سیاستمضامین

نو شادی شدہ زندگیوں میں تلخیاں گھولنے والیاں کیا دولہا اور دلہن کی مائیں ہوتی ہیں؟لڑکے کی والدہ اور بہنوں کا ظلم اور لڑکی کے والدین کی ضد اور ہٹ دھرمی تباہی کی اصل وجوہات

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ یہ لمحۂ فکر ہے کہ خاندان کیوں برباد ہورہے ہیں۔
٭ شادی کے ابتدائی تین مہینے ایک آزمائشی دور۔
٭ خاندان کی فلاح و بہبود کیلئے صبر و تحمل کی ضرورت ہے۔
٭ اگر بردباری کا مظاہرہ کیا جائے تو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔
ایک مثال یا حقیقی واقعہ ۔ ایک لڑکی کی شادی رچائی گئی۔ کئی لاکھ روپیہ کرایہ ادا کرکے ایک شادی خانے میں شادی کا اہتمام ہوا۔ تین ہزار مہمانوں کی ضیافت کی گئی۔ شادی کے دن کے اخراجات زائداز بیس لاکھ روپے ہوئے۔ علاوہ ازیں لاکھوں روپیہ مالیتی زیورات‘ کپڑے اور دیگر سامان۔ والدین کو کم و بیش چالیس لاکھ روپیوں کا خرچ برداشت کرنا پڑا۔ دو دن کے بعد ولیمہ کی دعوت ہوئی۔ وہ بھی اسی شان و شوکت کے ساتھ ۔ اس قدر یا اس سے کچھ زیادہ ہی اخراجات ہوئے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ صرف پندرہ بیس دنوں کے اندر ہی یہ ساری خوشیاں ختم ہوگئیں اور اختلافات کا ایک دور شروع ہوا۔ ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف شکایت کرتا ہے۔ لڑکی والوں کا کہنا ہے کہ لڑکے کی والدہ اور بہنیں لڑکی کو ذہنی اذیت میں مبتلاکرتی رہتی ہیں۔ لڑکا اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ لڑکی کے ساتھ اس کا رویہ درست نہیں۔ کچھ دنوں بعد وہ اپنی ملازمت پر چلا جاتا ہے۔ گھر میں ٹیلی فون کی سہولت نہیں ہے۔ پہلے فون پر بات اپنی ماں اور بہنوں سے کرتا ہے اور پھر بعد میں کچھ منٹ اپنی نوبیاہتا دولہن سے بات کرتا ہے اور وہ بھی ماں بہنوں کی موجودگی میں۔ لڑکی کی کو اپنے شوہر سے بات کرنے کی اجازت نہیں ۔ اس بے رخی سے بیزار ہوکر لڑکی اپنے تمام زیورات سمیٹ کر والدہ کے گھر لوٹ جاتی ہے اور پھر واپس نہیں آتی۔
لڑکی ماں اور باپ داماد کے اس ظلم و ناانصافی سے بے حد ناراض رہتے ہیں۔ لڑکے کے والد سے بات ہوتی ہے۔ لڑکے کے والد بگڑجاتے ہیں اور غضبناک ہوکر کہتے ہیںکہ کیا آپ نے اپنی بیٹی کو ایسی ہی تعلیم دی ہے اور ایسی ہی تربیت کی ہے کہ وہ بغیر اجازت گھر چھوڑ کر چلی جائے۔ لڑکی کے والد سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن لڑکے کے دولت مند اور مغرور باپ ایک بات سننے کو راضی نہیں اور غصہ میں آکر کہتے ہیںکہ بس بہت ہوگیا ‘ ہم اس رشتہ کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔
’’ پھر اس کے بعد مقدمات چلتے ہیں جن میں498-A تعزیرات ہندDVC وغیرہ۔ اب بھی مقدمات چل رہے ہیں۔ لڑکے کے نام کی ہندوستان کے تمام ایرپورٹس پر L.O.C. لگی ہوئی ہے۔ وہ واپس نہیں آسکتا اور اگر آئے تو ایرپورٹ پر ہی گرفتار ہوجائے گا۔ کئی سال اسی طرح گزرجائیں گے اور مقدمات چلتے رہیں گے۔ نہ لڑکی کی علاحدگی ہوگی اور نہ اس کی دوسری شادی ہوسکے گی اور نہ ہی لڑکے کی شادی ہوسکے گی۔ لڑکا خلع کیلئے راضی نہیں۔ لڑکی کی عمر بڑھ رہی ہے ‘ یہ اچھی بات رہی کہ وہ حاملہ نہ ہوئی ورنہ معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا۔ اب کئی سال گزرنے کے بعد فریقین کو ہوش آیا۔ لڑکے کے والد کی آتشِ غضب ٹھنڈی ہوچکی ہے اور وہ اب مفاہمت کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ لڑکی والے بھی خلع حاصل کرنے کو بے چین ہیں۔ ابھی تک کوئی نتیجہ نکل نہیں پایا لیکن امید ہے کہ جلد ہی اس مسئلہ کا حل نکل آئے گا۔ فریقین اپنے اپنے اخراجات برداشت کریں گے سات آٹھ سال زندگی کے انتہائی خوبصورت سال برباد ہوگئے۔‘‘
اگر فریقین نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہوتا اور معاشرہ کے بزرگوں اور علمائے دین سے مشورہ کیا ہوتا تو جو آج ہوا ہے بہت پہلے ہی ہوجاتا اور اتنا وقت برباد نہ ہوتا۔ فریقین نودولتیئے ہیں۔ زمینات کے کاروبار میں کروڑوں روپیہ کمایا ہے اور ہر کسی کو روپیہ اور دولت کے ترازومیں تولتے ہیں۔ نہ دین سے واقف ہیں اور نہ ہی فہم دین سے آراستہ ہیں۔ سب کچھ پیسہ ہی ہے۔
جو خاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا
تمہارا لہجہ بتارہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے
اگر ایسے سنگین معاملات میں تالیفِ قلب نہ ہو تو بربادیاں مقدر ہوجائیں گی۔ ہم نے یہ بات اپنے طویل پیشہ وارانہ سفر میں سیکھی کہ جہاں ماں اپنے بیٹے کی بربادی کی ذمہ دار ہے وہیں بیٹی کی ماں بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے۔ ماں اپنی بیٹی کو ورغلاتی ہے کہ کسی طرح اپنے شوہر کوراضی کرکے گھر سے علاحدہ ہوجا اور اپنے گھر کے قریب کوئی کرایہ کا مکان لے کر رہ یا اپنے فلاں مقام پر فلیٹ میں رہ جا۔ لڑکی کی ماں یہ نہیں جانتی کہ وہ کسی اور ماں کے لختِ جگر کو اس سے علاحدہ کروارہی ہے۔ اسے اس بات کا احساس نہیں کہ لڑکے کی ماں کے دل پر کیا گزرے گی۔ مکان علاحدہ لے کر رہنا آج کل کوئی آسان بات نہیں۔ ایک چھوٹے سے فلیٹ کا کرایہ ایک مہینہ کی تنخواہ کے برابر ہے۔
ایسی بھی مثالیں سامنے آئی ہیں کہ والدین صرف اس بات پر ناراض ہوجاتے ہیں کہ ان کی لختِ جگر کی زچگی معیاری میٹرنٹی ہوم میں نہیں کروائی گئی حالانکہ زچہ بچہ دونوں بہ عافیت ہیں اور روبہ صحت ہیں۔ ایک صورت ایسی بھی سامنے آئی کہ ایک خالہ زاد بھائی بہن کی شادی ہوئی۔ لیکن شادی کے دو دنوں بعد ہی لڑکے کی والدہ نے نو شادی شدہ بہو پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیئے۔
گھر میں کام کرنے والی خادمہ کو نکال دیا اور آٹھ افراد کے خاندان کے گھریلو کام کی تمام ذمہ داری بہو پر ڈال دی۔ صبح سے شام تک اسے کام میں مصروف رکھتی اور کسی کوتاہی پر گندی گندی گالیاں دیتی۔ کبھی کبھی ہاتھ بھی اٹھادیتی۔ آخرِ کارظلم وستم سے بے زار لڑکی ماں کے گھر لوٹ آئی اور اب واپس جانے کو تیار نہیں۔ شوہر کی جانب سے بھی کوئی عزت نہیں مل سکی۔ وہاں سے بھی گالیوں کی سوغات ملی۔ یہ بے بس لڑکی اب کہاں جائے۔؟
اگر کوئی ایسی صورت پیش آئے تو لڑکی کو واپس سسرال بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ شادی کے ابتدائی ایک ماہ کے اندر جب لڑکی پر اس طرح کا ظلم روا رکھا جائے تو کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی کہ سسرالیوں کے برتاؤ میں کوئی مثبت تبدیلی بھی پیدا ہوگی لہٰذا علاحدگی کی کوشش شروع کرنی چاہیے اور خلع پر معاملہ کو رفع دفع کرکے لڑکی کی دوسری شادی کی فکر کرنی چاہیے ورنہ ساری زندگی لڑکی ظلم و ستم کی چکی میں پستی رہے گی کیوں کہ عادی ظالم اپنے ظالمانہ رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا۔
فریقِ مخالف اگر خلع کے لئے راضی نہ ہوں تو ان کے خلاف سخت گیر قانونی کارروائی کرنی چاہیے اور ان کو لاکھوں روپیہ بطور ہرجانہ ادا کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔
اجنبی لوگوں سے جلد بازی میں رشتہ طئے نہ کیا جائے۔ خطرات لاحق ہوں گے
یہ ایک مشاہدہ ہے کہ شادی کے ابتدائی تین ماہ اگر خیروعافیت اور محبت و آتشی اور باہمی تعاون کے ساتھ گزرجائیں تو آئندہ زندگی بھی اچھی رہے گی۔ لیکن امتحانی دوریہ ابتدائی تین ماہ ہیں۔ اگر تین ماہ کے اندر ہی یا ایک ماہ کے اندر اختلافات کے بال و پر نکل آئیں تو سمجھ لیناچاہیے کہ آنے والا دور کیسا ہوگا۔ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ لڑکی والے اپنی جلد بازی کی وجہ سے کچھ ایسے فیصلے کرلیتے ہیں جو مستقبل میں ان کی تباہی کی باعث بنتے ہیں۔ ان میں ایک ارجنٹ شادی ہے۔ لڑکا امریکہ سے آیا ہوا ہے۔ کوئی لین دین کی ضرورت نہیں۔ شادی معیاری ہونی چاہیے۔ لڑکی کا رنگ گورا ہو‘ وغیرہ کے اشتہارات ہوتے ہیں جن سے متاثر ہوکر آٹھ دس دنوں کے اندر ہی شادی کردی جاتی ہے۔ ایسی شادیاں بربادی کا پیغام لاتی ہیں۔ لڑکا جو واپس جاتا ہے تو پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ جب والدین سے دریافت کیا جائے تو وہ کہتے ہیں ہم برابر کوشش کررہے ہیں لیکن وہ نہیں آرہا ہے۔
یہاں اس رائے کے اظہار کی ضرورت ہے کہ رشتہ کو کم از کم چھ ماہ تک لٹکائے رکھنا چاہیے اور اس ضمن میں لڑکے اور اس کے خاندان اور امریکہ یا غیر ممالک میں اس کی تمام تفصیلات حاصل کرنا چاہیے۔ تحقیقات یا تو خود کی جاسکتی ہیں یا کسی جاسوسی ادارہ کے ذریعہ تفصیلات معلوم کروائی جاسکتی ہیں تاکہ صحیح موقف معلوم ہوسکے۔ ایسے اداروں کی کمی نہیں گوگل سرچ کیجئے۔ آپ کو کئی تحقیقاتی یا جاسوسی ادارے مل جائیں گے۔ اکثر خواتین ان اداروں کے ذریعہ اپنے شوہروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتی ہیں اور یہ ادارے انتہائی پیشہ وارانہ ایمانداری اور فرض شناسی سے آپ کو حقیقی حالات سے واقف کرواسکتے ہیں۔ ایسے اداروں کے لوگ امریکہ‘ برطانیہ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں موجود ہیں جو مطلوبہ معلومات فراہم کرواسکتے ہیں۔ ان اداروں کو آپ کو فیس ادا کرنا ہوگا۔
شادی کے ابتدائی دنوں میں اگر لڑکی پر تشدد کیا جائے تو سسرال والوں کو سدھرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ اگر لڑکی پر ہاتھ اٹھایاجائے تو فوری طور پر قانونی کارروائی کی ضرورت پیش آئے گی۔ معاملہ پولیس تک جائے گا اور پولیس لڑکے اور اس کے والدین کو طلب کرکے پابندِ مچلکہ کرے گی کہ آئندہ ایسی کوئی غلطی نہیں ہوگی۔ ایسے حالات میں اگر خاندان کے بزرگ افہام و تفہیم کی بات کریں تو کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں ایسا نہ کرنا چاہیے کیوں کہ اگر ایک بار لڑکی پر ہاتھ اٹھ جائے تو سمجھ جائیے کہ ایسا ہی ہمیشہ ہوتا رہے گا اور لڑکی ظلم سہنے کی عادی ہوجائے گی اور ظالم شوہر یا اس کی ماں کو بھی چھوٹ مل جائے گی کہ ظلم کرتے رہو۔ ہمیں کون روکنے والا۔ لہذا ہاتھ اٹھانے کی خطا کو کبھی معاف نہیں کرنا چاہیے۔
عدالتوں میں اس نوعیت کے مقدمات کئی سال تک چلتے رہتے ہیں۔ دونوں فریقین عدالتوں کا چکر کاٹتے ہوئے اور پیسہ برباد کرکے تھک جاتے ہیں۔ لہٰذا اولین اوقات میں ہی اس مسئلہ کا حل تلاش کرلینا چاہیے۔
شادی میں دیئے ہوئے زیورات ۔ لڑکا حق
دولہے والوں کی جانب سے دلہن کو چڑھائے ہوئے زیوارت دلہن کی ملکیت ہوجاتے ہیں اور انہیں ہبہ یا GIFT سمجھا جائے گا۔ لڑکے والوں کا ان کی جانب سے چڑھائے ہوئے زیورات کی واپسی کا مطالبہ ناجائز اور غیر قانونی ہوگا کیوں کہ تحفہ دے کر واپس نہیں لیاجاسکتا۔ اس ضمن میں اگر اس رائے سے اتفاق رائے نہ ہو تو شہر کی سب سے بڑی دینی جامعہ سے فتویٰ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
بیوہ کو ہر حال میں حقِ وراثت ملے گا
سوال:- ہمارے والد صاحب سرکاری عہدیدار تھے۔ وظیفہ کے بعد انہوں نے ایک بیوہ خاتون سے نکاح کیا کیوں کہ ہماری والدہ صاحبہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ نکاح کے وقت والد صاحب نے کہا تھا کہ ان کی نئی بیوی ان کے انتقال کے بعد صرف فیملی پنشن کی حقدار ہوگی اور ان کی تمام جائیدادوں ‘ مکانات ‘ دوکانات ‘ زرعی اراضیات اور پلاٹس پر ہم بھائیوں اور بہنوں کا حق ہوگا اور ان کی دوسری بیوی کو کچھ نہیں ملے گا۔
والد صاحب نے کوئی وصیت نہیں کی اور نہ ہی اپنی وسیع جائیدادوں کو ہمارے نام کیا۔ شادی کے دس سال بعد والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ان کی بیوہ کو فیملی پنشن جو ماہانہ ساٹھ ہزارروپیہ ہے جاری ہوگیا کیوں کہ والد صاحب کلاس ون عہدیدار تھے۔ والد صاحب سے عہد لینے کے باوجود ان کے انتقال کے بعد ان کی بیوہ نے تمام جائیدادوں کی تقسیم ترکہ کا دعویٰ کیا ہے اور تمام جائیدادوں میں آٹھواں حصہ مانگ رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ کیا قانونی اعتبار سے اور شرعی اعتبار سے درست ہے۔ ہم اس مقدمہ کی وجہ سے جائیدادوں کو جن کی تعداد11 ہے تقسیم نہیں کرسکتے۔ آپ سے اس ضمن میں رائے درکار ہے جبکہ ایڈوکیٹ صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ مقدمہ جیت کر دکھائیں گے اور دعویٰ خارج کروادیں گے۔
X-Y-Z برادران
حیدرآباد
جواب:- ایڈوکیٹ صاحب کا دعویٰ باطل ہے۔ بیوہ مرحوم والد صاحب کے متروکہ میں آٹھویں حصہ کی حقدار ہے۔ اگر والد صاحب ہبہ کے ذریعہ جائیدادوں کو آپ بھائیوں بہنوں میں تقسیم کردیتے تو دوسری بات ہوتی۔

a3w
a3w