمپ واپس آنا ہوگا اس لیے کہ غیر اسرائیلی (فلسطینی) مقبوضہ عرب علاقوں سے باہر نہیں رہ سکتے۔ امیگریشن کے موجودہ قانون کے تحت اسرائیلی شہریوں سے شادی کرنے والے فلسطینیوں کو اسرائیل کی شہریت مل جاتی ہے اور وہ اسرائیل میں کہیں بھی رہ سکتے ہیں۔ اسرائیل کی وزیرِداخلہ محترمہ عالیہ سقر(Ayelet Shaked)کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے دفاع اور ملک کی صہیونی شناخت کے لیے امیگریشن قانون میں یہ تبدیلی ضروری تھی۔
ایک طرف جبر کے یہ نئے اقدامات اور دوسری طرف ترکیہ اسرائیل سے تعلقات میں گرم جوشی کے لیے سرگرم۔ چار سال پہلے غزہ پر اسرائیل کے حملے کے ردعمل میں ترکیہ نے اسرائیلی سفارت کاروں کو ملک سے نکال دیا تھا جس کے بعد سے ان دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات معطل تھے۔ ترک وزیر خارجہ کے دورئہ تل ابیب کے بعد مارچ میں صدر اردوان نے اپنے اسرائیلی ہم منصب اسحاق ہزروگ کا انقرہ میں پُرتپاک خیرمقدم کیا۔ یہ گزشتہ 14 سال کے دوران دونوں ملکوں کی پہلی چوٹی ملاقات تھی۔ اب سفارتی عملے کے تقرر کے بعد دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات معمول پر آگئے ہیں۔
٭آسٹریلیا نے اسرائیل میں اپنے سفارتی عملے کو بیت المقدس سے واپس تل ابیب بلالیا۔ چار سال پہلے صدر ٹرمپ کے اصرار پر آسٹریلوی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کیا گیا تھا۔ انتخابات میں لیبر پارٹی کی کامیابی کے بعد وزیراعظم انتھونی البانیس نے کہا تھا کہ بیت المقدس کی حیثیت کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حتمی تعین سے پہلے ہمارے لیے تل ابیب ہی اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔