سوشیل میڈیاشمالی بھارت

اتر پردیش میں دینی مدارس کا سروے جاری

حکومت اتر پردیش کے حکم پر ریاست کے دینی مدارس کی بہتری کے لیے غیر تسلیم شدہ مدارس میں کیے جا رہے سروے کے دوران جمعرات کے روز سب سے قدیم اور معروف مدارس میں شامل دارالعلوم ندوۃ العلماکا سروے کیا گیا۔

لکھنؤ: حکومت اتر پردیش کے حکم پر ریاست کے دینی مدارس کی بہتری کے لیے غیر تسلیم شدہ مدارس میں کیے جا رہے سروے کے دوران جمعرات کے روز سب سے قدیم اور معروف مدارس میں شامل دارالعلوم ندوۃ العلماکا سروے کیا گیا۔

یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور ضلع انتظامیہ کی ٹیم نے اسلامی تعلیم کے اس مرکز کا سروے کیا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق سروے ٹیم نے ندوۃ العلماء کے مدرسہ میں پہلے سے طے شدہ 12 پوائنٹس کے بارے میں معلومات حاصل کی۔ اس کے علاوہ ادارے کے مختلف مقامات کا بھی معائنہ کیا گیا۔ اس دوران مدرسہ میں پڑھائے جانے والے کورسز اور دیگر سہولتوں کے بارے میں بھی جانکاری لی۔

سروے ٹیم نے مدرسہ میں تقریباً ڈھائی لاکھ کتابوں پر مشتمل لائبریری کا بھی معائنہ کیا۔ سروے ٹیم نے لائبریری کی سہولتوں اور انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔علحدہ اطلاع کے بموجب اترپردیش میں مدارس کے سروے کا عمل شروع ہو چکا ہے اور دھیرے دھیرے ہر چھوٹے و بڑے مدارس میں سرکاری عہدیدار پہنچ رہے ہیں۔

15 ستمبر کی صبح ہندوستان کے بڑے اور تاریخی مدارس میں شمار دارالعلوم ندوۃ العلماء میں انتظامیہ کی ٹیم سروے کے لیے پہنچی۔ عہدیدار کے پہنچتے ہی وہاں ندوہ کے مینجمنٹ سے جڑے لوگوں اور مقامی میڈیا اہلکاروں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔ سروے ٹیم نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے الگ الگ محکموں میں تقریباً دو گھنٹے تک جانچ پڑتال کی اور کچھ ضروری دستاویزات کھنگالے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سروے ٹیم میں ایس ڈی ایم، بی ایس اے اور ڈی ایم او وغیرہ شامل تھے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت چل رہے اس مشہور مدرسہ کے چانسلر مولانا رابع حسنی ندوی ہیں جو کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موجودہ صدر بھی ہیں۔ بورڈ نے پہلے ہی اترپردیش حکومت کی طرف سے غیر منظور شدہ مدارس کے سروے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیا ہے۔

بہرحال، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے وائس پرنسپل عبدالعزیز ندوی نے آج مدرسہ کے سروے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ”حکام سے چھپانے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہم اسے چندہ سے چلاتے ہیں۔ جو کچھ حکام نے مانگا تھا، وہ انھیں فراہم کر دیا گیا ہے۔“ ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سروے کی ٹیم نے مدرسہ میں بچوں کی تعلیم سے لے کر ان کی رہائش، کھانے پینے کے انتظامات اور دیگر سہولتوں کا جائزہ لیا۔

اس دوران مدرسہ کو ملنے والی مالی امداد کے بارے میں بھی سوال کیا گیا۔ مدرسہ کے ذمہ داران سے سوال کیا گیا کہ انھیں فنڈنگ کہاں کہاں سے ملتی ہے اور اس کا استعمال کس طرح کیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں بڑی تعداد میں غیر ملکی طلبا بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔