سیاستمضامین

سعودیہ اور ترکیہ‘اسلامی ممالک کے مابین تعلقات کا نیا دور

اسلامی ممالک کے تعلقات میں ایک بڑی وجہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں آنے والی سردمہری بھی ہے ۔ امریکہ میں صدر جوبائیڈن کی آمد کے بعد جہاں امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں رہے ‘ وہیں سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات میں غیر معمولی ترقی اور بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ گزشتہ چند برس کے رجحان پر نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے کہ مغربی ایشیاء کے اسلامی ممالک باہمی اختلاف کو بھلارہے ہیں۔

منصور عادل

سعودی عرب نے گزشتہ ہفتے اسلامی ملک ترکیہ کے اسٹیٹ بینک میں پانچ ارب ڈالر کی رقم جمع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس امداد کا مقصد ترکیہ میں گزشتہ ماہ آنے والے تباہ کن زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا مداوا کرنا ہے‘ ابتدائی اندازوں کے مطابق زلزلے سے ترکیہ کو 34ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ترکیہ کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں سال 30سے 40 ارب ڈالر کے درمیان رہے گا۔ زلزلے کے بعد تعمیرات کے لئے بھی رقم اور وسائل درکار ہوں گے‘ ایسے وقت میں سعودی عرب کی مدد کی بہت اہمیت ہے۔ گزشتہ سال ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا کی قدر میں30 فیصد کمی واقع ہوئی تھی‘ 2021ء میں ڈالر کے مقابلے میں لیرا44 فیصد کمزور ہوا ‘ اس کے علاوہ گزشتہ پانچ برسوں میں ترکیہ میں زر مبادلہ کے ذخائر نمایاں طور پر کمزور ہوئے ہیں اور اب ترکیہ کے زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 20 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ اس اقدام سے سعودی عرب اور ترکیہ کے درمیان کشیدگی اور اختلافات کا وہ تلخ دور ختم ہوگیا ہے جو اکتوبر2018ء میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد پیدا ہوئی تھی‘ سعودی فنڈ فار ڈیولپمنٹ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ امداد اس بات کا ثبوت ہے کہ سعودی عرب اور ترکیہ کے درمیان قریبی تعاون اور تاریخی تعلقات ہیں۔
ترکیہ2018ء سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا کررہا ہے ‘ اس کے علاوہ توانائی کے لئے بھی ترکیہ کا تمام دارومدار اس کی درآمدات پر ہے‘ اسی لیے مغرب کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے بعد سے ترکیہ گزشتہ چند برس سے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ ترکیہ کے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں گزشتہ سال گرمجوشی آئی ہے‘ ترک صدر نے گزشتہ سال فروری میں متحدہ عرب امارات اور اپریل میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا‘ سعودی عرب اور ترکیہ کے درمیان حالیہ کچھ عرصہ سے جس انداز سے تعلقات میں بہتری آرہی ہے ‘ یہ دونوں ممالک کے تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے لئے بہت حیران کن ہے۔ ترکیہ کے نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں تھے بلکہ سعودی عرب کے کیمپ والے ممالک جن میں مصر اور متحدہ عرب امارات کے نام سرفہرست ہیں‘ کے ساتھ بھی تعلقات میں کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت رہی تھی‘ جس سے اسلامی دنیا میں اتحاد اور باہمی یگانگت کی فضا بری طرح سے متاثر ہورہی تھی۔ بالخصوص 2011ء میں عرب دنیا میں اٹھنے والی تحریک ‘ عرب اسپرنگ کی ترکیہ کی جانب سے حمایت نے خلیج ممالک کو ترکیہ سے بدظن کردیا تھا ‘ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ترک عرب تعلقات میں بڑا کردار صدر اردوان کا بھی ہے ‘ 2002ء سے قبل ترکیہ کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کسی بھی طرح سے مثالی نہیں تھے۔
رپورٹ کے مطابق اسلامی ممالک کے تعلقات میں ایک بڑی وجہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں آنے والی سردمہری بھی ہے ۔ امریکہ میں صدر جوبائیڈن کی آمد کے بعد جہاں امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں رہے ‘ وہیں سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات میں غیر معمولی ترقی اور بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ گزشتہ چند برس کے رجحان پر نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے کہ مغربی ایشیاء کے اسلامی ممالک باہمی اختلاف کو بھلارہے ہیں۔ برطانوی ادارے نے بھی اپنی رپورٹ میں اسی جانب اشارہ کیا ہے‘ جس کی پہلی مثبت مثال2021ء میں اس وقت دیکھی گئی جب سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات ‘ بحرین اور مصر نے ہمسایہ ملک قطر کے ساتھ2017ء سے شروع ہونے والے اختلافات اور تنازع کو ختم کرکے قطر کی ناکہ بندی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد گزشتہ برس مارچ اپریل میں عراق کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی مذاکرات کا آغاز ہوا جس کے کئی دور چلے اور دونوں ممالک اس کا اعتراف بھی کرچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فرحان آل سعود نے بتایا کہ شام کو بھی عنقریب عرب لیگ میں واپس لانے کیلئے مذاکرات ہورہے ہیں۔ ترکیہ اور متحدہ عرب امارات بھی اپنے اختلافات بھول چکے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے دورے ہوچکے ہیں ۔ اس کے علاوہ ترکیہ نے بھی سعودی عرب کے ساتھ اختلافات کو بظاہر بالائے طاق رکھ دیا ہے اور صدر اردوان نے گزشتہ اپریل میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا‘ سعودی عرب نے اعلان کیا تھا کہ وہ ترکیہ کے مرکزی بینک میں پانچ ارب ڈالر جمع کرائے گا ‘ یوں سعودی عرب نے زلزلے سے تباہ حال ترکیہ کے لئے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا ہے‘ یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ترکیہ کے مغرب کے ساتھ تعلقات ا چھے نہیں ہیں اور سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔ اس تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا وہ اسلامی ممالک جو پہلے آپس میں دست و گریبان تھے ‘ کیا وہ اب واقعی متحد ہونے کی کوشش کررہے ہیں؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ افغانستان کے بارے میں بھی الجھن بڑھ گئی ہے اور اس سے م شرق وسطیٰ میں امریکہ پر عدم اعتماد کا خلا مزید گہرا ہوگیا ہے۔ خلیجی ممالک کو ایسا لگتا ہے کہ انہیں اس شعبے میں اپنی سفارت کاری خود کرنا ہوگی ۔سعودی عرب خود ایران سے بات کررہا ہے‘ متحدہ عرب امارات خود ترکیہ جارہا ہے ‘ یوں ایک نیا ماحول پیدا ہوچکا ہے ۔ امریکہ نے جس طرح افغانستان کو طالبان کے حوالے کیا اور بوریا بستر لپیٹ کر افغانستان سے ن کل گیا‘ اس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ امریکہ کسی بھی کام کو منطقی انجام تک نہیں پہنچاتا‘ اسی لیے اب امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں عدم اعتماد کا ماحول ہے۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ شاید اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کی ایک وجہ امریکہ کے ساتھ ان ممالک کے تعلقات میں آنے والی سرمہری بھی ہے۔ مشرق وسطی کے بہت سے حالات و واقعات پر نظر رکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جب تک امریکہ کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر تھے‘ اسلامی ممالک کے درمیان سرد مہری تھی۔ رپورٹ کے مطابق یوکرین جنگ کے بعد تو حالات میں مزید تبدیلی دیکھی جارہی ہے ۔ عرب اور غیر عرب اسلامی ممالک پر کام کرنے والے بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب عنقریب پاکستان کو بھی معاشی بحران سے نکلنے کے لئے ترکیہ طرز پر کوئی بڑی مدد کرسکتا ہے۔
سعودی عرب کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر بننے والی صف بندیوں ‘ یورپی ممالک اور امریکہ کے گٹھ جوڑ ‘ توانائی کا بڑھتا ہوا مسئلہ اور سب سے بڑھ کر فوڈ سیکوریٹی کے حوالے سے وسائل رکھنے والے اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں۔ ان ممالک میں پاکستان‘ سعودی عرب اور ترکیہ کو بہت اہم مانا جاتا ہے‘ تینوں ممالک کے اس اتحاد کو بہت اہمیت دی جارہی ہے ۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰