مذہب

ماحولیات کا تحفظ اورہماری ذمہ داریاں

اس وقت عالمی سطح پر آلودگی ایک بہت بڑا انسانی مسئلہ بن کر ابھرا ہے، اور افسوس کہ ہمارا ملک جو سائنس اور ٹکنالوجی میں اپنا قدم آگے بڑھا رہا ہے اور وِشو گُرو بننے کی کوشش کر رہا ہے، کی حالت بھی اس سلسلہ میں بہت قابل افسوس ہے، ۲۰۲۲ء کی رپورٹ کے مطابق ابھی ہمارا ملک ۱۸۰؍ویں مقام پر ہے، اور ہم سارک ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ سے بھی پیچھے ہیں؛ اس لئے یہ مسئلہ بے حد اہم اور فوری توجہ کا مستحق ہے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اس وقت عالمی سطح پر آلودگی ایک بہت بڑا انسانی مسئلہ بن کر ابھرا ہے، اور افسوس کہ ہمارا ملک جو سائنس اور ٹکنالوجی میں اپنا قدم آگے بڑھا رہا ہے اور وِشو گُرو بننے کی کوشش کر رہا ہے، کی حالت بھی اس سلسلہ میں بہت قابل افسوس ہے، ۲۰۲۲ء کی رپورٹ کے مطابق ابھی ہمارا ملک ۱۸۰؍ویں مقام پر ہے، اور ہم سارک ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ سے بھی پیچھے ہیں؛ اس لئے یہ مسئلہ بے حد اہم اور فوری توجہ کا مستحق ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم بستیوں اور محلوں میں ماحولیاتی آلودگی کی صورت اور زیادہ خراب ہے، مسلمانوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ ماحول کا تحفظ صرف ایک انسانی مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ اسلام نے بھی اس کی تعلیم دی ہے۔

یوں تو ماحول میں کثافت پیدا کرنے والی بہت سی چیزیں خود قدرت نے انسانی اورحیوانی جسم میں رکھی ہیں، جیسے پیشاب، پائخانہ، مردار جسم سے پیدا ہونے والا تعفن وغیرہ ؛ لیکن عصر حاضر کی صنعتی اور مشینی ترقیوں نے ماحولیاتی کثافت کے اسباب میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے، کارخانوں سے خارج ہونے والے فضلات، پٹرول، ڈیزل کے ایندھن، ایر کنڈیشن اور ریفریجیٹر وغیرہ سے خارج ہونے والی گیسیں، ڈیزل اور پٹرول کے ایندھن پر مبنی ٹریفک کی کثرت، یہ تمام چیزیں وہ ہیں جو انسان کو راحت و سہولت کے ساتھ ساتھ غیر معمولی اور غیر محسوس فضائی اور ماحولیاتی کثافت کا تحفہ بھی دے جاتی ہیں ۔

نظام قدرت میں توازن کی ایک مثال یہ ہے کہ جہاں اس نے کثافت پیدا کرنے والے قدرتی وسائل عطا کئے ہیں، وہیں اس نے کثافت کو تحلیل کرنے اور انسانیت کو اس کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کی غرض سے کچھ قدرتی اور فطری ذرائع بھی پیدا کئے ہیں، جیسے سمندر، کہ اس کا کھارا پانی آلودگی کو جذب کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے، اسی طرح درخت اور جنگلات، یہ جہاں انسان کو صاف و شفاف ہوا فراہم کرتے ہیں، وہیں فضا میں پھیلی ہوئی اَلودگی کو جذب کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، خود وہ مٹی جس میں ہم رہتے بستے ہیں اور جس کی پشت پر ہزاروں سال سے کتنی ہی مخلوق شاد و آباد ہے، وہ بھی ٹھوس کثافت آمیز مادوں تک کو تحلیل کردیتی ہے، جو مردے اور مردار زمین میں دفن کئے جاتے ہیں اور جو گندگیاں اور غلاظتیں زمین کی تہوں میں چھپا دی جاتی ہیں، اگر زمین اپنا سینہ کشادہ کر کے ان کو قبول نہ کرے، تو نہ جانے روئے زمین پر کتنی آلودگی پیدا ہو جائے اور انسان و حیوان کے لئے جینا دوبھر ہو جائے ۔

لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ایک طرف قدرتی وسائل کا ایسا استعمال بڑھتا جارہا ہے، جس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو اور دوسری طرف درخت اور جنگلات جو ہمارے ماحول کی حفاظت کے لئے ایک بہت بڑا قدرتی عطیہ ہیں، انسان نہایت ہی بے رحمی سے ان کو کاٹتا اور ختم کرتا جارہا ہے، بہت سے جنگلات ہیں جو اب درختوں کے بجائے انسانوں کے جنگل بن گئے ہیں، ان جنگلات میں ایسے حیوانات بھی رہتے ہیں جو بعض کثافت پیدا کرنے والی اشیاء یا جانور کو اپنی غذا بناتے ہیں، جنگلات کا خاتمہ ان کے وجود کو بھی کم کرتا جاتا ہے ۔

ان سب کے علاوہ قدرت نے فضا میں بھی ہمارے لئے ’’ اوزون گیس‘‘ کی صورت میں ایک قلعہ تعمیر کر دیا ہے، یہ قلعہ سورج اور فضا کی طرف سے زمین تک آنے والی شعاعوں کی صفائی کا کام کرتا ہے، ان کی وجہ سے شعاعیں اس تناسب کے ساتھ زمین تک پہنچتی ہیں کہ عام حالات میں جسم انسانی کو ان سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا، اب اوزون کی یہ قدرتی پرت زمین سے خارج ہونے والی کثیف گیسوں کی وجہ سے رقیق ہوتی اور پھٹتی جارہی ہے اور اس کی وجہ سے مختلف امراض خصوصاً جلدی کینسر کے عام ہو جانے کا اندیشہ ہے، اصل میں تو یہ مغربی اقوام کی شامت اعمال ہے کہ انھوں نے اپنی صنعتی ترقی کے ابتدائی عہد میں اس طرف کوئی توجہ نہیں کی ؛ لیکن اب جب مشرق کی ترقی پذیر اقوام نے ان ہی قدرتی وسائل کو روبہ کار لانا شروع کیا ہے، تو مغرب کو ماحولیاتی حفاظت کی بابت بڑی’’ بے قراری‘‘ سی پیدا ہوگئی ہے ۔

بہر حال یہ کسی ایک قوم، ایک علاقہ او رایک مذہب کے ماننے والوں کا مسئلہ نہیں ؛ بلکہ یہ عالمی اور بین قومی مسئلہ ہے، اسلام جو ایک عالمگیر، جغرافیائی سرحدوں سے ماوراء اور زمانۂ وعہد کی قید سے آزاد مذہب ہے، ممکن نہیں کہ وہ اس اہم مسئلہ سے صرفِ نظر کرے، اسلام کی تعلیمات اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و ارشادات سے اس سلسلے میں روشنی حاصل کی جاسکتی ہے، آپ ؐنے ہر ایسی بات سے منع فرمایا، جو ماحول کو گندہ اور آلودہ کرتی ہے اور انسانی سماج کے لئے روحانی یا جسمانی لحاظ سے مضرت رساں ہے ۔

چنانچہ حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐنے تین مقامات پر قضائِ حاجت سے منع فرمایا، ایسی جگہ پر جہاں مسافرین سرراہ پڑاؤ کرتے ہوں، راستے پر اور درخت کے سایہ میں، ( ابو داؤد : ۱۴۱:۶۲) اسی طرح آپؐ نے اس کی بھی تلقین فرمائی کہ قضاء ِحاجت کے لئے آبادی سے دور کی جگہ کا انتخاب کیا جائے ؛ بلکہ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ آپ ؐضرورت کے لئے مکہ سے قریب دو میل کی دوری پر واقع مغمس نامی مقام پر تشریف لے جاتے تھے،(مجمع الزوائد : ۱ ؍۲۰۳)آپؐ نے اس بات سے بھی منع فرمایا کہ کسی برتن میں پیشاب کر کے اسے گھر میں رکھا جائے ۔ (طبرانی عن عبد اللہ بن یزید)

پانی کی حفاظت کی خاص طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ؛ اسی لئے آپ ؐنے فرمایا کہ ٹھہرے اور رُکے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کیا جائے، اور حضرت جابرؓ کی روایت میں ہے کہ آپؐ نے بہتے ہوئے پانی میں بھی پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے، (مجمع الزوائد : ۴؍۲۰۴) اورخاص طور پر آپؐ نے حمام اور غسل خانہ میں پیشاب کرنے کی ممانعت فرمائی ۔ (ابو داؤد و ترمذی عن عبد اللہ بن مغفل)

جن چیزوں سے ماحول آلودہ ہوتا ہے، ان کو زمین میں دفن کرنے کی ہدایت دی گئی، اسلام میں مردوں کی تدفین کا نظم قائم کیا گیا، جو حیوانی مردہ اجسام سے پیدا ہونے والی آلودگیوں سے حفاظت کا سب سے مؤثر طریقہ ہے، اسلام نے جیسے مسلمانوں کی تدفین کا حکم دیا ہے، اسی طرح غیر مسلموں کی نعش کو بھی دفن کرنے کی ہدایت کی ہے، پھر غور کیجئے کہ قرآن مجید نے ہابیل و قابیل کے واقعہ میں کوے کو زیر زمین دبانے کا ذکر کیا ہے، (المائدہ: ۳۱) یہ گویا اس بات کا اشارہ ہے کہ مردار کو بھی یوں ہی نہ چھوڑ نا چاہئے ؛ بلکہ ان کو بھی مٹی کے نیچے دبا دینا چاہئے اور کچھ اسی پر موقوف نہیں، دوسرے اجزاء ِجسم جن سے تعفن پھیل سکتا ہو اور آلودگی پیدا ہوتی ہو، ان کو بھی دفن کر دینے کا حکم دیا گیا ہے ؛ چنانچہ حضرت اُم سعدؓسے مروی ہے کہ آپ ؐنے خون کو دفن کرنے کا حکم فرمایا، (مجمع الزوائد : ۵ ؍ ۹۲، بحوالہ طبرانی) اسی طرح حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ناک سے نکلنے والی آلائش کو دفن کرنے کا حکم فرمایا، (مسند بزار، مجمع الزوائد : ۸ ؍۱۱۴) اسی لئے فقہاء نے خواتین کو ماہواری کے زمانہ کے آلودہ کپڑوں کو دفن کرنے کا حکم دیا۔

درخت کی حفاطت کی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی ہدایت دی اور شجر کاری کی ترغیب بھی دی، آپؐ نے فرمایا کہ مسلمان کوئی درخت یا کھیتی لگائے اور اس میں سے انسان، درندہ، پرندہ یا چوپایہ کھائے، تو وہ اس کے لئے صدقہ ہو جاتا ہے ۔ (بخاری، کتاب الحرث والمزارعۃ)

اسی لئے بعض صحابہ ؓ خاص اہتمام سے درخت لگایا کرتے تھے، امام احمدؒ نے حضرت ابو درداء ؓ سے نقل کیا ہے کہ وہ خاص اسی نیت سے درخت لگایا کرتے تھے، (مجمع الزوائد : ۴ ؍۶۸ -۶۷) اسی لئے اسلام میں اُفتادہ سرکاری اراضی کے بارے میں یہ اُصول مقرر کیا گیا کہ جو شخص بھی اس میں کاشت کرنا چاہے، حکومت کی اجازت سے کر سکتا ہے، اگر کوئی شخص ایسی اراضی قبضہ میں لے کر پھر اُسے آباد کرنا چھوڑ دے، تو زمین اس سے لے کر دوسرے کے حوالہ کر دی جائے گی ؛ تاکہ وہ اس میں کھیتی کرے ۔ (خلاصہ الفتاویٰ : ۴ ؍۳)

جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شجر کاری اور زراعت کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، وہیں آپ ؐنے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ درخت بے ضرورت کاٹے جائیں، عرب میں زیادہ تر ببول اوربیری ہی کے درخت ہوا کرتے تھے، آپ ؐنے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا کہ اس کو کاٹنے والے اوندھے منھ جہنم میں جائیں گے،(مجمع الزوائد: ۸ ؍۱۱۵۱) ایک ضعیف حدیث میں ایسے شخص پر لعنت بھی بھیجی گئی ہے، (طبرانی عن علی)یہاں تک کہ جنگ میں بھی اسلام نے کھیتیوں اور درختوں کو جلانے اور نقصان پہنچانے کو ناپسند فرمایا ہے، قرآن مجید نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے، جو کسی علاقے پر غلبہ پانے کے بعد وہاں کے کھیتوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں، (البقرۃ : ۲۰۵) ایک حدیث میں آپ ؐنے مجاہدین کو خاص طور پر درختوں اورکھیتوں کے برباد کرنے سے منع فرمایا ۔ (ترمذی عن ابی بکر الصدیقؓ)

یہی حال حیوانات کا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا ضرورت، محض شوقیہ شکار کرنے اور حیوانات کے ہلاک کرنے کو ناپسند فرمایا ہے، آج کل جو مضر صحت گیسیں، مشینوں اور موٹروں سے خارج ہوتی ہیں، ظاہر ہے عہد نبوی میں یہ وسائل انسانی تصرف میں نہیں آئے تھے ؛ لیکن اس سلسلے میں بھی احادیث میں اشارہ موجود ہے، خواہ مخواہ چراغ کے استعمال کو پسند نہیں فرمایا گیا، حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ آپ ؐصبح کے وقت چراغ جلانے کو ناپسند فرماتے تھے، (طبرانی، مجمع الزوائد : ۸؍۱۱۲) اسی طرح آپ ؐنے سوتے وقت چراغ کو گل کرنے کا حکم فرمایا، (مسند احمد، مجمع الزوائد : ۸ ؍۱۱۱)ظاہر ہے کہ اس تدبیر سے تیل کا دھواں کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

اسلام میں اشیاء کے برتنے اور استعمال کرنے کے سلسلے میں دوبنیادی اُصول بتائے گئے ہیں، ایک : یہ کہ کسی بھی شئے کا اس طرح استعمال نہ کیا جائے کہ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچے ’’ لا ضرر ولا ضرار‘‘ دوسرے : جن چیزوں کا استعمال جائز ہے اور جو وافر مقدار میں آدمی کو فراہم ہوں، ان کو بھی بے محل استعمال نہ کیا جائے اور نہ ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جائے، اسی کو قرآن کی زبان میں ’’ اسراف و تبذیر ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی تک کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے سے منع فرمایا اور وضوء و غسل میں بھی محتاط طریقے پر پانی کے استعمال کا حکم فرمایا، جو شریعت پانی میں اسراف کو گوارا نہیں کرتی ہو، وہ پٹرول، ڈیزل، کیروسین اور گیس وغیرہ جیسے قیمتی قدرتی وسائل کے استعمال کو کیوں کر گوارا کر سکتی ہے، جس میں وسائل کا ضیاع بھی ہے اور دوسروں کے لئے مضرت اور نقصان بھی، یہ بنیادی اُصول ہیں، جن سے ماحول کو آلودہ کرنے اور نقصان پہنچانے والی اشیاء کے غیر محتاط اور بے جا استعمال کا حکم جانا جاسکتا ہے ۔

٭٭٭