طنز و مزاحمضامین

’’ تھری ایڈیٹس ‘‘

ہم نے ان سے کہا: ہم ٹراویل ایجنسی کے دفتر پر ہیں، بس کے ذریعے ناگپور جانے کی بات ہورہی ہے … کہنے لگے ’’بس کی ضرورت نہیں ہے ،تم دونوں فوری ریلوے اسٹیشن آجاؤ، ہماری ٹرین آچکی ہے ۔‘‘ ہم نے کہا ’’وہ کوئی اور ٹرین ہوگی …تمچپ چاپ وہیں کھڑے رہو، ہم کچھ ہی دیر میں حاضر ہوتے ہیں ۔‘‘ ہماری گفتگو سن کر ٹراویل ایجنسی کا منیجر تاڑ گیا کہ ہم دونوں کے علاوہ ایک اور بھی نادان پنچھی ہے،کہنے لگا ’’ آپ اپنے دوست کو سنبھالیے ،کہیںایسا نہ ہو کہ وہ کسی اور ٹرین میں سوار ہوجائیں اور پھر انہیں پکڑنے کے لیے آپ دونوں کو ان کی ٹرین کا پیچھا کرنا پڑے…‘‘ ا

حمیدعادل

2009ء میں عامر خان کی فلم ’’ تھری ایڈیٹس ‘‘ آئی تھی، تین دوستوں کی نادانیوں کو ہم نے خوب ہنس ہنس کر دیکھا تھا لیکن کسے پتا تھا کہ مشکوک حیدرآبادی، چمن بیگ او رخود ہم میں بھی ’’تھری ایڈیٹس ‘‘بستے ہیں…
پچھلے دنوں مشکوک، چمن اور ہم نے ناگپور کے لیے ایک ہفتہ قبل ٹرین کی ٹکٹیں بک کروائیں … یہ الگ بات ہے کہ آخری لمحات تک بھی ہمارا ناگپورجانا آسان نہ تھا کیوں کہ ہم دنیا کے مصروف ترین آدمی Matt Moran نہ ہونے کے باوجود بے انتہا مصروف رہتے ہیں…ٹرین شام چھ بجے نامپلی سے تھی، ہم دفتری کام نمٹا کر ریلوے اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئے جب کہ چمن بیگ اور مشکوک حیدرآبادی گھر سے اسٹیشن پہنچ رہے تھے…
شہر جو کئی دنوں سے موسم برسات میں گرما کی سزا کاٹ رہا تھا،اچانک بادل گھر آئے اور اچھی خاصی برسات شروع ہوگئی… ’’نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے‘‘ کی طرز پر ’’ نہ جانے کس گلی میں برسات ہوجائے ‘‘کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے برساتی اپنے بیاگ میں ٹھونس رکھی تھی لیکن بہت دیر تک برساتی پہننا گوارا نہ کیا ، دراصل ہم سیاہ رنگ سے مشابہ رنگ کی برساتی پہنتے ہیںتو محسوس ہوتاہے گویا ہم نے برقعہ پہن لیا …لیکن جب سیاہ بادل شدت سے پانی انڈلینے لگے تو ہم نے بادل نخواستہ برساتی اوڑھ ہی لی اور ریلوے اسٹیشن کے باہر مشکوک اور چمن کا انتظار کرنے لگے…دریں اثنا سل فون کی گھنٹی بجی،دوسری جانب چمن بیگ تھے،جو پوچھ رہے تھے کہ’’ کہاں ہو؟‘‘ہم نے کہا ’’ ہم تو ریلوے اسٹیشن کے باب الداخلہ پر کھڑے ہیں… کہنے لگے ’’ ہم بھی تو وہیں کھڑے ہیں…‘‘پلٹ کر دیکھا تو وہ بالکل ہمارے پیچھے کھڑے تھے اور بری طرح سے بھیگ چکے تھے…’’ تم لوگوںنے برساتی کیوں نہیں لی؟‘‘ ہمارے سوال پرمشکوک کہنے لگے ’’برساتی ساتھ رکھتا ہوں تو برسات نہیں ہوتی، برسات نہیں ہوتی تو بڑی کوفت ہوتی ہے، لہٰذااس کوفت سے بچنے کے لیے میں نے برساتی لینا مناسب نہیں سمجھا۔‘‘ ہم مسکرا کر چپ ہوگئے ، لیکن سوچنے لگے کہ اگر ہر انسان مشکوک کی طرح سوچے تو پھر جینا محال ہوجائے گا …
ہم پینتالیس سال بعد ٹرین میں دوسری بار سفر کرنے یا انگریزی میں Sufferہونے کے لیے تیار کھڑے تھے … شام کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے، جب کہ ٹرین کی روانگی کا وقت چھ بجے تھا…انکوائری کاونٹر سے پتا چلا کہ مطلوبہ ٹرین پلیٹ فارم نمبر پانچ یا چھ پر آئے گی… ہم تین دوست معہ سامان ریلوے بریج کی سیڑھیاں چڑھ کراس پار پہنچے جہاں پلیٹ فارم نمبر پانچ ہمارا منتظر تھا اور پاس ہی پلیٹ فارم نمبر چھ بھی ہمیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا… لیکن دونوں ہی پلیٹ فارمس پر دور دور تک کوئی مسافر نہ تھا …ہمارا ماتھا ٹھنکا اور دل میں وسوسوں نے شور مچانا شروع کردیا…پہلا وسوسہ یہ آیا کہ کہیں ٹرین ملتوی تو نہیں ہوگئی ؟دوسرا خیال یہ آیا کہ اگر ٹرین لیٹ ہے یا ملتوی ہوگئی ہے تو پھر انکوائری کاونٹرپر موجود خوبصورت سی لڑکی نے ہمیں اس سے آگاہ کیوں نہیں کیا ؟ہمیں کیوں اس ویران پلیٹ فارم پر بھیج دیا ؟ہم ان ہی سوالات میں غلطاں و پیچاں تھے، لیکن چمن بیگ اور مشکوک حیدرآبادی ان تمام سوالات سے بے نیاز اپنی ایک دوسری ہی دنیا میںمگن تھے…ہم نے موبائل پر مطلوبہ ٹرین کا اسٹیٹس چیک کیا اور پھر ٹرین کے مختلف اسٹیشنوں پر مختلف اوقات کا جائزہ لیا تو ہمیں اپنی اوقات معلوم ہوگئی ..ہم صبح چھ بجے کی ٹرین کا شام چھ بجے انتظار کررہے تھے… ہم نے اور چمن بیگ نے یہی سوچ کر ٹکٹ بک کروائے تھے کہ شام کو دفتر سے چھوٹیں گے تو سیدھے ٹرین میں ہوں گے ، رات ٹرین میں اور صبح ناگپور میں …جس طرح ساون کے اندھے کو سب کچھ ہرا نظر آتا ہے ،ٹھیک اسی طرح ہم جیسے شام کے مارے کو صبح کا وقت شام کا وقت نظر آگیا تھا … جب تازہ ترین صورت حال سے ہم نے چمن اورمشکوک کوآگاہ کیا تو وہ سکتے میں آگئے لیکن دل سے یہ تسلیم کرنے کو ہرگزراضی نہ تھے کہ ہم سے ایسی خوفناک غلطی سرزد ہوگئی ہے…. ہم تینوں ہی اس بات کو یکسر نظر انداز کرگئے تھے کہ دن کے بارہ بجے کے بعد ایک نہیں بلکہ تیرہ بجتے ہیں …ٹکٹ پر ٹرین کی روانگی کا جو وقت تھا، وہ چھ بجے تھا، جسے ہم تینوں ہی عقلمندوں نے شام کے چھ بجے سمجھا …مشکوک اور چمن بیگ کی سادہ لوحی ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے یہ تو مان لیا تھا کہ اگر ہماری ٹرین کا وقت شام کے چھ بجے ہوتا توپھر ٹکٹ پر چھ نہیں ’’اٹھارہ‘‘لکھاہوتا،لیکن وہ یہ بات تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہ تھے کہ ہماری مطلوبہ ٹرین صبح چھ بجے ہم تینوں کو لیے بغیرروانہ ہوچکی ہے … مشکوک حیدرآبادی نے ہمیں اس احمقانہ حرکت پر اکسانا شروع کردیا کہ ہم انکوائری کاونٹر پر جائیں اور پتا کریں کہ کیا واقعی ٹرین صبح چھ بجے روانہ ہوچکی ہے ؟ انہیںانکوائری کاونٹرکی لڑکی سے بڑی شکایت تھی کہ جب ہم نے اس سے پوچھا کہ ہماری مطلوبہ ٹرین کس پلیٹ فارم نمبر پر آئے گی؟تو اس نے ہمیں یہ کیوں نہیں کہاکہ وہ ٹرین صبح روانہ ہوچکی ہے ؟ہمیں خواہ مخواہ اتنی دورکیوں بھیج دیا؟‘‘ہم نے مشکوک سے کہا: فکر نہ کرو، یہ ٹرین نہ سہی اور سہی…ہم نے معروف شاعرقلق میرٹھی کا شعر گنگنا دیا:
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
انکوائری کاونٹر پرہمیںروانہ ہوچکی ٹرین سے متعلق دریافت کرنا،گوارا نہ ہوا…سوہم نے ٹکٹ چمن بیگ کے ہاتھ میں تھمادیا… جو اس صدمے سے زیادہ کہ ہماری ٹرین صبح روانہ ہو چکی ہے، اس بات پر خوش تھے کہ انہیں کسی لڑکی سے بات کرنے کا موقع مل رہا ہے …انہوں نے ٹکٹ لڑکی کے روبرو لہرا کر پوچھا ’’ میڈم بتائیے تو یہ ٹرین کیا واقعی صبح روانہ ہوچکی ہے ؟‘‘ انکوائری کاونٹر پر بیٹھی لڑکی نے مسکرا کردو ٹوک انداز میں جواب دیا ’’ جی ہاں!… وہ چمن بیگ کی جانب کچھ ایسی معنی خیزنگاہوں سے دیکھنے لگی جیسے کہہ رہی ہو:’’تو آج بھی ایسے نمونے پائے جاتے ہیں !‘‘ہم تین دوست ،اس بدھو سے کم نہ تھے جو گھر میں کھوئی ہوئی سوئی کو سڑک پر ڈھونڈتا ہے اور دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ گھر میں چونکہ اندھیرا ہے، اس لیے وہ سوئی روشن سڑک پر ڈھونڈ رہاہے …
ہم نے چمن بیگ کو انکوائری کاونٹر سے اٹھا کر ٹکٹ کاونٹر پر کھڑا کردیا تاکہ ہم کسی اگلی ٹرین کے ذریعے ناگپور روانہ ہوسکیں … خاتون ٹکٹ کلکٹر کے روبرو کھڑے ہوکر چمن بیگ نے درد ناک انداز میں ٹرین کے چھوٹ جانے کا احوال سنانا شروع کردیا،وہ اپنی کہے جا رہے تھے، لیکن ہمیں سنائی یہ دے رہا تھا :
’’ایکسکیوز می میڈم!ہم سافٹ ویر انجینئرس ہیں ، انٹرویو کے لیے یہاں آئے تھے، کسی نے ہمارا بیاگ چوری کرلیا، سارے پیسے اسی میں تھے،آپ ہمیں ناگپور پہنچا دیں، بڑی مہربانی ہوگی ۔‘‘
خاتون ٹکٹ کلکٹر نے چمن بیگ کا مدعا سن کر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا : ٹکٹ کی کوئی رقم واپس نہیں ہوگی… اور پھراس نے چمن کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد جیسے ہی ہماری جانب ایک اچٹتی نظر دوڑائی ، ہم شرما کرمنظر سے غائب ہوگئے …چمن بیگ کے سوال کے جواب میں محترمہ نے کہا کہ آٹھ بجے ٹرین ہے ،لیکن آپ کو ٹکٹ کی ڈبل رقم ادا کرنی ہوگی… ایک ٹکٹ کی رقم آٹھ سو روپئے ہوگی …یعنی ہم تین احمقوں کا کرایہ 2,400روپئے ہو گا…پہلی بات تو یہ کہ ہم اتنا زیادہ کرایہ ادا کرنے کے موڈ میں نہ تھے اور دوسری بات یہ کہ نشست کے ملنے کی کوئی گیارنٹی بھی نہ تھی… یعنی جہاں خالی نشست نظر آئے ہمیں جم جانا تھا اور جیسے ہی نشست کا دعویدار وارد ہوجائے ہمیں تعظیماً اٹھ جانا تھا…ہم یہ اذیت ناک رات کا سفرقطعی برداشت نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی گھر لوٹ سکتے تھے،کیوں کہ ہم نے گھر جانے والی ساری کشتیاں جلا ڈالی تھیں… چمن گھر لوٹ جانا چاہتے تھے،ہم نے انہیں سمجھایا:کیا تم گھر پہنچ کر یہ کہوگے کہ ٹرین صبح کی تھی اورہم اسے شام کی سمجھ بیٹھے تھے ؟یاد رکھو چمن!ہم مذاق کا موضوع بن کر رہ جائیں گے ،بیگم کہیں گی اتنی عمر ہوگئی،ہوشیاری آج تک نہیں آئی اور بچے الگ ہم پر ہنسیں گے… بات یہیں پرختم نہیں ہوگی،’’بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی ‘‘ کے مصداق قریبی رشتے داروں اور دوست احباب کے علاوہ سسرالی رشتے داروں تک ہماری نادانیوں کے قصے زبان زد خاص و عام ہوں گے… ہم ،ہم نہ رہ کر چلتا پھرتا لطیفہ بن کررہ جائیں گے، جدھر سے گزریں گے لوگ ہم پر ہنسیں گے …ہم کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہیں گے میرے بھائی ،ہم کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہیں گے …‘‘ ہماری جذباتی تقریر اثر کرگئی اور چمن بیگ نے ہمارا کاندھا مضبوطی سے پکڑکر کہا ’’ ہم بس کے ذریعے ناگپور جائیں گے!‘‘
فلم ’’ وہ کون تھی؟‘‘ کا معروف نغمہ ہے ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے ؟‘‘ لیکن جب ہم نے ٹراویل ایجنسی کے منیجرکو اپنی داستاں سنائی تو وہ بے ساختہ ہنس پڑا…اسے اپنی درد ناک داستاں سنانا ضروری بھی تھا تاکہ ہمدردی بٹوری جاسکے … یہ گر ہم نے اپنے نام نہاد نیتاوں سے سیکھا ہے جو sympathyکے ووٹ حاصل کرکے انتخابات جیت جاتے ہیں ،سو ہم بھی جیت گئے …ٹراویل ایجنسی کے منیجر نے فی ٹکٹ سو روپئے کم کردیے اور کہا کہ ساڑھے آٹھ بجے بس کی روانگی ہوگی…چمن بیگ گڑگڑائے: ہم دو ڈھائی گھنٹے کیا کریں گے، جتنی جلدی ہوسکے ہمیں ناگپور روانہ کردیجیے …منیجر نے کچھ سوچ کر کہا ’’ ٹھیک ہے، ساڑھے چھ بجے ایک بس ہے، آپ کواس میں ایڈجسٹ کیے دیتا ہوں ۔‘‘ وہ فون پر مسلسل ہمیں کسی نہ کسی طرح ناگپور بھیجنے کے لیے کوشاں تھااور اُدھر مشکوک حیدرآبادی مسلسل کالس کر رہے تھے، ان کا ہمیشہ یہی سوال ہوتا ’’ کہاں ہو؟‘‘ شاید انہیںگمان ہوچلا تھا کہ ہم انہیں معہ سامان ریلوے اسٹیشن پر اکا و تنہا چھوڑ کر چمن بیگ کے ہمراہ ناگپور فرار ہو چکے ہیں …ہم نے ان سے کہا: ہم ٹراویل ایجنسی کے دفتر پر ہیں، بس کے ذریعے ناگپور جانے کی بات ہورہی ہے … کہنے لگے ’’بس کی ضرورت نہیں ہے ،تم دونوں فوری ریلوے اسٹیشن آجاؤ، ہماری ٹرین آچکی ہے ۔‘‘ ہم نے کہا ’’وہ کوئی اور ٹرین ہوگی …تمچپ چاپ وہیں کھڑے رہو، ہم کچھ ہی دیر میں حاضر ہوتے ہیں ۔‘‘ ہماری گفتگو سن کر ٹراویل ایجنسی کا منیجر تاڑ گیا کہ ہم دونوں کے علاوہ ایک اور بھی نادان پنچھی ہے،کہنے لگا ’’ آپ اپنے دوست کو سنبھالیے ،کہیںایسا نہ ہو کہ وہ کسی اور ٹرین میں سوار ہوجائیں اور پھر انہیں پکڑنے کے لیے آپ دونوں کو ان کی ٹرین کا پیچھا کرنا پڑے…‘‘ اتنا کہہ کر اس نے گبر سنگھانہ قہقہہ لگا دیا اور ہم دونوں بھی اس کے قہقہے میںسامبھا اور کالیا کی طرح شامل ہوگئے … رقم کی ادائیگی کے بعد رسید ہمارے حوالے کرتے ہوئے اس نے کہا: ’’آپ دونوں فوری اپنے تیسرے ساتھی کے ہاں پہنچئے،ان کے بنا فلم مکمل نہیں ہوسکتی…اس وقت تو ہم مسکرا کر وہاں سے کھسک گئے لیکن کچھ دور جانے کے بعد غیب سے آواز آئی ’’ نادانو! وہ بڑے سلیقے سے تمہیں ’’ تھری ایڈیٹس ‘‘ کہہ گیاہے…‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰