حیدرآباد

چارمینارکے دامن میں بھاگیہ لکشمی مندر کا ڈھانچہ غیرقانونی: محکمہ آثارقدیمہ

“ اس تاریخی شہر کا نام پہلے سے ہی حیدرآباد ہے۔ شہر کے نام کوتبدیل کرنے کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ اے ایس آئی نے یہ بھی کہاہے کہ چارمینارکے دامن میں موجود”بھاگیہ لکشمی“ مندر کابھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔

حیدرآباد: مختلف سیاسی قائدین اورفرقہ پرست عناصر کی جانب سے حیدرآباد کودوبارہ بھاگیہ نگر سے موسوم کرنے کے اصرارکے درمیان آرکیو لوجیکل سروے آف انڈیا (محکمہ آثارقدیمہ‘ اے ایس آئی)نے آج صاف انداز میں کہہ دیا ہے کہ ایسا کوئی تاریخی ثبوت یا قبل ازیں ریکارڈ نہیں ہے جس سے یہ اشارہ ملتاہے کہ ”بھاگیہ نگرکوحیدرآبادسے موسوم کیاگیا ہے۔

“ اس تاریخی شہر کا نام پہلے سے ہی حیدرآباد ہے۔ شہر کے نام کوتبدیل کرنے کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ اے ایس آئی نے یہ بھی کہاہے کہ چارمینارکے دامن میں موجود”بھاگیہ لکشمی“ مندر کابھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔

آرٹی آئی جیدکارروبن زاکسیس کی جانب سے قانون حق جانکاری کے تحت پوچھے گئے سلسلہ وار سوالات کا جواب دیتے ہوئے آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا نے یہ بات واضح کردی ہے۔ آرٹی اے جیدکار روبن نے قانون حق جانکاری کے تحت جواب طلب کرتے ہوئے یہ پوچھاکہ آیا شہر کے نام اور زیر بحث بھاگیہ لکشمی مندر کی موجودگی سے متعلق کوئی تاریخی ثبوت یا ریکاڈرموجود ہے؟۔

اے ایس آئی حیدرآباد سرکل جس کے تحت چارمیناراورقلعہ گولکنڈہ بھی شامل ہے نے کہاکہ ”ہمارے دفتر میں اس طرح کی کوئی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں“۔ روبن کے سوال کے جواب میں اے ایس آئی نے یہ بات کہی۔ آرٹی آئی کے مطابق ”شہر حیدرآباد کانام کبھی بھی بھاگیہ نگرنہیں تھا۔ بھاگیہ نگر یا کوئی اور نام نہیں رکھاگیا تھا۔

 جواب میں یہ بھی واضح کردیاگیا کہ ”بھاگ متی یا بھاگیہ نگر کے نام سے کوئی عبارت (نوشتہ) چھوٹی تصویر یا سکہ کاکوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ محکمہ آثارقدیمہ نے دعویٰ کیا کہ ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ ملک کے سابق نائب وزیر اعظم سردار ولبھ بھائی پیٹل نے حیدرآباد کو بھاگیہ نگریاکسی اورنام سے موسوم کرنے پر اصرار کیاہے۔

 محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) نے یہ تسلیم کیاکہ چارمینار کے دامن میں موجودمندر کاڈھانچہ قانونی ہے اوریہ ڈھانچہ 1960 کی دہائی کے اواخر میں تعمیر کیاگیا تھا۔ 2019 میں حیدرآباد میں منعقدہ لامکان کے دوران سابق اے ایس آئی سپرنٹنڈنٹ ملن کمار چاولے نے اس کارعادہ کیاتھا۔

 قبل ازیں محکمہ آثار قدیمہ نے جون میں قانون حق جانکاری کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں واضح کردیاتھا کہ تلنگانہ میں ہندو مذہبی مقامات پر ماضی میں مسجد کی تعمیر کا کوئی تاریخی دستیاویزی ثبوت نہیں ہے۔روبن کے سوال کے جواب میں محکمہ آثار قدیمہ نے یہ وضاحت کی تھی۔