مذہبمضامین

ہندوستان میں خواتین کے حقوق۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ایک پہل

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بالآخر یہ مبارک فیصلہ کر ہی لیا کہ وہ مسلم سماج میں عورتوں کے ساتھ حق تلفی نہ ہو اس کے لئے مہم چلائیں گے۔ خاص طور پر مسلمان عورتوں کو باپ کے ورثے میں شریعت کے مطابق حصہ داری ضرور ملے، اس کو یقینی بنایا جائے گا۔ یہ ایک انتہائی مستحسن فیصلہ ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

حــــــرفِ حــــــق
پروفیسر اخترالواسع

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بالآخر یہ مبارک فیصلہ کر ہی لیا کہ وہ مسلم سماج میں عورتوں کے ساتھ حق تلفی نہ ہو اس کے لئے مہم چلائیں گے۔ خاص طور پر مسلمان عورتوں کو باپ کے ورثے میں شریعت کے مطابق حصہ داری ضرور ملے، اس کو یقینی بنایا جائے گا۔ یہ ایک انتہائی مستحسن فیصلہ ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں مسلمانوں کی گھیرابندی صرف اس لئے کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی خواتین کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرتے جو ہونا چاہیے۔ جب کہ حقیقتاً اس طرح کے الزامات میں پوری طرح سچائی نہاں نہیں ہے۔

اسلام وہ مذہب ہے جس نے سب سے پہلے لڑکیوں کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم انسانی تاریخ کے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے لڑکیوں کو ان کی پیدائش کے بعد زندہ گاڑ دینے کی رسمِ قبیح کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جنہوں نے یہ فرمایا کہ وہ ماں باپ جو دو لڑکیوں کی صحیح طرح سے پرورش کریں، انہیں تعلیم دلائیں اور اس کے بعد قاعدے سے ان کی شادی کر دیں تو وہ لڑکیاں جہنم کی آگ اور ماں باپ کے بیچ دیوار بن جائیں گی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اسلام میں بیوی رحمت ہے، بیٹی نعمت اور ماں جنت ہے۔

ایک ایسی دنیا میں جب تعلیم پر مٹھی بھر لوگوں کی اجارہ داری تھی، ہر کسی کے لیے حرفِ علم و دانش کا حصول تو بڑی بات ہے، اس کے سننے پر بھی پابندی تھی اور اگر غلطی سے کسی کے کانوں میں وہ پڑ جائیں تو سزا کے طور پر اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا جاتا تھا۔ لیکن جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غارِ حرا سے سوئے قوم آئے تو اپنے ساتھ نماز، زکوۃ، روزے اور حج کا حکم نہیں بلکہ اقرأ کا مول منترا لے کر آئے تھے اور آپ نے فرمایا تھا ’’علم حاصل کرنا فرض ہے ہر مسلمان مرد پر اور ہر مسلمان عورت پر۔‘‘

آپ مرد ہونے کے ناطے باپ تھے لیکن آپؐ نے فرمایا ’’علم حاصل کرو ماں کی گود سے لے کر قبر تک۔‘‘ اس حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو بیٹیوں کا باپ ہے وہ اپنی بیٹیوں کو بہتر سے بہتر اور اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائے کیوں کہ آج کی بیٹیاں ہی تو کل کی مائیں ہوں گی۔ اگر آج وہ پوری طرح زیورِ تعلیم سے آراستہ نہیں کی جائیں گی تو کل جب وہ ماں بنیں گی تو ان کی گود کس طرح آنے والی نسلوں کے لیے درس گاہ اور تعلیم کی آماجگاہ بن پائیں گی؟ لیکن وقت نے یہ ستم بھی دیکھا کہ مسلمانوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم سے دور رکھا اور اس کے نتیجے میں ان کی اولادیں بھی ناخواندہ رہ گئیں اور مسلمان زوال اور پستی کا شکار ہوتے چلے گئے۔

یہ ناخواندگی اور تعلیم سے بے بہرہ ہونے کا نتیجہ تھا کہ مسلم معاشرے میں برائیاں اور کمزوریاں در آتی چلیں گئیں۔ بلاشبہ بڑی حد تک نماز، روزے کا اہتمام تو دیکھنے کو ملا، مسجدیں بھی تعمیر ہوئیں لیکن عبادات کے ساتھ معاملات پر مسلمانوں کی جو خیر خوبی والی گرفت ہونی چاہیے تھی وہ کم ہوتی چلی گئی اور تقریباً معاملات میں پاسداری کا جو عملی جوہر دیکھنے کو ملتا وہ بھی کم ہو گیا۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی غالب اکثریت جو یہیں کے اصل باشندوں پر مشتمل تھی وہ نئے دین میں داخل ہوئے مگر ساتھ میں اپنی پرانی رسمیں اور رویے بھی ساتھ لائے۔ یہ بات کم دلچسپ نہیں کہ اس ملک کے غیرمسلم معاشرے نے تو اسلام کی اچھی باتوں کو قبول کیا۔ مثلاً ستی پرتھا کو ترک کیا، بیوہ کی شادی کو اپنایا لیکن مسلم معاشرے نے غیرمسلموں کی وہ رسومات اپنائیں جو کہ اسلام سے متصادم تھیں۔ جہیز کی رسم ہو یا عورتوں کو قابل کاشت آراضی میں وراثت سے محروم کرنا یا پھر لڑکیوں کو ماں باپ کی وراثت میں ان کے حقوق کو صلب کر لینا۔ اور اس کے لیے بھی یہ دلیل دے کر دوسروں کا منہ بند کرنا اور اپنے دل کو خوش کر لینا کہ بہنوں اور بیٹیوں کو ان کی شادی میں جہیز اور دوسرے اخراجات کرکے ہم نے ان کا حق ادا کر دیا۔

جب کہ حقیقت یہ ہے اور تقریباً ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام میں شادی کے تمام اخراجات اور جہیز پر ہونے والا خرچ مرد کی ذمہ داری ہے، عورت کی نہیں۔ نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کا نکاح جب حضرت علی ؓ سے پڑھایا تو ان کی ذاتی ملکیت میں جو زرہ تھی اسے بکوا کر اس کی جو قیمت ملی اس کے تین حصے کیے۔ ایک سے گرہستی کا معمولی سامان خریدا گیا، دوسرے سے مہر کی ادائیگی کی گئی اور تیسرے سے ولیمہ۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم سب نام لیوا تو رسولؐ کے بنتے ہیں لیکن ہمارا عمل ان کے برعکس ہوتا ہے۔

بلاشبہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانوں کی من حیث القوم ایک اجتماعی ادارہ ہے اور اس نے ہندوستانی جمہوریت کے دائرے میں رہتے ہوئے بڑے کام کیے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے نیک نیتی سے ہی سہی کچھ ایسے اقدامات بھی کئے جو کہ آج تک ہماری پشیمانی اور رسوائی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔

کسی مرد کو محض اپنی انا کی تسکین کے لیے ڈھائی سو روپے متاع معروف کے طور پر نہ دینے پڑ جائیں اس کے لیے زمین آسمان دونوں کو سر پر اٹھا لیا لیکن اسی شدت سے کبھی سرکاروں پر یہ دباؤ نہیں بنایا کہ آپ غیر مسلم خواتین کو ان کے ماں باپ کی قابل کاشت آراضی میں حصہ دیں یا نہ دیں کیوں کہ قرآن کریم کی روح کے منافی ہے اس لئے استثنا سے کام لیتے ہوئے مسلمان عورت کو یہ حق ضرور دیا جائے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس طرح کے کچھ ہلکے پھلکے ریزولیوشن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں پاس کئے گئے لیکن جس زور شور سے اس مسئلے کو جو قرآن کریم کی صریحاً خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا تھا اس پر ہم نے وہ نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا۔

لیکن بہرحال جب جاگیں جبھی سویرا ہے اور ہمیںخوشی ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بہرحال یہ فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس پر راضی کریں گے کہ وہ اپنی بہن بیٹیوں کو ماں باپ کی وراثت خصوصاً قابل کاشت آراضی میں حصہ داری کو یقینی بنائیں۔ یہاں اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ سماج میں برائیاں بری طرح گھر کر گئیں ہیں اور پھر خیر سے اگر ان برائیوں کی ملک کا قانون مدد بھی کرتا ہو تو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو حکومت ہند اور ریاستی حکومتوں کے سامنے باقاعدہ ایک ایسے بِل کا مسودہ پیش کرنا چاہیے جس سے کہ عورتوں کو جس طرح سے وراثت سے محروم کیا گیا ہے اس استثنائی صورت حال کو ختم کرایا جا سکے۔

ہمیں یقین ہے کہ جب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس طرح کی کوئی کوشش کرے گا اور مسلمان عورتوں کو ہر طرح کی وراثت میں شریعت کے مطابق حصہ داری کو یقینی بنانے کے جدوجہد کرے گا تو اس کے نتیجے میں دوسرے مذاہب کی خواتین کے سامنے اسلام کی روشن تصویر سامنے آئے گی اور یہ دنیا میں نہ سہی ہندوستان میں یقینی طور پر اسلام کی ایک مثالی تصویر پیش کرنے کا وسیلہ بنے گی۔

ہم آل انڈیا مسلم پرنسل لاء بورڈ کی اس تحریک کی نہ صرف خود پرزور تائید کرتے ہیں بلکہ تمام مسلم رہنماؤں، جماعتوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ساتھ دیں اور ساتھ ہی حکومتوں سے جو کہ بظاہر خواتین کے ساتھ ہمدردی کا دم بھرتی ہیں ان سے بھی یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مہم میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ہمنوائی ہی نہ کریں بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے میں اس کی مدد کریں۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس اور جامعہ ہمدرد میں ایڈجنکٹ پروفیسر (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)