رمضان

ماہِ صیام روحانیت کا موسم بہار

ہم جس عالم میں رہتے ہیں یہ عالم دنیا ہے جو ایک مادی وفانی عالم ہے۔ اس کا ربط و ارتباط عالم آخرت سے مربوط ہے، جو دائمی وابدی ہے۔ اس مادی عالم میں انسان کو جو وجود بخشا گیا ہے وہ بھی مادی و فانی ہے، لیکن اس وجود فانی میں جو روح رکھی گئی ہے وہ ابدی ہے جس کو کبھی فنا نہیں۔

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786

متعلقہ خبریں
روزہ میں ماہواری شروع ہوجائے
بغیر کسی عذر کے لوگوں کے سامنے کھلے عام روزہ توڑنا گناہ کبیرہ: مفتی اعظم مصر
دو امام مل کر تراویح پڑھائیں ؟
رمضان میں ہند۔ پاک مچھیروں کی رہائی کا مطالبہ
مسلم بھائیوں کو ماہ صیام کی چیف منسٹر کی مبارکباد

ہم جس عالم میں رہتے ہیں یہ عالم دنیا ہے جو ایک مادی وفانی عالم ہے۔ اس کا ربط و ارتباط عالم آخرت سے مربوط ہے، جو دائمی وابدی ہے۔ اس مادی عالم میں انسان کو جو وجود بخشا گیا ہے وہ بھی مادی و فانی ہے، لیکن اس وجود فانی میں جو روح رکھی گئی ہے وہ ابدی ہے جس کو کبھی فنا نہیں۔ انسان چونکہ جسم و روح سے مرکب ہے اس لئے کچھ تقاضے مادی جسم کے ہیں تو کچھ تقاضے روح کے ۔ جو بندے اس مادی عالم میں مادی جسم کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ روح کے تقاضوں کی تکمیل میں سنجیدہ رہتے ہیں، وہ اُس ابدی اور دائمی عالم (آخرت) میں سرخرو و کامیاب ہوتے ہیں۔ دنیا کے خیر کے ساتھ آخرت کا خیر اپنے دامن میں سمیٹتے ہیں اور عالم آخرت میں حیات ابدی وسعادت سرمدی کے مستحق بنتے ہیں۔ والآخرۃ خیر و أبقی(الاعلی؍۱۷)

چنانچہ اس عالم فانی میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مادی وجود کی حیات وبقا کے لئے ایک نظام بنایا ہےاورخودیہ نظام اللہ سبحانہ کی قدرت بے پایاں کاعظیم شاہکارہے،اس نظام کائنات کی ندرت بھی محیرالعقول ہے،اس کی نیرنگیاں دلوں کوموہ لیتی ہیں،اس کا مشاہدہ اوراس میں غوروتدبرمعرفت ربانی کے دروازے کھولتا ہے۔

اللہ سبحانہ کی عظمت وجلالت ،علم وقدرت، مشیت وحکمت کے صدہاجلوے ایمان وایقان کی نورانیت میں اضافہ کرتے ہیںجس سے عالم آخرت کی ابدی و سرمدی زندگی کی فکر مقصدحیات بن جاتی ہے ، کامیابی کی یہی وہ شاہراہ ہےجس کی رہبری ہردور، ہرقوم اور ہرزبان میں انبیاء کرام ومرسلین عظام نے فرمائی ہے۔

چنانچہ ہر دور میں اللہ سبحانہ نےاپنے محبوب و منتخب اور چنندہ بندوں کو نبوت و رسالت کے منصب جلیلہ پرفائز فرمایا ہے اور ان پر آسمانی ہدایت نامے نازل فرمائے ہیںجس کی آخری کڑی خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین سیدنامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری کتاب ہدایت قرآن مجید نازل فرمائی،اس کا نزول بھی ماہ رمضان المبارک اور اس کی قدر والی رات میں ہوا،یہ وہ کتاب ہدایت ہے جو سعادت دارین کی تمنااورآرزو،طلب وتڑپ رکھنےوالوں کیلئے پیغامِ رحمت ہے ،دنیا سے زیادہ آخرت کی کامیابی کی فکر میں گھلنے والوں کیلئے ایک زرین تحفہ ہے جس کی قدر و قیمت کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا،جو سلیم الفطرت ہیں اور جن کو حلاوت ایمانی نصیب ہے وہ اس نسخۂ شفاء سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں ۔جسمانی،روحانی اوراخلاقی ہرطرح کے امراض سے شفاء پاتے ہیں ،اس کتاب ہدایت سےفکرونظرکی تطہیرہوتی ہے، ریب وارتیاب دل کی کدورت دورہوتی ہے،یہ کتاب ہدایت رحمت کاوہ سرچشمہ ہےجس سے سیراب ہونے والے خضرراہ ثابت ہوتے ہیں۔

ان کی پاکیزہ عملی زندگی کے نقوش دل ونگاہ کوراحت وسکون اورٹھنڈک بخشتے ہیں ، رنج وغم امتحان وآزمائش کے کٹھن لمحات چین و سکون کی دولت نہیں چھینتے إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرہ؍۱۵۳) ’’بے شک اللہ سبحانہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ کا فرمان الٰہی قدم قدم پر ڈھارس بندھاتاہے،آس وامیدکے چراغ دلوں میں روشن رکھتاہے،صبرایک ایسا اعلی وصف ہے جو نازک ترین لمحات میں سکون وقرار برقرار رکھتا ہے ، انسان دلگیرنہیں ہوتااوراس کا حوصلہ نہیں ٹوٹتا،خوشی ومسرت کے اوقات بھی حق سبحانہ کی یادسے غافل نہیں کرتے،جذبات تشکرسے ان کے سینے کچھ اس قدرمعمورہوجاتے ہیں کہ ان کا قیام وقعود،ان کی سجدہ ریزیاں اور بڑھ جاتی ہیں،ان کی راتیں وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (الفرقان: ۶۴) کا مظہرہوتی ہیں، ماہ رمضان المبارک کی آمد ان روح افزا مناظر کا احساس تازہ کراتی ہے ۔

الغرض اس مادی عالم کے نظام میں جسمانی حیات کیلئے اللہ سبحانہ نے ہوا اور پانی کا انتظام فرمایا ہے، رزق و روزی کے اسباب مہیا کئے ہیں، دن رات اور ماہ وسال کا ایک مکمل نظام بنایاہے، اس نظامِ کائنات میں دن و رات آتے جاتے رہتے ہیں ، سورج طلوع ہوتاہےتورات کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں،دن کا اجالاروشنی بکھیرتاہے جو سارے عالم کو روشن رکھتا ہے۔چاند چمکتا ہےاس کی دلکش چاندنی راحت فزا ہوتی ہے، اس مادی عالم میںنور و روشنی کا سامان ہوتا ہے ، تاریکیوں کی وحشت دور ہوتی ہے،اس کی ٹھنڈی روشنی سے دلوںکو راحت ملتی ہے، اس کی دلآویزی آنکھوں کو بہجت و سرور بخشتی ہے۔ ستارے جھلملاتے ہیں،تاریک راتوں میں چلنے والوں کو راستہ دکھاتے ہیں،اپنی چمک دمک سے نگاہوں کو خیرہ کرتے ہیں، یہ سب قدرت خداوندی کے عظیم شاہکار ہیں۔ پھر ان تمام کا اس مادی عالم میں اور بھی بہت اہم کردار ہے۔

سورج کی تمازت اس عالم میں پھیلنے والی گندگی و تعفن کو فناکردیتی ہے، آسمان کے ان سارے سیاروں یعنی سورج و چاند اور تاروں وغیرہ وغیرہ کے اور بھی بڑے بڑے کام ہیں جو محیر العقول ہیں چنانچہ درختوں پر لدے پھلوں کے پکنے اور ان میں شیرینی اور مٹھاس پیدا کرنے ،کلیوں کے چٹکنے ، پھول بننے اور مہکنے اور عالم کو گل و گلزار بنانے میں ان کا بڑا رول ہے۔ اس کے علاوہ عقل انسانی و فہم امکانی سے بالا اور بھی بہت سے مادی فوائد ان سے وابستہ رکھے گئے ہیں، جن میں اور مخلوقات کے علاوہ انسانوں کی حیات سے متعلق منافع پوشیدہ ہیں، جن کا احاطہ کرنے سے قصور عقل کی بناء انسان عاجز و قاصر ہیں، کرشمہ ہائے قدرت کی جلوہ سامانیوں کے مشاہدات نے سائنسدانوں کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے، اللہ سبحانہ کی بخشی ہوئی ذہنی و فکری ، علمی وتحقیقی گو ناگوں صلاحیتوں کے باوجود عجز و اعتراف پر مجبور ہیں اور اس کائنات کا ایک صانع ، خالق ومالک ہے اس کو مانے بغیر ان کے لئے کوئی چارئہ کار نہیں ہے ، اس نظام کائنات کے نظم وانتظام کی باگ ڈوراس کے دست قدرت میں ہونےکے اقرار پر مجبور ہیں یہ الگ بات ہے کہ عصبیت کی وجہ اسلام کی نعمت سے محروم ہیں۔

اس عالم میں سردی، گرمی ، بارش بہار و خزاں کے موسم جب جب آتے ہیںرحمتوں کی سوغات لاتے ہیں۔ خزاں کا موسم کیا آتاہےکہ عالم کی ساری شادابی و شگفتگی رخصت ہوجاتی ہے،پت جھڑ کا موسم درختوں کو بے لباس بنا دیتا ہے اور وہ سوکھ کر ایک بے جان لاشہ کی طرح زمین پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ بہار کا موسم حیات و زندگی، رونق و تازگی کا خوش کن پیام لاتا ہے،سورج کی تمازت سے سمندروں سے بخارات اٹھتے ہیں جوبادلوں میں تبدیل ہوتے اور ریفائنری کا کام کرتے ہیں یعنی کھارے پانی کو شیریں و خوش ذائقہ بناکر زمین پر برساتے ہیں جس سے ساری فضاء دھل دھلاکر صاف وستھری ہوجاتی ہے کھیتیاں سیراب ہوکر لہلہانے لگتی ہیںان سےاناج و دانوں کی پیداوار ہوتی ہے ،درخت تروتازہ ہوکر سایہ فگن ہوتے ہیںاورخوش ذائقہ پھل پھلار دیتے ہیں پھر اس موسم بہار کی شادابیوں سے سارا عالم سبزہ زار بن جاتا ہے۔ ہر طرف حیات و زندگی، شگفتگی و شادابی جھلکنے لگتی ہے، عالم کا ذرہ ذرہ سبزہ و گل کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔

مادی عالم ہی کی طرح روحانی عالم میں بھی خزاں و بہار کے موسم آتے ہیں، سورج روشن ہوتا ہے، چاند کی چاندنی چٹکتی ہے، جانفزا روشنی بکھرتی ہے، ستارے جگمگاتے ہیں، رات کی تاریکیوں میں دل بھاتی خوش کن نور و روشنی کے چراغ روشن رہتے ہیں ۔ تمثیل کی زبان میںآسمان روحانیت کے چاند و سورج گویا اللہ سبحانہ کے محبوب ترین چنندہ و منتخب بندے انبیاء کرام و مرسلین عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی ذوات مقدسہ ہیں، اس دنیا میں جن کی بعثت اور ان پر آسمانی ہدایات کے نزول سے کفر و شرک، ضلالت و گمراہی، طغیان و عصیان کی گھٹاٹوپ تاریکییاں دور ہوتی ہیں۔ رشد و ہدایت، نیکی و پارسائی، خیر و بھلائی ،فوز و فلاح ، کامیابی و کامرانی کے روشن مینار عالم روحانیت کو روشن رکھتے ہیں ۔الغرض قلب و روح کی دنیا روحانی تازگی سے معمور ہوجاتی ہے ،اوران خاصان خدا کی بعثت گویاشبِ دیجور کے بعد صبح نو کی نوید لاتی ہے۔

اہلبیت اطہار، اصحاب کرام و تابعین ، تبع تابعین عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین حسب مراتب آسمان ہدایت کے روحانی ستاروں کے مانند ہیں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور علماء و صلحاء، اتقیاء و اصفیاء، محدثین و مفسرین ، فقہاء و مجتہدین رحمہم اللہ ان کی روشنی سے ضیابارہیں ، جو انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والسلام کی نورانی ہدایات و نبوی ارشادات کے چراغ روشن رکھتے ہیں، آسمان ہدایت کے جن روحانی ستاروں کی ضیا باریاں ہیں ان کو گل ہونے نہیں دیتے، اللہ سبحانہ کی محبت، انسانیت کی ہدایت اور اس کی نجات کی فکر و تڑپ ان کو بے چین و بے قرار رکھتی ہے اس غم میں اپنے آپ کو گھلاتے اور شب و روز اشکبارانسانیت کی ہدایت کی دعائیں مانگتے ہیں، گمراہ انسانیت کا رنج و غم ان کو بے چین رکھتا ہے، انسانیت کی صلاح وفلاح کےلئے فکرمندرہتے ہیں ،اپنی عملی پاکیزہ زندگی کے شب و روز سے رشد و ہدایت کی شمع روشن رکھتے ہیں جس سے تاریک دل معرفت ربانی کے نورسے روشن ہوتے ہیں، اعتصام بحبل اللہ یعنی اس مبارک مہینہ میں نازل ہونے والے کلام ربانی سے خلق خداکی نسبت جوڑے رکھنےکی فکر میں لگے رہتے ہیں،یہ وہ کلام ربانی ہے جس کی نسبت سےنہ صرف مردہ دلوں کو حیات تازہ ملتی ہے بلکہ آخرت کی ابدی ٹھنڈی زندگی نصیب ہوتی ہے، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے دعابھی سکھائی ہے۔ اللہم انی اسئلک برد العیش بعد الموت ’’اے اللہ موت کے بعد راحت بھری ٹھنڈی زندگی نصیب فرما‘‘۔

روزوشب ، ماہ وسال کی گردش کے اس مادی نظام میں کچھ مکانات و مقامات بڑے مقدس ہیں اور بعض مہینے اور بعض روزوشب افضل ہیںجن میں عبادات، ذکر و اذکار، دعا و مناجات کا ثمرہ زیادہ ملتاہے،ان کا رشتہ روحانی نظام حیات سے مربوط ہے۔ ان میں ایک عظیم مہینہ ماہ رمضان المبارک ہے جس کی آمد قلب و روح کے عالم میں ایک روحانی انقلاب برپاکرتی ہے اور روحانیت کے موسم بہار کی آمد کا مژدۂ جانفزا سناتی ہے۔

روزہ کی فرضیت کا مقصود’’تقوی‘‘ہے،روحانیت کے مدارج میں ارتقاء کیلئے روزہ اکسیرکی حیثیت رکھتا ہے، روحانیت کے اس موسم بہارسے کمال درجہ روحانی استفادہ اسی وقت ممکن ہے جب روزہ کا مقصودحاصل ہو،روحانی راحت ورحمت، قلبی طمانیت وسکینت کارازاسی میں مضمر ہے۔ تقوی زندگی کے کسی ایک شعبہ میں سدھارکا نہیں بلکہ زندگی کے سارے شعبوںکو تقوی کے رنگ میں رنگ لینے کانام ہے، روزہ سے ایسا تقوی حاصل ہو کہ ہرآن ’’اتقوااللہ‘‘ کی آواز قلب کی سماعتوں سے ٹکراتی رہے ۔بحالت روزہ حکم رب کی تعمیل میں حلال اشیاء کا ترک جب عزیز از جان بن جاتا ہو تو پھرہونا تویہی چاہئے کہ اللہ سبحانہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے رک جانا کچھ مشکل نہ رہے ،ماہ ِصیام کے ایک مہینہ کے روزے اور احکام شرع کی پابندی مسلمانوں کو الٰہی نظام کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند عہد بناتی ہے، حکم ربانی کی تعمیل میں ماہ رمضان المبارک کے فرض روزوں کا اہتمام عالم ارواح میں اپنے رب سے کئے گئے عہد پر قائم رہنے کا پابند بناتا ہے۔

اس کے لئے صرف ہمت و ارادہ شرط ہے ظاہر ہے روزہ کے ذریعہ اپنے نفس کی عمدہ تربیت کی جاسکتی ہے ۔روزہ عبادت ہے اور عبادات کی طرح یہ عبادت بھی اُس وقت ثمرآور ہوتی ہے جب اخلاصِ نیت شامل ہو ،خلوصِ نیت، مرضیٔ رب کی چاہت گویا آب حیات کا کام کرتی ہے ،جس سے روحانی تشنگی بجھتی ہے اور ایسی سیرابی نصیب ہوتی ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی عزم وحوصلہ برقرار رہتا ہے، رب تبار ک وتعالی کی خوشنودی اور اس کی رضااس قدر عزیز ہوجاتی ہے کہ نفس کے تقاضوں کوقربان کرنا آسان ہوجاتا ہے بلکہ وقت پڑنے پر جان ومال قربان کرنا پڑے تو یہ بھی کچھ مشکل نہیں رہتا۔

رمضان کے موسم بہارکے فیوضات سے نفسِ انسانی رذائل ِاخلاق کی آلائشات سےپاک ہوجاتا ہے، نفس کے تقاضے سرد پڑ جاتے ہیں، شیطان کا دائو کمزور ہوجاتا ہے، شبنم کے صاف وشفاف اورپاکیزہ قطرے جیسے مادی عالم کو نظیف وستھرا بنادیتے ہیں اسی طرح ماہ رمضان کی آمد اور روزوں کے اہتمام سے باطن کا زنگ دھلتا اور دل پاکیزہ ہوجاتا ہے، حدیث پاک میں واردہے’’ہرشیٔ کی کوئی نہ کوئی زکوٰۃ ہے یعنی جس کے نکالنے سے وہ شیٔ پاک ہوجاتی ہے اورجسم کی زکوۃ روزہ ہے‘‘(ابن ماجہ؍۱۷۳۵)۔ روزہ رکھنے سے جب باطن پاکیزہ ہوجائے تویہی باطن کی پاکیزگی کفریات و شرکیات، فسق وفجورمیں مبتلاءہونے سے بچاتی ہے۔

نافرمانی وسرکشی کے داغ دھبے دامن ایمان کو داغدار نہیں کرپاتے، اس لئے روحانیت کے اس موسم بہارکے اثرات کو قلب وروح پر طاری رکھتے ہوئے حقیقی معنی میں روزہ دارانہ مزاج بناکر رمضان المبارک کی قدر کی جانی چاہئے، انشاء اللہ اس اہتمام سے انسان کی ساری زندگی اور اس کی آخرت بہار آفریں ہوسکتی ہے اوربے حد وحساب اخروی منافع زادآخرت بن سکتے ہیں ۔روحانیت کا یہ موسم بہار ناقدری کی وجہ کسی کے حق میں خزاں آلود بھی ہوسکتا ہے پھر تواس کی بدبختی وشقاوت کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا چنانچہ سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادپاک سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ’’جوکوئی روزہ تورکھے یعنی حسب احکام شرع صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہے لیکن لا یعنی گفت وشنیداورباطل اعمال و اشغال سے اجتناب نہ کرے تو اللہ سبحانہ کواس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی پرواہ نہیں‘‘ (بخاری؍۱۹۰۳)

الغرض رمضان المبارک کا روحانی اعتبارسے یہ موسم بہارانسانی زندگی میں اس وقت روح پرورثابت ہوسکتا ہے جبکہ اسلامی احکامات کی روح کو پیش نظررکھ کر روزہ رکھا جائےاور تادم زیست اطاعت و فرمانبرداری کی زندگی بسرکرنےکا عہد کیا جائے ،اللہ سبحانہ ماہ صیام کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرمند فرمائے۔آمین۔
٭٭٭