مضامین

پیریار کی دھاڑ۔ اودئے ندھی کی للکار

سید مقصود

”میں بھارت آزاد ہونے سے پہلے تین بڑی برائیوں کو ختم کرنا چاہتاہوں۔ نمبر ایک، برہمنوں کے زیرتسلط کانگریس کو،نمبردو، ذات پات کے نظام کے ساتھ ہندومذہب کو،نمبر تین، سماج پر برہمنوں کی اجارہ داری کو“(بحوالہ ای وی راماسوامی، اے بیوگرافیکل اسکیچ، صفحہ نمبر 13)
یہ الفاظ پیریارراماسوامی کے ہیں۔ 1927ء میں پیریار عزت نفس کی تحریک چلارہے تھے اور عوام کو ہندودھرم سے بغاوت کے لیے اکسار ہے تھے۔ پیریار 1925ء میں کانگریس کو خیرآباد کرچکے تھے۔ گاندھی جب ان سے ملنے آئے، تو پیر یار نے ان کومذکورہ جواب دِیاتھا۔ وہی نظریات کے حامل ڈی کے (دراویڈا کھجگم)وہی پارٹی اب ڈی ایم کے ہوگئی ہے۔ اس پارٹی کے سربراہ اور ٹامل ناڈو کے وزیراعلیٰ اسٹالن ان کے بیٹے اودئے ندھی نے جو سناتن دھرم پر بات کہی ہے،وہ دراصل پیریار کے نظریات ہی ہیں۔ ہر لفظ اپناخاص مطلب، طاقت، وزن، اور ایک تاثر رکھتاہے۔
سناتن دھرم کی حقیقت:۔ سناتن دھرم کا بودھ مت کے بعد لکھی گئی کتابوں میں ذکر ملتاہے۔ مثلاً بھگوت پران میں 10بار، بھگوت گیتا میں 2بار، اس کا ذکر آیاہے۔ درحقیقت، یہ لفظ بودھ دھرم کی بنیادی تعلیمات ”دھم ستو“ سے لیاگیاہے۔ پالی زبان میں ”ایک دھمو سنن تو“ سے آیاہے اس کا مطلب ہے، دشمنی سے دشمنی ختم نہیں ہوتی۔ دوستی کرنا چاہیے۔ دوستی سے دوستی بڑھتی ہے۔ برہمن دھرم اس کا اصلی نام ہے۔ برہمن دھرم کی بنیاد نفرت، دشمنی، تقسیم درتقسیم، ذات پات کی بنیاد پر قائم ہے۔ برہمن ایک زمانے تک اپنے دھرم کو ہندودھرم کہہ کرپرچار کرتے رہے، اور اب سناتن دھرم کے نام سے پرچار کررہے ہیں۔ کیوں کہ انہیں معلوم ہے، وہ صرف تین فیصد ہیں۔تین فیصد کو 80فیصد میں تبدیل کرناہے تو اس کو سناتن دھرم یاہندودھرم کہناپڑے گا۔ اس کااصلی نام برہمن دھرم کہاجائے تو وہ صرف تین فیصد ہوجاتے ہیں۔
اب ہم پیریار راماسوامی کی تحریک، نظریات، اس کے اثرات کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔ اودئے ندھی نے جو کچھ کہا، اس کاپس منظر سے بھی واقفیت ہوگی۔
بات 1904کی ہے، کاشی کے ایک دھرم ستر (لنگر خانہ) میں جو صرف اور صرف برہمنوں کے لیے مخصوص تھا، ہمہ قسم کے کھانے تیار ہورہے تھے۔ جس کی خوشبو سے سارا مطبق مہک رہاتھا۔ زائرین کھانے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے تھے۔ ابھی کھانا شروع ہونے ہی کوتھا، ایک 25سالہ نوجوان زنہار پہنے (اس کو زنہار پہننے کاحق نہیں تھا)پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کونے پربیٹھاپہلا لقمہ اٹھایاہی تھاکہ چوکیدار کی تیز نظر اس سہمے سہمے بھوک سے بے تاب نوجوان پر پڑی۔ ایک ہی نظر میں بھاپ گیاکہ کچھ گڑبڑہے۔ سوالات کی بوچھار شروع ہوئی۔ جس کے وہ مناسب جواب نہ دے سکا۔ نتیجتاً گالی گلوج، دھکم دھکی، چند ہی لمحوں میں وہ سڑک کے اس پارتھا۔ بھوک انسان کوبڑا مجبور بنادیتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد کتوں کی حصہ داری میں اس نے اپنے پیٹ کی آگ بجھائی لیکن اس کے وجود میں آگ ہی آگ بھڑک گئی۔ (بحوالہ وجے ویوہارم، مارچ 2005ء، صفحہ 74) یہی وہ نوجوان 1970ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو میں ایوارڈ لیتے ہوئے ان الفاظ سے نوازا گیا ”دور ِ جدیدکاپیغامبر، ایشیاء کاسقراط، سماجی تحریکات کا باواآدم،جہالت اندھی عقیدت، غیر عقلی روایات کا دشمن پیریار“
پیریا رای وی راماسوامی نائیکر، ٹامل ناڈو کے اوبی سی زمرے میں آنے والی ایک ذات میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، تعمیراتی مزدور تھے۔ بعد میں اناج کی دوکان کھول دی۔ ایروڈ کے بڑے تاجروں میں شمار ہونے لگے۔ اِن کاگھرانہ بڑا مذہبی تھا۔ ان کے گھر پوجا پاٹ، کیرتن، کتھا، کچھ نہ کچھ ہوتارہتاتھا۔ اسی لیے ان کابچپن مذہبی کتابوں کے مطالعے میں گزرا۔ اوران کوسمجھنے کابھرپور موقع ہاتھ آیا۔ گھر کے بھیدی بن گئے۔اسی لئے انھوں نے لنکابڑی آسانی سے ڈھادی۔
بھارت میں اسلام کے داخلے کے ساتھ ہی مروجہ ذات پات کے نظا م میں، دراڑیں پڑناشروع ہوگئی تھیں۔شودروں میں شعوربیدار ہورہاتھا۔ اس شعور کے نتیجے میں بہت ساری تحریکوں نے جنم لیا۔ نشاط ثانیہ کادور آگ پر تیل کاکام کیا۔ انگریزوں نے بھی ایک خاص مقصد کے تحت ان تحریکوں کی پشت پناہی کی۔ دوسرے علاقوں کے بالمقابل، ذات پات کانظام ٹامل ناڈو میں بڑا مستحکم تھا۔ اس کاردعمل بھی شدید ہوا۔ اس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہونے لگا۔ 1916ء میں جسٹس پارٹی بنی۔ جو شودروں کے مساویانہ حقوق اوراس کاتحفظ چاہتی تھی۔ پیریار کی دور رس نظر نے یہ محسوس کرلیاتھاکہ حقوق کا تحفظ ذات پات کی اجارہ داری کو ختم کئے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے پیریار کا ہر قدم جارحانہ، اور اقدامی کیفیت لئے ہوئے تھا۔ ہزاروں سال سے جاری ہر طرح کی مسلمہ غلامی، معاشی عدم مساوات، علم سے محرومی، ورن ویوستھا (ذات پات کانظام)، اور اس کی دین، عزت نفس سے محرومی، اسی لئے پیریار نے 1927ء میں عزت نفس کو بنیاد بناکر تحریک ِ عزت ِ نفس شروع کی۔ اس راہ کی رکاوٹیں، ہند ومذہب کے شعار کو ڈھائے بغیر، اپنے نشان منزل کو پانہیں سکتے۔ اسی لئے ان ہی شعاروں کو نشانہ بنایا۔ نمبرایک۔ رام جی کے مقابلے راون جی کے کردارکو سراہا۔نمبر دو، ذات پات کے نظام کوقائم رکھنے والی، کتاب منوسمرتی، رامائن کو سرِ عام داہن (نذرِ آتش)کیا۔ نمبر 3، مندروں کو استحصالی مراکز سے تعبیر کیا۔ اور مندروں کے نام پر ہزاروں ایکڑ زمین کو بے زمین لوگوں میں تقسیم کرنے کی تحریک چلائی۔ اور کہا ”بے جان مورتیوں سے عظیم زندہ انسان ہیں۔ نمبر چار، مقدس گائے کے گوشت کو کھانے کی ہمت افزائی کی۔ وہ خود بھی بلاکے گوشت خورتھے۔ بکرے، خنزیر کے علاوہ گائے کاگوشت ان کی مرغوب غذاتھی۔ پلاؤ کے بغیر ان کاکھانا مکمل نہیں ہوتاتھا۔ (بحوالہ پیریار جیو تم، اودھیامم، صفحہ نمبر 3، پربھاکر من دھارا) مورتی پوجا کے بارے میں وہ بڑا عقل پرستانہ نظریہ رکھتے تھے۔اسی لئے وہ کہتے تھے، جو خدا چھونے سے ناپاک ہوجاتاہے، ویسے خداکی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے خدا کی مورتیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے، تعمیر سڑک میں استعمال کرنا چاہیے۔ اگر یہ نہیں کرسکتے، تو کم سے کم دریاکے کنارے، دھوبی گھاٹ پر رکھ دیں تو ناپاک کپڑوں کوپاک کرنے کے کام آسکتاہے۔ (بحوالہ انٹا رانی ٹنم، وائی کم پوراٹا چرترا، صفحہ 6، ای جان ویسلی) پیریار بڑے خدا بیزار ومذہب بیزار آدمی تھے۔ اس کی بھی وجہ تھی۔وہ کہتے تھے کہ ”ہمار امذہب اور ہمارا خدا ہی ہمیں نقصان پہنچانے والی زبردست طاقت بن گیاہے مگر ہم پہچاننے سے قاصر ہیں۔ مذہب ہی نے ہم کو شودر، کج فہم، اور بے وقوف بنایاہے“ ایسے خدا اور مذہب سے منکر ہوئے اور ناستک کہلائے پیریار(بحوالہ کوڈیارس،ٹمل اخبار، شمارہ 15/جنوری 1949ء)
کیرالا میں جب وائی کوم ستیہ گرہ جو مذہبی مساوات کے لیے چلایاگیاتھا، ایروناکولم، کیرالا میں پیریار نے یہ قرار داد منظور کرائی ”شودرہی جس مذہب میں مساوات ہووہ مذہب اختیار کرنا چاہیے“۔ کچھ شودر عیسائی بن گئے۔ 50شودروں نے ہندودھرم کو خیرآباد کہہ کے اسلام کی آغوش میں آگئے۔ انسانی مساوات کے حامل، مذاہب کے لئے یہ ایک طرح کاخراج تھا۔ (بحوالہ انٹ رانی ٹنم، وائی کم پوراٹا چرترا، صفحہ 6، ای جان ویسلی)پیریارنے سب سے پہلے شودروں کے تحفظات کے لئے آواز اٹھائی۔ چنانچہ 1924میں انھوں نے کہاتھا”انگریز سرکار کی موجودگی میں ہی اگر ہم شودروں کے لئے تحفظات حاصل نہ کرسکے تو آزادی کے بعد یہ برہمن ہم دراوڑیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے پیروں تلے ہی رکھیں گے“اور اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے لئے بھی تحفظات کی تحریک چلائی۔
1938میں جسٹس پارٹی والوں نے ان کی عظمت کا اعتراف اس طرح کیاکہ جب وہ بلاری جیل میں تھے، اپناقائد مان لیا۔ آخرکار 1944ء میں جسٹس پارٹی دراویڈا سنگٹھم میں ضم ہوگئی۔ 1946ء میں جو دستور ساز کمیٹی بنی تھی، اس میں کل 296اراکین تھے، جس میں 211کاتعلق اونچی ذات سے تھا۔ اور 73کاتعلق مسلم لیگ سے تھا۔ صرف ایک امبیڈکر اَتی شودر (کم تردرجہ کے شودر) تھے۔ وہ بھی مسلم لیگ کی امداد سے، پیریار نے کہا ”آبادی کے سب سے بڑے حصے کی نمائندگی ہی نداردہے۔ بالخصوص پسماندہ طبقات والوں کی۔ ایساد ستور ان کاکیا بھلا کرسکے گا؟15/اگست 1947ء کو پہلے ”یوم ِ آزادی“ کاجشن سار ادیش منارہاتھا مگر پیریار اس دن ”یوم احتجاج“ منارہے تھے۔کیوں کہ آج کا دِن، دراویڑین کے لئے آزادی کانہیں بلکہ صرف زنجیریں تبدیل ہوئی ہیں۔ اسی لئے پیریار نے 1948ء کوکہا ”دراویڈیوں کی حقیقی آزادی، علیحدہ دراوڑستان کے حصول ہی میں ہے“ اس تحریک پر حکومت نے پابندی لگادی۔ اور پیریار جیل بھیج دئے گئے (بحوالہ پروفیسر نارا گونی کی تحریریں، صفحہ 16) 1960ء میں مرکزی حکومت کو برہمن راج کہا۔ ہندوستان کے نقشے سے جنوبی ہند کے حصہ کو نکال کر باقی حصہ کو نذرِ آتش کردیا۔ پھر وہی ہوا۔ پیریار جیل بھیج دیے گئے۔ باغی پیریار کے پاس سماج میں جو اشبھ (منحوس)تھا،وہ پیریا رکے پاس شبھ (سعد) تھا۔ کالارنگ ان کالباس ٹہرا۔ بیوہ منحوس نہیں بلکہ قابل رحم تھی۔ دوسری شادی گناہ نہیں، کارِ ثواب تھا۔ ان کی پہلی بیوی کاانتقال 1949کو ہوا، جب کہ پیریار 70سال کے ہوگئے تھے، دوسری شادی مانیماسے کی۔ مگر سماج کیسے برداشت کرسکتاتھا۔ ان کی شادی متنازعہ ہوگئی۔ اور یہ تنازعہ اتنابڑھا، دراوڑا کھجگم دوحصوں میں بٹ گئی۔ ان ہی کے شاگرد انادورائی نے ڈی ایم کے کی بنیاد ڈالی مگر اس سے ایک فائدہ یہ ہواکہ 1967میں ٹامل ناڈو میں ڈی ایم کے کی سرکار بنی۔ جس میں برہمنوں سے پاک کابینہ تشکیل دی گئی۔

سولہ، سترہ اور اٹھارا،ستمبر 1995ء کو لکھنؤ میں کانشی رام جی نے پیریار میلہ لگایاتھا۔ اس میں پیریار کے شاگردِ خاص، ڈی کے کے موجودہ صدر ویرامنی مہمان خصوصی تھے۔ جب میں نے پیریار، اسلام، اور مسلمانوں کے بارے میں سوالات کیا تو ان کاجواب تھا۔ ”مسلمان بھی برہمنوں کی طرح پیریار کو ناستک، منکر ِ خدا کہتے تھے مگرایسا نہ تھا۔ پیریار برہمنوں کے تراشے ہوئے خداؤں کے خلاف تھے۔ جہاں وہ غیرعقلی مذاہب و نظریات، اندھی عقیدت کے دشمن تھے۔ وہیں پراسلام کے مساوات، بھائی چارہ، انصاف پر مبنی سماج کی تشکیل میں، جو کردار اسلام نے ادا کیا، اس سے وہ بڑے متاثر تھے۔ 69آدی دراوڑیوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کے اعزاز میں پیریار نے ایک جلسہ رکھا۔ جو 20/اکتوبر 1929ء کو ان کی جائے پیدائش ایروڈ میں منعقد کیاگیاتھا۔ اس جلسہ کو مخاطب کرتے ہوئے پیریار کہتے ہیں، ”ان آدی دراوڑیوں نے اسلام قبول کیا، مجھے بہت خوشی ہورہی ہے۔ ان کونیچ بنانے والے ہندومذہب کی زنجیروں کوتوڑ کروہ آزاد ہوگئے۔ کسی حدتک جانوروں کے مقام سے، مورکھ پن سے، جہالت سے، بدتمیزی سے، آزاد ہوگئے۔ میری خوشی کی وجہ یہ ہے۔ ہمارے لوگوں کا قبول ِ اسلام کرنا اصل میں ان کی آزادی کی تحریک ہے۔ اسی لئے آج میں بہت خوش ہوں اِن سے“20/ڈسمبر 1953کو مدراس میں منعقدہ جلسہ سیرت النبی میں پیریار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کواس طرح خراج عقیدت پیش کیاکہ ”پوجے جانے والے، خداؤں سے بہتر انسان ہیں آپ ﷺ“ ختم نبوت کا عقلی جواز، پیریار نے بڑی خوبی سے بیان کیا۔”آپ ﷺنے کہامیں آخری نبی ہوں۔میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ لوگ کچھ بھی سمجھیں،آپ ﷺ کے بعد آج تک کوئی نبی نہیں آیا۔ کیوں کہ آپ ﷺ کی تعلیمات سماج کی تعمیر میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ آپ کے معاشی نظریات نہایت ہی عظیم اور عقل کو حیران کردینے والے ہیں۔آپ کے نظریات زندگی کے ہرشعبہ کے لئے مکمل ہیں۔ اس پر مجھے پورا اطمینان قلب حاصل ہے۔ آپ آخری رسول ہی ہیں۔ اس سے بہتر کوئی نظریہ پیش کرے تودیکھا جائے گا“ کیا عجب ہے کہ کراماً کاتبین نے پیریار کی یہ تقریر ان کے نامہ ء اعمال میں تحریر کی ہوگی تو آپس میں کہاہوگاکہ ناستک پیریار، لاالہٰ کا قائل،محمد رسول اللہ کامعتقد کیوں کر ہوگیا(بحوالہ پیریارکی تقریر،ترجمہ:G,ALOUFIUS 20/ڈسمبر 1953، PERIOR ON ISLAM)
جس قوم میں اہل احسان نہ ہوں وہ قوم برباد ہوجاتی ہے۔ اہل احسان کی زندگیاں دوسروں کی خدمت اور رہنمائی،اور اسی راہ میں بسر ہوتی ہیں۔ نہ تو وہ ناکامی میں متزلزل ہوتے ہیں اور نہ کامیابی میں متکبر، ان کی زندگیاں پامردی، اور بے لوثی سے دوسروں کے لئے وقف ہوتی ہیں یہی ان کی عظمت کا راز ہے۔ (بحوالہ، آواز دوست، مختار مسعود، صفحہ 62)
17/ستمبر 1879کوپیدا ہوا یہ عظیم باٖغی، 12/ڈسمبر 1973ء کو عظمت وعزیمت کا مینار، 94سال کی مجاہدانہ زندگی گزار کر، خدا کے آگے خم ہوگیا۔ یہ ہے پیریار کی عظمت اور ان کے خیالات، جو اودئے ندھی کی آواز میں بہت دنوں کے بعد سنائی دئے۔