جنوبی بھارت

مسلح شخص اسکول میں بچوں سے بھری جماعت میں گھس پڑا، ویڈیو وائرل

مالدہ کے ڈی ایس پی اظہرالدین نے مسلح شخص کو بات میں الجھاتے ہوئے اچانک اس کے جسم پر کود کر اپنے قابو میں کرلیا۔اس طرح اسکول میں کوئی بڑا واقعہ ہونے سے بچ گیا۔ اظہرالدین اس جرأت مندانہ قدم کی وزیرا علیٰ ممتا بنرجی نے تعریف کرتے ہوئے خوشی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولس آفیسر کے اس اقدام کی وجہ سے معصوم بچوں کی جان بچ گئی۔

کلکتہ: مغربی بنگال کے مالدہ ضلع کے کے موچیا چندر موہن ہائی اسکول میں اس  وقت صورت حال دھماکہ خیز ہوگئی جب ایک نوجوان بندوق اور آتشیں سامان لے کر ایک کلاس روم کو ہائی جیک کرلیا۔اس وقت بڑی تعداد میں طلبا و طالبات کلاس روم میں موجود تھے۔

متعلقہ خبریں
محمد اسدالدین، یوتھ کانگریس کے چیرمین اسپورٹس سیل مقرر
پشاور کے سربند تھانے پر دہشت گردانہ حملہ
دلیپ گھوش اور سپریہ شریناتے کو الیکشن کمیشن کی نوٹس
ممتا بنرجی کا رات بھر دھرنا
بی جے پی کے خلاف لڑنے ممتا بنرجی بے حد ضروری: جئے رام رمیش

تاہم مالدہ کے ڈی ایس پی اظہرالدین نے مسلح شخص کو بات میں الجھاتے ہوئے اچانک اس کے جسم پر کود اپنے قابو میں کرلیا۔اس طرح اسکول میں کوئی بڑا واقعہ ہونے سے بچ گیا۔ اظہرالدین اس جرأت مندانہ قدم کی وزیرا علیٰ ممتا بنرجی نے تعریف کرتے ہوئے خوشی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولس آفیسر کے اس اقدام کی وجہ سے معصوم بچوں کی جان بچ گئی۔

تاہم اظہرالدین خان نے کہا کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کیا ہے اور یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔جس وقت اظہر الدین مسلح شخص پر جمپ لگاکر قابو کرنے کی کوشش کررہے تھے اس وقت مسلح شخص نے گولی چلانے کی کوشش کی مگر اظہر الدین خان نے اس وقت تک مسلح شخص کو قابو میں کرلیا تھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق بندوق بردار کانام دیو ولبھ ہے اس کی بیوی مقامی پنچایت کی بی جے پی رکن ہے۔تاہم اب تک یہ بات سامنے نہیں آئی ہے کہ اس نے اسکول کو ہائی جیک کیوں کیا، اس کے پاس بندوق کہاں سے آئے۔

اسکول کے اساتذہ نے بتایا کہ اسکول کا گیٹ بند تھا صرف آمدو رفت کیلئے ایک چھوٹا دروازہ کھولا رکھا گیا تھا۔اچانک ایک شخص اسکول میں داخل ہوا اور ایک کلاس روم میں جہاں چھوٹے بچے اور بچیاں تھیں کو ہائی جیک کرلیا۔اس کے پاس بندوق، تیزاب سے بھری دوبوتلیں اور دیگر اسلحہ تھا۔اسکول انتظامیہ نے ا س کی اطلاع فوری طور پولس کو دی تھی۔

اس درمیان خبر پھیلتے ہی بچوں کے گارجن اسکول کے احاطے میں داخل ہوگئے اور واقعہ کی وجہ سے پورے علاقے میں کہرام مچ گیا ہے۔ پولیس نے والدین سے پرسکون رہنے کی درخواست کی۔ موقع پر پہنچی پولس کیلئے جہاں مسلح شخص کو قابو میں کرنا مشکل تھا وہیں بے قابو گارجین کو سنبھالنا مشکل ہورہا تھا۔

مسلح شخص میڈیا اہلکار سے بات کررہا تھا اور بچوں کو ہائی جیک بنانے کا فوٹیج ٹی وی چینلو ں پر لائیو چل رہاتھا۔میڈیا اہلکاروں سے بات کرنے میں مصروف مسلح شخص جیسے ہی معمولی غفلت برتی۔موقع پر موجود مالدہ ضلع کے ڈی ایس پی اظہرالدین جو سادہ لباس تھے اور کہیں سے پولس آفیسر نہیں لگ رہے تھے نے حملہ کرکے مسلح شخص کو قابو میں کرلیا۔

ڈی ایس پی اظہر الدین خان نے بتایا کہ وہ اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ بدھ کی دوپہر کو اچانک ایک خبر آئی کہ ایک بندوق بردار موچیا چندرموہن ہائی اسکول میں داخل ہوگیا ہے اور بچو ں کو ہائی جیک کرلیا ہے۔میں فورا ً اسکول پہنچ گیا۔چوں کہ مسلح شخص بچو ں کے قریب کھڑا تھا۔

معمولی سی حرکت کی وجہ سے وہ بچوں پر بھی بندوق چلا سکتا تھا۔اس کی وجہ سے پولس اہلکار آگے نہیں بڑھ رہے تھے۔ بندوق بردار دیو ولبھ پولیس کو دیکھ کر غصے میں آ جاتا ہے۔ اس وقت اظہر الدین نے اچانک اپنی جان خطرے میں ڈالی اور بندوق بردار کے اوپر چھلانگ لگا دی۔ بندوق تھامے ہاتھ اٹھائے بھی تو بندوق بردار نے کم طاقت نہیں دکھائی۔ لیکن اس وقت تک دوسرے پولیس والے بھی اظہر الدین کی مدد کے لیے آگے آگئے۔

اظہرالدین ہاتھ پر معمولی چوٹ کے باوجود بندوق بردار کو پکڑ کر خوش ہیں۔اظہر الدین نے کہاکہ انہیں یہ خیال آیا کہ ان طالب علموں کا کیا ہوگا۔دماغ کام نہیں کررہاتھا۔بچوں کی جان بچانی میری پہلی ترجیح تھی۔اسی درمیان چھلانگ لگانے کا منصوبہ بنایا اور اس پر چھلانک لگاکر مسلح شخص کو قابو میں کرلیا۔

ڈی ایس پی اظہرالدین خان کلکتہ شہر کے پارک سرکس کے رہنے والے ہیں۔ سٹی کالج میں فزیالوجی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد پولیس میں نوکری لی۔ ڈھائی سال پہلے ہی ان کا مالدہ ٹرانسفر ہواہے۔جس سکول پر حملہ ہوا وہ ڈی ایس پی کے طور پر ان کے علاقے میں آتا ہے۔

بندوق بردار پر چھلانگ لگاتے وقت اپنی جان کے خطرے کے بارے میں نہیں سوچا؟ اظہر الدین خان نے کہا کہ میں وہاں گیا اور دیکھا کہ طلبہ کے چہرے خشک ہیں۔ میں ابھی باپ نہیں ہوں۔ چند سال پہلے ہی شادی ہوئی۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ وہ میرے بچے ہیں۔

بندوق بردار پولیس کو دیکھ کر غصے میں آ جاتا تھا۔ اس لئے میں ا سکول کے پچھلے حصے میں چلا گیا۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ پولیس کی وردی سے کچھ نہیں ہو سکتا، میں نے ایک مقامی شخص سے ٹی شرٹ مانگی۔ قمیض کے بجائے ٹی شرٹ پہنیں اور اپنے جوتے اتار کر چپٹے پاؤں پہنیں۔

 بیلٹ بھی اتاردیا۔ میں نے دیکھا کہ بندوق بردار میڈیا کے نمائندوں سے نہیں ڈررہا ہے تصویریں کھینچوا اور اور باتیں کررہا ہے۔ میں میڈیا ورکرز سے بھی گھل مل گیا۔ اسے سمجھ نہیں آئی کہ میں پولیس والا ہوں۔ اس کے بعد میں موقع پاتے ہیں اس پر چھلانک لگادی۔

اظہر الدین نے کہاکہ ”اس نے بندوق چلانے کی کوشش کی۔ لیکن میں نے پہلے ہی بندوق پکڑے ہوئے ہاتھ کو اوپر کر لیا تھا۔ اس کے بعد میں نے پوری طاقت سے اسے زمین پر پھینک دیا۔ میں نے پہلے ہی پولیس والوں سے کہہ دیا تھا کہ میرے پیچھے رہیں۔

 بعد میں جب اس شخص کو باہر لایا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کے پاس ایک اور بندوق اور ایک چاقو تھا۔ پٹرول بم بھی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ”بڑا خطرہ ہو سکتا تھا۔ بندوق بردار کو پکڑنے کے بعد ہم نے طلبا کو باہر نکالنے میں تیزی کی۔بچے پریشان تھے