سیاستمضامین

منوگوڑہ ضمنی انتخاب ۔۔۔ عوام سیکولر یا ۔۔۔؟

محمد صمیم (نظام آباد)

منوگوڑہ اسمبلی کے ضمنی انتخاب کی رائے دہی3/ نومبر کو منعقد ہوئی اور رائے شماری 6/ نومبر کو کی گئی نتائج کا اعلان سہ پہر شام تک ہو گیا۔ انتخابات میں ٹی آر یس پارٹی جو اب بی آر یس بن چکی ہے اس کے امیدوار پربھاکر ریڈی نے بی جے پی امیدوار راج گوپال ریڈی کو شکست دی۔ ضمنی انتخابات کے انعقاد کی وجہ کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے ضلع نلگنڈہ کے طاقتور سیاسی گھرانے کے چشم و چراغ کے راج گوپال ریڈی نے ہند کی قدیم اور سیکولر کہلانے والی کانگریس پارٹی کو خیرباد کرتے ہوئے ہندو احیاء پسند یا ہندو فرقہ پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوگئے وہ 2018 ء کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی سے منتخب ہوئے تھے ۔ لیکن گزشتہ کم و بیش دو سال سے وہ ریاستی کانگریس قیادت پر تنقید کرتے رہے ہیں اس کے علاوہ ایک سے زائد مرتبہ بی جے پی کی تعریف بھی کی۔ راج گوپال ریڈی کے بھائی و قدیم کانگریسی قائد کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی جو تلنگانہ کانگریس کے اسٹار کیمپینر ہیں انہوں نے بھی راج گوپال ریڈی کو خاموش نہیں کروایا۔ اور آخر کار راج گوپال ریڈی بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ انہیں یہ یقین تھا کہ وہ اپنی عوامی مقبولیت و خاندانی سیاسی اثرورسوخ کے بل بوتے پر ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیں گے۔
ریاست تلنگانہ کے ضلع نلگنڈہ میں سیاسی مقابلہ آزادی کے بعد ایک ادھ مرتبہ کو چھوڑ کے کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان ہوتا رہا ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نلگنڈہ ضلع کے حلقہ اسمبلی منوگوڑہ میں کانگریس کے سرکرہ قائدپی گوردھن ریڈی 1967ء سے 1985ء اور 2004تا 2009رکن اسمبلی رہے۔جبکہ سی پی آئی کے اجینی نارائن رائو 1985ءتا1999ءرکن اسمبلی رہے۔ اسی طرح سی پی آئی ہی کے یادگیری 2009 تا 2014رکن اسمبلی رہے۔ ٹی ار یس پارٹی کے موجودہ رکن اسمبلی پربھاکر ریڈی 2014 تا 2018 رکن اسمبلی رہے۔ کانگریس پارٹی کے قائد راج گوپال ریڈی 2018 سے 2022 رکن اسمبلی رہے۔ نلگنڈہ ضلع کو ریاست تلنگانہ میں کانگریس اور بائیں بازو جماعتوں کا مضبوط گڑھ مانا جاتا ہے۔ جہاں پر ان دونوں پارٹیوں کا مضبوط کیڈر ہے۔ آزادی کے بعد سے نلگنڈہ ضلع میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سی پی آئی جماعت مضبوط رہی ہے۔ بی جے پی کا کیڈر نلگنڈہ ضلع میں بہت ہی کم ہے اور کہا یہ جاتا رہا ہے کہ بائیں بازو کی جماعتوں کے مضبوط کیڈر کی وجہ سے بی جے پی کا پھیلاؤ یہاں نہیں ہوسکا۔ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کی وجہ سے یہاں کے رائے دہندگان سیکولر ہیں اور فرقہ پرستی سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
تلنگانہ ریاست کے 2018کے اسمبلی انتخابات کے بعد اب تک جملہ 5 ضمنی انتخابات ہوئے جس میں تین اسمبلی حلقوں میں ٹی ار یس اور دو بی جے پی نے فتح حاصل کی۔ سدی پیٹ ضلع کے اسمبلی حلقہ دوباک ضمنی انتخابات میں بی جے پی نے ٹی ار یس کے متوفی رکن اسمبلی کی بیوہ کو شکست دے کر کم ووٹ سے ہی سہی بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ وہیں حضور آباد میں ٹی آر یس کے مشہور قائد و ریاستی وزیر ایٹالہ راجندر نے ریاستی وزیر اعلی سے بغاوت کی اور بی جے پی میں شامل ہوگئے اور ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی جبکہ وہاں پر 2009سے وہ لگاتار ٹی آر یس پارٹی سے منتخب ہوتے رہے ہیں۔حضورآباد حلقہ اسمبلی سے 1983سے کانگریس پارٹی نے کبھی انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ دوباک اور حضورآباد اسمبلی انتخابات میں کامیابی اور حیدرآباد کارپوریشن انتخابات میں بہتر کارکردگی کے بعد سے ہی بی جے پی نے گودی میڈیا کے ذریعہ جارحانہ حکمت عملی اپنائی اور تلنگانہ میں ٹی آر یس کے مدمقابل کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کردیا۔ بی جے پی کے تعلق سے یہ کہا جاتا ہے کہ پارٹی ضمنی انتخابات میں بہتر مقابلہ کرتی ہے لیکن جب عام انتخابات آتے ہیں تو پارٹی کا گراف بہت گر جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارٹی میں قائدین و کیڈر کی کمی ہے۔ اسی لئے بی جے پی پارٹی دوسری سیاسی جماعتوں سے قائدین کو اپنی جانب راغب کرتی رہتی ہے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعہ۔ ان قائدین کے ساتھ ہی ان کا کیڈر بھی بی جے پی میں ضم ہوجاتا ہے۔ مغربی بنگال میں بی جے پی نے سی پی آئی (ایم) اور ترنمول کانگریس کے قائدین کو اپنی پارٹی میں شامل کیا بائیں بازو کی سی پی آئی( ایم) کی حالت یہ ہوگئی کہ وہاں اب اس پارٹی کو انتخابات میں امیدوار نہیں مل رہے ہیں جبکہ بنگال میں سب سے زیادہ اسی پارٹی کی حکومت تھی۔ یہی کچھ کھیل تلنگانہ میں بھی کھیلا جارہا ہے۔ کانگریس پارٹی کے قائدین ہر جماعت کے لئے نرم چارہ رہے ہیں ٹی آ ر ایس نے کئی اراکین اسمبلی کو کانگریس پارٹی سے اپنی جانب راغب کیا وہیں کئی قائدین بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ ائندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل بی جے پی کانگریس پارٹی کے بجائے تلنگانہ میں اصل اپوزیشن ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے اور بنگال کی طرح یہاں پر بھی ٹی آرایس پارٹی کے عوامی نمائندوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے کبھی ایجنسیوں کے ذریعہ ڈرا کر تو کبھی لالچ دے کر بی جے پی میں شامل کر نے کی سعی کی جارہی ہے۔ تاکہ عوام میں پارٹی کا بیانہ فروخت کیا جاسکے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہی ٹی ار یس کا مقابلہ کرسکتی ہے اس لئے اس کے مختلف قائدین تلنگانہ میں یاتراؤں میں مصروف ہیں اور وہیں دوسری طرف گودی میڈیا بھی حزبِ مخالف کی حیثیت سے بی جے پی قائدین کو ہی عوام کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ کانگریس پارٹی ابھی داخلی اختلافات کا شکار ہے اور اس کے قائدین پارٹی میں اپنی گدی کے لئے دست و گریباں ہیں۔ سینئر قائدین نوجوانوں کےلئے راستہ ہموار کرنے کے بجائے ان کے لئے سدِراہ بن رہے ہیں اور یہ لڑائی گلی سے دہلی تک ہے۔ اس لئے کانگریس پارٹی تمام ضمنی انتخابات میں بری طرح شکست کھائی ہے۔ کانگریس قائدین کے دل بدلو ہونے کی وجہ سے بھی عوام کا اعتماد کانگریس پارٹی پر کم ہورہا ہے۔
منوگوڑہ کے ضمنی انتخابات نے سیکولر رائے دہندگان ہونے کا بھرم ختم کردیا اور سیکولر پارٹیوں کے لئے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بی جے پی کا کیڈر منوگوڑہ حلقہ اسمبلی میں بہت ہی کم ہے اگر گذشتہ انتخابات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2018کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے امیدوار نے 12ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔ جبکہ موجودہ ضمنی انتخابات میں بی جے پی نے 2لاکھ 25ہزار رائے دہی میں 86ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ یہ بات بہت تشویشناک ہے کہ ایک ایسا علاقہ جہاں پر بی جے پی کا کیڈر نہیں ہے اور اس علاقہ میں عوام بائیں بازو کے نظریات سے بھی متاثر ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ عوام کی ایک کثیر تعداد نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔ یعنی فرقہ پرست پارٹی کے حق میں رائے دہی کا استعمال کیا۔ سیاسی تجزیہ نگار اس تعلق سے مختلف ارا رکھتے ہیں ۔ ضمنی انتخابات میں بی جے پی نے عام انتخابات سے بہتر مظاہرہ کیا ہے اس کی اہم وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ ریاست کا تقریباً کیڈر کو اور پارٹی کی انتظامی مشینری کو ایک حلقہ تک محدود کردیا گیا بی جے پی کی نظریاتی و اساسی تنظیم کی جانب سے بھی بتایا یہ جاتا ہے کہ اس کا اپنا کیڈر بھی انتخابات میں لگا دیا گیا۔ اس کے علاوہ جس قائد نے پارٹی بدل کر بی جے پی میں شامل ہوا اس نے بھی اپنے تمام وفاداروں کو بی جے پی میں ضم کر دیا۔ اس کے علاوہ مرکز کی جانب سے بھی ریاستی اکائی کو بھر پور مدد فراہم کی جاتی رہی اس طرح بی جے پی نے ضمنی انتخابات میں بہتر مظاہرہ کیا۔ وہیں دوسری اہم وجہ یہ بھی کہ کانگریس پارٹی نے تلنگانہ میں اندرونی اختلافات سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کئی عوامی قائدہن دیگر سیاسی جماعتوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے تلنگانہ میں عوام ٹی ار یس کے مدمقابل حزبِ اختلاف بی جے پی کو سمجھا اور عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے گودی میڈیا نے بھر پور کردار ادا کیا۔
کسی بھی سیاسی پارٹی کا ووٹ بنک زیادہ سے زیادہ 5 تا 10 فیصد ہوتا ہے اس سے زیادہ کسی بھی پارٹی کا ووٹ بنک نہیں رہتا۔اور عوام کی ایک بڑی تعداد خالی ذہن رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک قابل لحاظ عوامی طبقہ حکومت مخالف رہتا ہے۔ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم اسی انداز میں چلائی جاتی ہے کہ عوام کے ان دونوں طبقوں کو متاثر کیا جائے۔ اصل اپوزیشن ہم ہی ہیں کہنے کا مطلب عوام کے اس طبقہ کو متاثر کیا جائے جو حکومت مخالف ہے اور اس طبقہ کے ووٹ حاصل کئے جائیں اس کے علاوہ عوام کے خالی ذہن طبقہ کو بھی متاثر کیا جائے بی جے پی ضمنی انتخابات میں اسی سیاسی کھیل کو خوبی سے کھیلا۔ اور گودی میڈیا و سوشل میڈیا کے ذریعہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا عوام ایک فرقہ پرست پارٹی کو ووٹ دیگی؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے اکثریت کے عوام کو سیکولر یا فرقہ پرستی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اس سے انہیں کوئی نقصان نہیں کیونکہ جیتنے اور ہارنے والے دونوں کا تعلق انہیں کی قوم سے ہوتا ہے۔ البتہ نقصان صرف اس قوم کو ہوتا ہے جس کو اکثریتی فرقہ پرستی سے فکر لاحق ہو۔ اب انے والے انتخابات بتائیں گے کہ کیا تلنگانہ دوسرا بنگال بنے گا یا نہیں۔