مشرق وسطیٰ

وہ خاندان جو روزانہ جنوبی غزہ میں ہزاروں افراد کے لئے کھانا تیار کرکے تقسیم کرتا ہے

جمیل ابو عاصی ماضی میں گھر میں کھانا پکا کر سپلائی کرتے تھے مگر 2014 میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے باعث ان کا کچن تباہ ہوگیا تھا، جس کے بعد سے وہ مختلف انداز سے کام کرنے لگے۔

غزہ: جنوبی غزہ کے قصبے بنی سہیلہ کے ایک گھر میں جمیل ابو عاصی اور ان کے کزن روزانہ بہت بڑے پتیلوں میں کھانا پکانے میں مصروف ہوتے ہیں۔

متعلقہ خبریں
غزہ کے عوام کا تاریخی صبر جس نے اسلام کا سر بلند کردیا: رہبر انقلاب اسلامی
غزہ میں امداد تقسیم کرنے والی ٹیم پر اسرائیل کی بمباری، 23 فلسطینی شہید
اسماعیل ہنیہ کی معاہدے سے متعلق شراط
غزہ میں پہلا روزہ، اسرائیل نے فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روک دیا
غزہ میں نسل کشی کے خطرات پوری دنیا میں پھیل سکتے ہیں:ریاض المالکی

جمیل ابو عاصی ماضی میں گھر میں کھانا پکا کر سپلائی کرتے تھے مگر 2014 میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے باعث ان کا کچن تباہ ہوگیا تھا، جس کے بعد سے وہ مختلف انداز سے کام کرنے لگے۔

جیو نیوز کے مطابق ان کا خاندان اب بھی کھانا پکاتا ہے مگر ان سب کا مقصد اسرائیلی حملوں کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کرنا ہے۔ ان کے اس مشن کو 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں سخت چیلنج کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی بمباری کے باعث اب تک 10 لاکھ فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں سے متعدد جنوبی غزہ منتقل ہو چکے ہیں۔ ہر روز جمیل ابو عاصی کا خاندان 2 ہزار کھانے کے ڈبے تیار کرتا ہے جو خان یونس (جنوبی غزہ) پہنچنے والے افراد کو فراہم کیے جاتے ہیں۔

الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے جمیل ابو عاصی نے بتایا کہ ‘میں اپنی صبح کا آغاز لکڑی کی تلاش سے کرتا ہوں کیونکہ کھانا پکانے کے لیے گیس دستیاب نہیں’۔

خیال رہے کہ اسرائیل نے 7 اکتوبر کے بعد سے غزہ کے لیے ایندھن کی فراہمی بلاک کی ہوئی ہے۔ جمیل ابو عاصی نے بتایا کہ کئی بار لکڑی کی تلاش خطرناک ہوتی ہے۔

جمیل ابو عاصی اور ان کے کزنز نے کاموں کو تقسیم کیا ہوا ہے، ایک فرد پیاز کاٹتا ہے، دوسرا کھانوں میں اجزا ملاتا ہے جبکہ تیسرا ان کھانوں کو پیک کرتا ہے۔

زیادہ تر پکوان چاول، دال اور freekeh پر مبنی ہوتے ہیں، پہلے گوشت بھی ان میں شامل ہوتا تھا مگر اب اس کا حصول مشکل ہو چکا ہے کیونکہ زیادہ تر گوشت کی دکانیں اسرائیلی بمباری کے باعث تباہ یا بند ہو چکی ہیں جبکہ گوشت کی سپلائی بھی نہیں ہو رہی۔

اسرائیلی جارحیت کے باعث جنوبی غزہ منتقل ہونے والے فلسطینی شہری اقوام متحدہ کے زیر تحت اسکولوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

جمیل ابو عاصی نے بتایا ‘ان اسکولوں میں رہنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہاں بنیادی سہولیات دستیاب نہیں، ہم اپنی کوشش کر رہے ہیں، چاہے وہ جتنی چھوٹی ہو، مگر اس بحران میں لوگوں کی مدد کرنا ضروری ہے’۔

اس موقع پر ساڑھے 7 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو گھروں سے بے دخل کیا گیا تھا جبکہ 500 قصبے اور دیہات تباہ کیے گئے تھے۔

جمیل ابو عاصی نے بتایا کہ ‘ہمارے بزرگوں نے بتایا کہ ایک مہاجر کے طور پر زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس کی تلخی بھلانا ممکن نہیں اور یہ تلخی ہر نسل میں منتقل ہو رہی ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘اس کا درد اب بھی ہمارے دلوں میں موجود ہے اور ہمارے ساتھ ہونے والے سلوک پر ہم نے کبھی اسرائیل کو معاف نہیں کیا’۔ان کا کہنا تھا کہ اس بار جنگ سے متاثر ہونے والے بچے یہ کبھی نہیں بھول سکیں گے کہ انہیں خوراک، پانی یا بجلی کے بغیر کیسے زندہ رہنا پڑا تھا۔

اس دہشت اور خوف کے ماحول میں مقامی افراد متحد ہو رہے ہیں، کچھ افراد نے جمیل کے خاندان سے رابطہ کیا تاکہ وہ بے گھر افراد کے لیے کھانا عطیہ کر سکیں۔

جمیل ابو عاصی نے بتایا کہ ‘خان یونس شہر میں یہ ایک خوبصورت سماجی یکجہتی ہے، ہم کبھی یہ نہیں دیکھ سکتے کہ بھوکے افراد کو کھانا دستیاب نہ ہو، تو اس کے لیے ہم سب تعاون کر رہے ہیں تاکہ یہ مہم جاری رہ سکے’۔

خان یونس میں موجود بے گھر افراد کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے جمیل ابو عاصی نے چولہوں کی تعداد بڑھا دی ہے جبکہ کام کو 2 ٹیموں میں تقسیم کر دیا ہے۔

اس گھر میں کھانا پکانے کی تیاری صبح 7 بجے شروع ہو جاتی ہے اور یہ عمل دوپہر 2 بجے تک جاری رہتا ہے۔

جمیل ابو عاصی نے بتایا کہ ‘ہم اپنے گھر سے نہیں نکل سکتے مگر ہم نے ضرورت مند افراد کو کہا ہوا ہے کہ وہ دوپہر 2 سے 5 بجے تک ہمارے پاس آسکتے ہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘6 رضاکاروں کی جانب سے گاڑیوں کے ذریعے کھانے کو تقسیم کیا جاتا ہے جو اس لیے خوش آئند ہے کیونکہ بیشتر بے گھر افراد کو ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں’۔

کچھ خاندان تو محض چاول ملنے پر ہی بہت شکریہ ادا کرتے تھے، حالانکہ اکثر یہ دن کی واحد غذا ہوتی ہے۔

یہ خاندان اسرائیلی جارحیت کے آغاز پر شمالی غزہ سے خان یونس منتقل ہوا اور ابھی بنی سہیلہ میں اقوام متحدہ کے زیر تحت اسکول میں مقیم ہے۔

40 سالہ خاتون کا خان یونس میں کوئی رشتے دار نہیں اور نہ ہی وہ کسی سے واقف ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ‘جب میں کھانے کی تلاش میں باہر نکلی تو میں نے ان جوان افراد کو کھانا پکاتے ہوئے دیکھا اور انہوں نے مجھے 2 ڈبے دیے، جو میرے بچوں کے لیے کافی تھے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ان افراد نے مجھے کہا کہ میں یہاں روزانہ آکر کھانا لے جایا کروں، یہی وجہ ہے کہ میں یہاں لوگوں کے درمیان خود کو محفوظ تصور کرتی ہوں، ہم سب ایک برادری ہیں’۔