مضامین

مشترکہ خاندانی نظام، کسی نعمت سے کم نہیں

ڈاکٹر عزیزہ انجم

زندگی دن بہ دن مشکل سے مشکل ترہوتی چلی جارہی ہے۔ لگ بھگ پوری دنیا ہی میں مہنگائی عروج پر ہے۔ ایسے میں روز مرّہ کے اخراجات پورے کرنا ہر فرد کے لیے انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک مشترکہ خاندانی نظام کا رواج عام تھا۔ ویسے اب بھی کہیں کہیں مشترکہ خاندانی نظام ہی ہے کہ کبھی مشترکہ رہائش ضرورت ہوتی ہے، تو کبھی روایت اور محبّت کا تقاضا۔ اکثر والدین کے بنائے ہوئے گھروں میں بیٹوں کی شادیوں کے بعد نئے شادی شدہ جوڑوں کے لیے مزید کمرے بنادیئے جاتے ہیں۔
مگر، کچن ایک ہی ہوتا ہے اور خانہ داری بھی ایک ہی جگہ ہوتی ہے۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب دو، تین شادی شْدہ بھائی ایک ساتھ، ایک ہی چھت تلے رہتے ہیں، تو آپس میں کھٹ پٹ بھی ہوتی ہے اور ذرا ذرا سی باتوں پر رویّوں میں تلخی بھی آجاتی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عموماً گھر کے سب سے بڑے بیٹے پر غیر محسوس انداز میں حد سے زیادہ ذمّے داری ڈال دی جاتی ہے۔ بجلی، پانی، گیس تمام گھر والے استعمال کرتے ہیں، لیکن بِل کی ادائی ایک ہی بیٹے کے ذمّے ہوتی ہے۔ اْسی طرح گھر کے دیگر چھوٹے موٹے خرچے بھی اسی کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ دِلوں میں دوریاں آنے لگتی ہیں، ایک دوسرے کے لیے گنجائش ختم ہوجاتی ہے، معمولی معمولی سی باتیں بھی بڑے مسئلوں کا رْوپ اختیار کرلیتی ہیں۔ کچن میں جھگڑے ہونے لگتے ہیں، دیورانیوں، جیٹھانیوں کی لڑائیاں معمول بن جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ دلوں کی تلخیاں زبان اور رویّوں میں آجاتی ہیں۔ نتیجتاً، گھر کا سکون غارت، پورا ماحول خراب ہوجاتا ہے۔ اور یوں، وہ گھر، جہاں سے کسی زمانے میں بھائی، بہنوں کے ہنسی قہقہے، نوک جھونک سْنائی دیا کرتی تھی، دیورانیوں، جیٹھانیوں کی رنجشوں، بھائیوں کے اختلافات کی نذر ہوجاتا ہے۔
یاد رکھیں، فی زمانہ گھر بنانا قطعاً آسان نہیں، تو عقل مندی اسی میں ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں سکون سے رہا جائے، ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے۔ گھر میں سب رہتے ہیں، تو خرچہ بھی سب میں برابری کی بنیاد پر تقسیم ہونا چاہیے، پانی، بجلی، گیس سب استعمال کرتے ہیں، تو لازم ہے کہ بلز کی ادائی کسی ایک پر نہیں، سب کے ذمّے ہو۔ اسی طرح کھانا ایک جگہ بنتا ہے، تو سودا سلف میں بھی سب کا حصّہ شامل ہونا چاہیے۔
نیز، گھر کے کاموں کی ذمّے داری کسی ایک بہو پر نہیں، تمام بہوؤں پر ہونی چاہیے اور سب کے کام بٹے ہوئے ہونے چاہیے۔ فلموں، ڈراموں میں دِکھائے جانے والے اوٹ پٹانگ قصّے کہانیوں سے قطعاً متاثر ہونے کی ضرورت نہیں۔ عام زندگی میں ایسی سازشیں، فتنہ انگیزیاں، گٹھ جوڑ اور بیہودگیاں خال خال ہی دکھائی دیتی ہیں۔ اللہ کے نبیؐ کا ارشاد ہے کہ ”تم میں سے وہ شخص مومن نہیں، جس کی شرارتوں (شر) سے دوسرے محفوظ نہ ہوں۔“ پھر بھائی بہنوں کے رشتے تو اللہ پاک نے بنائے ہیں، تو ان کے حقوق و فرائض میں کنجوسی نہ کریں۔
ایک ساتھ مل جْل کر رہنے میں بہت برکت ہے۔ اپنے ساتھ رہنے والوں، گھر والوں کا خیال رکھیں، مالی معاملات ہوں یا ذاتی، ایک دوسرے کا ساتھ دینے سے زندگی جنّت بن جاتی ہے۔ اور ویسے بھی دیکھا جائے تو آج کل کے دَور میں، جب مہنگائی عروج پر ہے، مشترکہ خاندانی نظام کسی نعمت سے کم نہیں، توخصوصاً اپنے رویّوں سے اسے زحمت نہ بنائیں، کسی پر بوجھ نہ بنیں، گھر کے ہر معاملے میں اپنا حصّہ ڈالیں۔ نیز، بجلی، پانی کے استعمال میں حد درجہ احتیاط کریں۔
خود بھی بول چال میں لغو زبان کا استعمال نہ کریں اور بچّوں کو بھی ہر حال میں بڑوں کا ادب کرنا سکھائیں، اْنہیں رشتوں کی سمجھ بوجھ دیں۔ بلا شبہ، یہ ایک حقیقت ہے کہ دیر سویر بالآخر تمام بھائی اپنا الگ الگ گھر بسا ہی لیتے ہیں، لیکن جب تک ساتھ ہیں، تب تک تو اچھی یادیں اکٹھی کریں کہ مستقبل میں پھر یہی خوش گوار یادیں بہت لْطف دیتی ہیں۔