’’یوگا‘‘کی شرعی حیثیت
’’یوگاکے بارے تحقیق یہ ہے کہ اصل لفظ یوگا نہیں بلکہ یوگ ہے ،ہندو دھرم گرنتھوں میں لفظ یوگ کاذکر بہ کثرت ہوا ہے، ان گرنتھوں کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستانی کلچر میں یوگ صدیوں سے رائج رہا ہے اور ہندوازم میں یوگ ایک ایسا مذہبی فلسفہ ہےجس کے ذریعہ ایشور کو یاد کیا جاتاہے
مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786
’’یوگاکے بارے تحقیق یہ ہے کہ اصل لفظ یوگا نہیں بلکہ یوگ ہے ،ہندو دھرم گرنتھوں میں لفظ یوگ کاذکر بہ کثرت ہوا ہے، ان گرنتھوں کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستانی کلچر میں یوگ صدیوں سے رائج رہا ہے اور ہندوازم میں یوگ ایک ایسا مذہبی فلسفہ ہےجس کے ذریعہ ایشور کو یاد کیا جاتاہے،نیز یوگ کو آتما سے پرماتما کا ملن مانا گیا ہے اس لئے یوگ میں خاص قسم کےمذہبی کلمات کی ادائیگی کو ضروری مانا گیا ہے جس میں سوریہ نمسکار کواصل اہمیت حاصل ہے ،
چوں کہ یہ ایک مذہبی عمل ہے اس لئے ہندوازم میں اس کی باقاعدہ دھارمک کتاب’’یوگ سوتر‘‘ کے نام سے پائی جاتی ہے، اا؍ہویں صدی میں مسلم سائنٹسٹ ابو ریحان البیرونی ہندوستان آئے اوراُنہوں نے یہاں کے سادھو سنتوں کوبکثرت یوگا کرتے دیکھا پھرمذکورہ کتاب’’ یوگ سوتر‘‘ کا ترجمہ کیا ۔
یوگ کی تاریخ اور پس منظر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت ہندوؤں میں عبادت کا ایک طریقہ ہے، بنیادی طور پر ہندو ازم کا بنیادی فلسفہ ہے جس میں آتما (روح) پرماتما (بھگوان) اور شریر (جسم) کو مراقبہ کے ذریعے ایک ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،’’سوریہ نمسکار‘‘ یعنی سورج کی پرستش یوگا کا ایک اہم حصہ ہے۔یوگا میں سورج کی پہلی کرن کو پرنام کیا جاتا ہے،وقفہ وقفہ سے کچھ اشلوک بھی پڑھے جاتے ہیں‘‘۔اسلام دین توحیدہےاللہ سبحانہ کی معرفت اوراس کاقرب حاصل کرنے ہی کےغرض سے کیوں نہ ہومشرکانہ افکار و اعتقادات، اعمال وافعال کی دین اسلام میںہرگزکوئی گنجائش نہیں۔
سوریہ نمسکار اور دیگر کفریہ وشرکیہ کلمات سے پرہیزکرتے ہوئےورزش کے عنوان ہی سے کیوں نہ ہویوگا کی حمایت مسلم ممالک اورمسلم سماج میں اس کورواج دینے کی کوششیں مزاج اسلامی کےمغائر اورروح شریعت کےمنافی ہیں۔اللہ سبحانہ نے اپنی آخری آسمانی کتاب قرآن مجیدمیں شرک کوظلم عظیم قرار دیا ہے (لقمان؍۱۳)۔ ’’بے شک اللہ سبحانہ وتعالی اس کے ساتھ شرک کرنے کو معاف نہیں کرتا، اس کے سوا جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اورجواللہ سبحانہ کے ساتھ شریک مقررکرے وہ بڑے گناہ اوربہتان کا مرتکب ہے‘‘(النساء:۴۸)اللہ سبحانہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بنائو(النساء:۳۶)شرک کے تین درجے ہیں: (۱)اللہ سبحانہ کے علاوہ مخلوقات سے کسی کوالٰہ یقین کرنا یہ شرک اعظم ہے(۲)مخلوقات میں سے کسی کے بارے میں یہ اعتقادرکھنا کہ وہ مستقل اوربالذات اللہ سبحانہ کے بغیرکوئی کام بناسکتا ہے اگرچہ کہ اس کوالٰہ نہ مانیں (۳)مخلوقات سے کسی کو عبادات میں شریک کرنایعنی اللہ سبحانہ کے احکام کی تعمیل اور عبادات کا اہتمام دکھاوے کیلئے کرنا۔ اصلہ اعتقاد شریک للہ فی الوہیتہ وہو الشرک الاعظم وہو شرک الجاہلیۃ۔ ویلیہ فی الرتبۃ اعتقاد شریک للہ تعالی فی الفعل، وھو قول من قال: ان موجودا ما غیراللہ تعالی یستقل باحداث فعل وایجادہ وان لم یعتقد کونہ الہا۔ویلی ہذہ الرتبۃ الاشراک فی العبادۃ وہو الریاء، وھو ان یفعل شیئا من العبادات التی امر اللہ بفعلہا لہ لغیرہ (قرطبی: ۵؍۱۸۱) یوگا میںپہلی دونوں صورتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ،چونکہ اس میں سورج کودیوتامانا جاتا ہے، اس کونمسکارکیا جاتا ہے،کچھ مشرکانہ اشلوک جپے جاتے ہیں اور کائنات میں سورج کومتصرف بالذات بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
الغرض یوگا کئی ایک کفریہ وشرکیہ مشتبہ ومشکوک افعال واقوال کا مرکب ہے اس کوورزش کے خیال سے کیوں نہ ہواختیارکرنا گویا ایمان واسلام کودائوپرلگاناہے،یہ جانتے ہوئے بھی یوگا کی حمایت کرنا گویا زبان حال سے اس بات کا اقرارکرنا ہے کہ اسلام جیسے عالمگیر فطری سچے مذہب میں انسانی صحت وتندرستی کا کوئی خاص لحاظ نہیں ہے اس لئے یوگا سے اس کمی کا ازالہ کرنے کی ضرورت درپیش ہے،اس فکری زوال کے ساتھ یوگا کی حمایت واشاعت ایسی ہی ہے جیسے کسی کواللہ سبحانہ نے خوب نوازاہو پھربھی وہ محتاجی وتنگدستی کا روپ دھارکر غیروںکادرکھٹکھٹائے یا کاسہ ء گدائی لئے بھیک مانگ کراپنی رسوائی کا سامان کرے۔اسلام ایک فطری اور حساس مذہب ہے ،اسلام کی روح اورمزاج شریعت کی پاسداری ہی میں ایمان واسلام کی حفاظت اورمسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہے، اسلامی احکامات کی اتباع وپیروری اوراس کی مقرر کردہ عبادات واذکارکی پابندی دنیا اورآخرت میں کامیابی و سرفرازی کی ضامن ہے اس میں نماز،روزہ،تلاوت قرآن، ذکر و اذکار وغیرہ جیسی بدنی عبادات بھی شامل ہیں جن میں اپنے خالق ومالک کےاستحضار ویکسوئی کی بڑی اہمیت ہے،توجہ الی اللہ سے جوگیان ودھیان حاصل ہوتا ہے اورجس کی وجہ تسکین خاطرکی نعمت نصیب ہوتی ہے وہ دنیا میں رائج غیرمنزل من اللہ عبادات کے طورو طریق جیسے یوگا وغیرہ اورکسی سائنسی یا غیرسائنسی ورزشی افکارواعمال کی وجہ ہرگزحاصل نہیں ہوسکتی۔
اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ یوگا ہندوانہ طریقہ عبادت ہے،اس کوورزش ہی کےنام سے کیوں نہ ہوفروغ دینا سخت غلطی ہے،بالفرض ہندومذہب میں اس کو ’’ایشور‘‘ کے گیان، دھیان کےساتھ ان کے مذہب کےقواعدوضوابط کےمطابق اعضاء جسمانی کومسلسل حرکت میں رکھنامقصودہےتوکیا مسلمانوں کےلئےاسلام کی اہم ترین عبادت ’’نماز‘‘کافی نہیں ہے؟جس میں مسلمان اس عہدکے ساتھ اپنےمالک ومولی کے حضور حاضر ہوتے ہیں ’’میں یکسوہوکر اپنا رخ اس (ذات واحد) کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں‘‘ (الانعام: ۷۰) اور نماز ادا کرتے ہوئے اس بات کااستحضارکہ میرااللہ مجھے دیکھ رہا ہے گیان، دھیان کااس سے اعلی وارفع اور کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ آسمانی قدیم مذہب اسلام کا طریقۂ عبادت ہے جس پر عمل کی تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی قوموں کوہدایت دی ہے (مریم؍۳۰،۵۵)۔ نمازوہ عبادت ہے جس میں اندرونی و بیرونی سارے اعضاء جسمانی حرکت میں رہتے ہیں۔
اسلامی احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کے بے نہایت مادی ،طبی اورروحانی فوائدہیں ،انسانی عقل وفہم کماحقہ ان کے ادراک سے عاجزوقاصرہے ،سائنسی تحقیقات نے اسکے کچھ گوشوں سے پردہ ضرور ہٹایا ہے لیکن سائنسداںبھی مخلوق ہیں، خالق کائنات نے جونظام حیات عطافرمایاہے وہ فطری، آسمانی، آفاقی اورعالمگیرہےاس میں دنیوی، دینی واخروی اعتبارسے کیا کیا حکمتیں ومصلحتیں پوشیدہ ہیں ان تک انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں ۔ صحت وتندرستی کی بقاء کیلئے بشمول یوگا جسمانی ورزشی ایسے کھیل کود جن میں کئی ایک شرعی موانعات ہیں ہرگز مسلمانوں کیلئے قابل عمل نہیں،یہ مقصداسلامی احکامات کی پاسداری اور تقرب الی اللہ کے جذبہ اورمقام احسان کی کیفیات کی حضوری کے ساتھ عبادات کی پابندی سے ضمنامادی(جسمانی صحت کے) فوائد ازخودحاصل ہوجاتے ہیں،اس لئے مسلمانوں کوجسمانی ورزش کیلئے ’’یوگا‘‘جیسے غیرمسلم شعارپرمبنی طریقہ اختیارکرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
یوگا ایک ہندوانہ فلسفۂ عبادت ہے،جس کوان کے مذہبی پیشوا اپنے متبعین کے ساتھ مشرکانہ اعتقادات اور شرکیہ اعمال و افعال کے ساتھ اداکرتے ہیں،ان کی مذہبی کتاب ’’بھگوت گیتا‘‘ سے بھی اس کے حوالے بتائے جاتے ہیں،مشرکانہ اعتقادات واعمال پرمبنی کوئی ورزش جیسے یوگا وغیرہ کی تصدیق وحمایت ان کی مذہبی کتاب سے ہورہی ہے تواس کے مشرکانہ عمل ہو نے میں کوئی شک وشبہ کی ہرگزکوئی گنجائش ہی نہیں۔ اس کے باجود کچھ مسلم افرادکااسکوورزشی عمل سمجھنااوراس غلط فہمی کے ساتھ اس کی حمایت کرنااسلام کے عقیدئہ توحید کے سخت منافی ہے۔ ’’اےمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم)بے شک ہم نےاس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہےپس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے،خبردار! اللہ سبحانہ ہی کےلئے خالص عبادت کرنا ہے‘‘ (الزمر؍۳)۔ اس آیت پاک میں ’’الدین‘‘ سے مرادطاعت بھی اورعبادت بھی ’’ أي الطاعة. وقيل: العبادة (قرطبی۱۵؍۲۳۵) قرآن پاک میں توحید و رسالت ،معاش ومعادیعنی دنیا وآخرت سے متعلق سارے احکام وضاحت کے ساتھ موجودہے،ان کوماننے اوران پرعمل کرنے ہی میں انسانیت کی نجات ہے۔ مشرکانہ افکار، اعمال واشغال کو مادیت کے سیلاب میں بہہ کرفوائدکی تحصیل کی غرض ہی سے کیوں نہ ہو قبول کرلینا گویا ایمان کی روحانیت ونورانیت کھوکر کفروشرک کی تاریک وادیوں میں گم ہوجاناہے،’’یوگا‘‘کی مذہبی حیثیت سے واقف ہوجانے کے بعدبھی اس کوورزش سمجھناسخت نادانی اور بہت بڑی بھول ہے۔اسلام کفروشرک،الحادوبے دینی کا راستہ کھولنے والے ہرروزن(کھڑکی)کوبندکردیتا ہے،زہرکودنیا زہر ہی مانتی ہے ،اس کی تھوڑی تھوڑی خوراک بھی انسان کوموت کے منہ میں پہنچا سکتی ہے،ظاہرہےہندوانہ باطل مذہبی طوروطریق، رسوم ورواج مسلم سماج میں آہستہ آہستہ رواج پانے لگیں تو شدید خطرہ اس بات کا ہے کہ ملت اسلامیہ کی نئی نسل کا رشتہ اسلام سے منقطع ہوجائے اوراسلام کی آغوش رحمت سے نکل کرباطل کی تاریک و خاردار وادی میں گم ہو جائے۔العیاذباللہ
ذرائع ابلاغ کے مطابق اس وقت تقریبا ۴۰؍مسلم ممالک نے بھی اور دیگر جمہوری طرزکی مملکتوں کے ساتھ ۲۱؍جون کو ہر سال عالمی یوگا یوم (ڈے) منانے سے اتفاق کرلیا ہے۔ ’’۴؍ مارچ ۲۰۲۳ء عرب نیوزمیں شائع شدہ ایک اطلاع کے مطابق اب ملک کے تمام اداروںاورجامعات میں جسمانی وذہنی صحت کے لیے مفید سمجھی جانے والی اس سرگرمی کو متعارف کرایا جائے گا۔ سعودی یوگاکمیٹی کی صدر نوف المروعی نےکہا کہ یوگا کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ ویژن ۲۰۳۰ء کے تحت یونیورسٹی اسپورٹس میں یوگا کی اہمیت کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ان کایہ بھی کہناہےکہ یوگا جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ہے ،سعودی وزراتِ کھیل اور اولمپک کمیونٹی نے۱۶؍ مئی۲۰۲۱ء کو یوگا کے فروغ کے لیے سعودی یوگا کمیٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کے بانیوں میں سعودی عرب کی اولین سند یافتہ یوگا انسٹرکٹر نوف المروعی بھی شامل ہیں جو اس کمیٹی کی سربراہی کررہی ہیں۔بھارت کی حکومت نے یوگا کو فروغ دینے کی خدمات کے اعتراف میں۲۰۱۸ء میں نوف المروعی کو سول اعزاز پدما شری سے بھی نوازا تھا۔گزشتہ برس۲۹؍ جنوری کو کنگ عبداللہ اکنامک سٹی میں سعودی عرب کی وزارت کھیل اور یوگا کمیٹی نے ملک کا پہلا یوگا فیسٹیول منعقد کرایا تھا۔ چار روز تک جاری رہنے والے اس فیسٹیول میں تقریباً ایک ہزار افراد شریک ہوئے تھے،ملک کے اندر یوگا کو تعلیمی اداروں کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب دیگر عرب ممالک میں بھی یوگا اور کھیل کی دیگر سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کررہا ہے۔گزشتہ برس دسمبر میں سعوی یوگا کمیٹی نے 11 عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو یوگا سمیت کھیلوں کی سرگرمیوں سے متعلق ’’عرب یوتھ ایمپاورمنٹ پروگرام‘ ‘کے تحت ایک کانفرنس میں مدعو کیا تھا،اس کانفرنس میں متحدہ عرب امارات، یمن، فلسطین، مصر، لیبیا، الجیریا، مراکش، تیونس اور موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے شرکت کی تھی۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے ویژن۲۰۳۰ء کے نام سے اصلاحات شروع کر رکھی ہیں جس کے تحت وہ سعودی عرب کو ترقی اور جدت کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں، سعودی عرب کو سیاحت کے لیے پرکشش بنانے اور جدید شہر بسانے کا منصوبہ بھی ویژن۲۰۳۰ء میں شامل ہے‘‘۔
دنیا پرست بعض مسلم حکمراں اورناعاقبت اندیش کچھ مسلمان ورزش کے عنوان سے دھوکہ کھاکر اس کی طرف راغب ہورہے ہیں اوراس کے فروغ میں اپنی توانائیاں ضائع کررہے ہیں،جبکہ یوگا ہندومذہب کے مذہبی پیشوائوں اوران کی مذہبی کتابوںکی تحقیق کے مطابق خالص ہندوانہ طریقہء عبادت ہے ،اس کے مشرکانہ طوروطریق جیسے سوریہ نمسکار اوراس میں پڑھے جانے والے مشرکانہ اشلوک اس کے شرکیہ ہونے کی تصدیق کیلئے کافی ہیں۔ ورزش کے نام سے ان کی مذہبی وسیاسی شخصیتوں کی اس (یوگا) کے احیاء میں دلچسپی لینے کا مقصدکفریہ وشرکیہ اعتقادات ہندوانہ رسوم ورواجات اورمشرکانہ طریقہائے عبادات کو مسلم سماج میں پھیلانا اورورزش کے خوشنما عنوان سے ملت کے سادہ لوح افراد کو اس جانب راغب کرنا ہے،یہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بند ناپاک سازش ہے۔مسلمان اس سازش کوسمجھیں اور دشمن طاقتوں کی چالاکیوں اورعیاریوں سے باخبررہیں اس حقیقت کو ہرگزنہ بھولیں کہ مذہب اسلام اعتقادات وایمانیات، عبادات ومامورات،معمولات ومعاملات کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں کلی یا جزوی طورپرکفریہ وشرکیہ اعمال واشغال کے غیرمحسوس طورپر راہ پانے کو ہرگزگوارانہیں کرتا ۔اسلام کا خصوصی امتیازیہ ہے کہ وہ کسی بھی باطل مذہبی افکارواعمال،فاسدرسوم و رواجات یاجدیدملحدانہ تصورات ،خدابیزارفلسفیانہ افکار وخیالات کو قبول کرکے خودکوان کی تہذیب میں ضم کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا، گوکہ وہ مادیت کے غلبہ کی وجہ مادہ پسندوں کی آنکھوں کوخیرہ کرر ہے ہوںیا ان کی ظاہری چمک و دمک ان کے دل ودماغ کومتاثرکرہی ہو۔ ودوا لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء فلا تتخذوا منہم اولیاء (النساء:۸۹) ’’ان کی چاہت توبس یہی ہے جس طرح کے وہ کافرہیںویسے تم بھی کفرکرنے لگواورپھریکساں ہوجائو،ان میں سے تم کسی کوجگری دوست مت بنائو‘‘باطل پرستوں کی سوچی سمجھی منصوبہ بندسازش تو یہی ہے کہ ایمان والوں کوایمان سے محروم کرکے باطل کے رنگ میں رنگ دیا جائے۔
توحیدکا اجالا جب مکۃ المکرمہ کوروشن کرتے ہوئے اطراف عالم میں پھیلنے لگا توکفارومشرکین کا چین وسکون چھن گیا، پیغام توحید کے پھیلائو کوروکنے کیلئے انہوں نے ایک ایسی تدبیر سونچی جس سے مسلمانوں کے عقیدئہ توحیدپرضرب پڑے، تجویز یہ تھی کہ ایک سال ہم تمہارے معبودکی عبادت کریں گے اورایک سال تم ہمارے معبودوں کی پرستش کرو،اس پرسورۃ الکافرون نازل ہوئی، اسلام کفروشرک اورایسے تمام امورجو مفضی الی الکفر و الشرک (کفروشرک تک پہنچانے والے) ہیں کو ہرگز قبول نہیں کرتا۔ایمان جہاں ہوگا وہاں کفریات وشرکیات ہرگز راہ نہیں پاسکتے ،سماجی یاتجارتی تعلق ومحبت کواستواررکھنے کیلئے رواداری کے عنوان سے مسلم سماج کے بعض گوشے ایسی زبان میں گفتگوکرنے لگے ہیں جوکفارومشرکین کوخوش کرسکتی ہے اور کچھ ناعاقبت اندیش(نام نہاد) مسلمان ایسے بھی ہیں جوان کے شرکیہ اعمال میں شرکت کوبرانہیں سمجھتے،’’یہ بھی جاری ہے وہ بھی جاری ہے‘‘کےمصداق پوجاپاٹ میں بھی شریک ہوتےہیں لیکن یہ سودا اللہ سبحانہ کی ناراضگی کی قیمت پرہوسکتا ہے،اس سے ایمان کوجوشدیدخطرہ لاحق ہے وہ جانے بوجھے یا انجانے میں شایداس سے بے خبرہیں۔انسانی ہمدردی ورواداری اس جیسی سودہ بازی کا نام نہیں بلکہ حقیقی ہمدردری ورواداری تویہ ہے کہ باطل کی تاریک وادیوں میں سرگرداں انسانیت کوراہ ہدایت دکھائی جائے ورنہ کم سے کم اپنے ایمان کی حفاظت کوضرورعزیزازجان رکھا جائے اوروہی بات کہی جائے جو ان جیسے حالات میں اللہ سبحانہ نے ایمان والوں کو سکھائی ہے ’’تمہارا دین تمہارے لئے اور میرے لئے میرادین ہے‘‘مسلمان امن و آمان انسانی بنیادوں پر یکجہتی و اتحادکوممکنہ حد تک ملحوظ رکھیں لیکن ایسا اتحادنہیں جوباطل سے مصالحت کی قیمت پر ہو۔ ایمان واسلام کا تقاضہ یہ ہے کہ توحید کے پاکیزہ ایمانی صاف وشفاف چشمہ کوکفریات وشرکیات کی آمیزش سے گدلا نہ کیا جائے ،کفروشرک کی رتی برابرآمیزش سے حق حق نہیں رہ سکتا بلکہ وہ باطل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
اسلام نام ہے حق کی تابعداری میں اس کے حیات بخش اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا،دین وایمان کی حفاظت اوراس پر استقامت دکھانے کا،اس کومقصدحیات بنالینے اوراسی پرجینے و مرنے کے عزم ویقین رکھنے کا،اسلام کی حیات بخش تعلیمات کو انسانیت تک پہونچانے کا، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ارشاد الٰہی کوسرمہ بصیرت بنالیا جائے ’’اوریہ کہ یہ دین میراراستہ ہے جو مستقیم ہے تم اسی راہ پرچلواوردوسری راہوں پرمت چلوکہ وہ راہیں تم کواللہ سبحانہ کی راہ سے جداکردیں گے،اللہ سبحانہ نے اس کا تاکیدی حکم دیاہے تاکہ تم تقوی کی راہ پرقائم رہو‘‘ (الانعام: ۱۵۳) اسلام کرئہ ارض کے سارے انسانوںکیلئے عظیم تحفہ ہے اور اسلامی احکامات کی تابعداری ہرشیٔ سے بالاترہے، جسمانی صحت وتندرستی،قلب ودماغ کی راحت و یکسوئی،مادی وروحانی فوائد اور اخروی کامیابی کا راز ایمان اوراس کے تقاضوں کی صحیح معنی میں تکمیل پر موقوف ہے۔ الغرض اسلام نےجوطرزحیات انسانیت کو دیا ہے جس میں ایمانیات،اعتقادات، عبادات، معاملات، معاشرت اوراخلاقیات کی کامل واکمل تعلیم موجودہے جس سے انسان اللہ سبحانہ کاقرب حاصل کرسکتے ہیںاوردونوں جہاں کی سعادتوں سےبہرہ مندہوسکتے ہیں۔
٭٭٭