طنز و مزاحمضامین

دعوتِ افطار

زکریا سلطان

شعبان کے آخری ہفتہ میں ایک عزیز کا فون آیا، کہنے لگے تین رمضان کو آپ مع فیملی ہمارے ساتھ افطار کیجئے۔ ہم نے شکریہ ادا کرکے شرکت کا وعدہ کرلیا، دماغ میں وہ تاریخ بیٹھ گئی کیوں کہ اس وقت تک کسی اورنے ابھی افطار پر مدعو نہیں کیا تھا ” یہ ٹُو ارلی تھا“ اورخیر کے کاموں میں مسابقت کرنے والے وہ پہلے شخص تھے، بے شک کسی روزہ دار کو افطار کروانا خیر کا کام ہے، اس کی بڑی فضیلت ہے، بہت نیکی اور ثواب کا کام ہے۔ رمضان نیکیوں کا موسم ہے، اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، نزولِ قرآن کا مہینہ ہے، جہنم سے نجات کا مہینہ ہے۔ جیسے جیسے دعوت کے دن قریب آتے گئے، ہمارے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتی گئیں، پہلے تو ہم نے سوچا کہ دعوت میں سوٹ پہن کر جائیں گے پھر سوچا کہ رمضان کا مہینہ ہے اور دعوت افطار کی ہے، سوٹ پہن کر جانا مناسب نہ ہوگا ،ہاں اگر ولیمہ کی دعوت ہوتی تو بات اور تھی، ویسے بھی ہمیں اُس بھلے شخص کا قصہ یاد آگیا جو سوٹ پہن کر ایک جنازے میں شریک ہوا اور کئی لوگوں کی موٹی موٹی گالیاں سُنا تھا، ہم نے فوری ارادہ بدل کر شیروانی پہننے کی ٹھان لی، پھر اس پر بھی دل نہیں ٹُھکا تو سوچاکہ کرتا پاجامہ مناسب رہے گا سو استری کرواکر رکھ لیا ،رمضان شروع ہوگیا اور بس دعوت ِ افطار میں شرکت کے لیے صرف ایک ہی دن بچا تھا کہ ہمارے میزبان کا واٹس ایپ پرغیر متوقع پیغام آیا، کہنے لگے ریاض ایرپورٹ سے میسیج کررہا ہوں، عمرہ کے لیے روانگی ہے، آپ سے دعاﺅں کی درخواست ہے! ہم نے پیشگی مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کرنے کے بعد پوچھا بھائی! سفر اور عمرہ تو ٹھیک ہے مگر کل آپ نے افطارکی ہمیں جو دعوت دے رکھی ہے جس کے لیے ہم نے آپ کو اڈوانس میں بہت ساری دعائیں بھی دے دی تھیں اور کپڑے بھی استری کرواکر تیاررکھ لیے تھے، ان کا کیا ہوگا!!! جواب میں انہوں نے ایک مسکرانے والا، اور ایک قہقہہ لگانے والا مُنڈا (ایموجی) ڈال کر لکھا کل دوپہر میں واپسی ہے اور افطار کی دعوت کا پروگرام جوں کا توں برقرار ہے، یہ سن کر ہمیں اطمینان ہوا اور جان میں جان آئی کیوں کہ ہم دودھ کے جلے ہیں اس لیے چھاچھ بھی پھونک پھونک کر سحری اور افطار میں پیتے ہیں، اس لیے کہ ایک صاحب نے ایک مرتبہ ہمیں دعوت دے کر راہ فرار اختیار کی تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ایک اور دوست کو بھی ساتھ لانے کو کہا تھا چنانچہ ہم اپنے ساتھ اس دوست کو لے کروقت مقررہ پر جب ان کے گھر پہنچے تو وہ غائب تھے۔ ہم نے فون کیا تواس نا معقول بھلکڑ شخص نے کہا، کیسے ہیں آپ اور کیسے یاد کرنا ہوا!!! بہرحال الحمدللہ اس بار تین رمضان والی دعوت ماشاءاللہ بڑی اچھی رہی، بہت مزہ آیا۔
باوثوق ذرائع سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ حیدرآباد میں ماہ مبارک کی رونقیں آگئی ہیں، دہی بڑوں کا چلن شروع ہوگیا ہے اور حلیم کی بھٹیاں بھی لگ گئی ہیں، ماشاءاللہ بڑی خوشی کی بات ہے ۔ نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے کے مصداق ملک کے موجودہ حالات دیکھتے ہوئے گمان ہوتا ہے کہ کہیںکسی وقت حلیم اور بریانی پر پابندی نہ لگ جائے کہ نہیں صاحب آپ یہ نہیں کھاسکتے! پھر ایسا نہ ہو کہ ہم حیدرآبادی بریانی اور حلیم کو ماضی کی ڈشیں سمجھ کر اڈلی اور دوسے سے روزہ افطار کرنے لگیں، ناشتہ تو ہمارا قیمہ پراٹوں اور پایوں کے بجائے اب اڈلی وڈے اور دوسے سے ہونے لگا ہے۔ کھانے پینے اور پہننے پر بھی آج کل لوگوں کی نظرِ بد لگی ہوئی ہے۔ تاناشاہی دور میں عوام سے کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز کھاﺅ اور فلاں نہ کھاﺅ۔ اللہ حیدرآبادی بریانی اور حلیم کو نظر بد سے بچائے، ویسے دہی بڑوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ برادران وطن کو جب سے بریانی اور حلیم کا ذائقہ اور فوائد معلوم ہوئے ہیں ،وہ بھی ماہ رمضان المبارک کا انتظارکرنے لگے ہیں۔ حلیم کی بھٹیوں کو شعبان میں دیکھ کر ان کے بھی منہ میں پانی آتا ہے اور وہ خوش ہوتے ہوئے مزے دار چٹپٹی حلیم کھانے کا انتظار کرتے ہیں۔ایک ہوٹل کے اشتہار میںیہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ حلیم کے لیے استعمال ہونے والے پوٹلوںکی نلیاں، دل اور گردے واجبی قیمت میں فروخت ہورہے ہیں جس کی آمدنی کا بڑا حصہ دینی اور فلاحی کاموں میں خرچ کیا جائے گا، واہ بھئی یہ تو خوب رہا آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام! اللہ خیر و برکت دے تجارت میں اور روزہ افطار کروانے والوں کے مال و اسباب میں۔ چلتے چلتے ایک لطیفہ۔ مہینہ رمضان کا تھا،گرمی شدت کی تھی مولوی صاحب بڑے اخلاص سے وعظ و نصیحت فرمارہے تھے کہ ”نفسہ نفسی کا عالم ہوگا ،کسی کو کسی کی پرواہ نہ ہوگی ، میاں بیوی کو اور بیوی میاں کو نہ پوچھے گی، اولاد ماں باپ سے اور ماں باپ اولاد سے بے نیاز ہو جائیں گے، کوئی دوست کسی دوست کے کام نہ آئے گا، سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی ۔ جانتے ہو وہ کون سا وقت ہوگا ؟ ” پٹھان بولا ”افطار کا ! “
کسی کا مشورہ ہے کہ روزہ کی حالت میں گرمی کی شدت اور پیاس سے بچنے کے لیے آپ سحری کے وقت دو چمچ دہی میں چھوٹی الائچی مکس کرکے پی لیں۔اس سے دن بھر آپ کو پیاس نہیں لگے گی اور روزہ آرام سے گزر جائے گا اِن شا ءاللہ۔اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ کھاﺅ پیﺅ اور اسراف نہ کرو۔ خوب تلاوت کیجئے ،نماز کی پابندی کیجئے، غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھیے، خیر و بھلائی کے کام کیجئے اور اس برکتوں والے ماہ مبارک کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوجائیے۔ سب کے لیے ہماری نیک تمنائیں اور مبارکباد پیش ہے۔
٭٭٭