روزنامہ منصف کے بارے میں
نئے منصف کے بانی جناب خان لطیف محمد خان صاحب (مرحوم)
[two_third]
-
جناب خان لطیف محمد خان صاحب ہمہ پہلو شخصیت کے حامل تھے جن کا تعلیمی اور کاروباری میدان میں نہایت ممتاز کیرئیر رہا ہے۔
-
تاریخی شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے.
-
تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ امریکہ گئے جہاں 4 دہوں تک قیام کے بعد ہندوستان واپس ہوئے.
[/two_third][one_third_last]
[/one_third_last]
[tabs type=”horizontal”]
[tabs_head]
[tab_title] تعلیم [/tab_title]
[tab_title] آبائی شہر [/tab_title]
[tab_title] منصف سفر [/tab_title]
[tab_title] رہنما [/tab_title]
[tab_title] کھیلوں کی سرگرمی [/tab_title]
[tab_title] عظیم شخصیت [/tab_title]
[tab_title] سماجی سرگرمی [/tab_title]
[/tabs_head]
[tab]
امریکہ جانے سے قبل انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری، انجینئرنگ اور ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی۔ وہ دور طالب علمی میں طلبا کے قائد تھے۔ باوقار اعزہ اسکول کی طلباء یونین کے صدر اور عثمانیہ یونیورسٹی سائنس کالج کی طلبا یونین کے سکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل وہ 1959 میں سٹی کالج میں سکریٹری اور فُٹبال ٹیم کے کیپٹن رہ چکے ہیں۔ امریکہ کی ایسٹرن الینائے یونیورسٹی کی انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس یونین کے بھی صدر رہ چکے ہیں۔ وطن واپسی کے بعد چونکہ انہوں نے خود کو سماجی کام کے لیے وقف کردیا تھا، اسی لیے ایک تعلیمی مہم شروع کی جس کے تحت کے جی سے لے کر پوسٹ گریجویشن کی سطح تک انہوں نے تعلیمی ادارے قائم کئے جن میں ہزاروں طلباء ایسے علاقوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جہاں سماجی اور معاشی طور پر پسماندگی کا شکار افراد رہتے ہیں۔ ان کے لیے کروڑ ہاروپئے خرچ کر کے جناب خان لطیف محمد خان نے مفت تعلیم کا انتظام کیا۔ [/tab]
[tab]
معاشی استحکام کے پیش نظر انہوں نے متعددمیقاتی اور فنی مراکز خواتین کے لئے بھی قائم کئے جہاں غریب گھرانوں کی پردہ دار غیر پڑھی لکھی خواتین کو مفت ٹریننگ دی جاتی ہے اور انہیں کشیدہ کاری،سلائی،بیوٹی ٹیکنیشین کورسس وغیرہ سکھائے جاتے ہیں۔ ان خواتین اور لڑکیوں کو سلائی مشین اور سلائی میں استعمال ہونے والی اشیاء مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ مراکز اب ان خواتین کے لئے روزگار کا ذریعہ بھی بن گئے ہیں کیونکہ انہیں تیار شدہ ملبوسات کی صنعت سے مربوط کر دیا گیا ہے۔ تربیت کے بعد یہ خواتین و لڑکیاں اب ماہانہ ہزاروں روپے کما رہی ہیں اور آرام سے زندگی گذار رہی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں بچہ مزدوری کی لعنت کا بھی خاتمہ ہو رہا ہے۔ [/tab]
[tab] مغربی ممالک جیسے امریکہ میں کئی سنگ میل طے کرنے کے بعد بھی انہوں نے کبھی اپنے وطن حیدرآباد کو فراموش نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے ملک اور قوم کی خدمت انجام دینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انہوں نے ریاست کی بہتری کی خاطر تعلیمی تحریک کو فروغ دینے کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا ۔ نوجوان نسل میں اعلیٰ کردار اور بصیرت پیدا کرنے کی خاطر انہوں نے خود کو سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی سے 1990ء میں وابستہ کیا۔ یہاں بھی انہوں نے کئی ترقیاتی سرگرمیاں انجام دیں۔ کالج کے لیے نیشنل بورڈ آف ایکریڈیٹیشن سے وابستگی حاصل کرنے میں بھی موصوف نے کلیدی رول ادا کیا۔ اسی کالج میں انہوں نے ایم سی اے جیسے کورس شروع کرنے کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ 1999ء میں وہ دوبارہ سوسائٹی کے صدر نشین منتخب ہوئے اور تادم حیات خدمات انجام دیتے رہے۔ اس وابستگی کے دوران جناب خان لطیف محمد خان نے سوسائٹی کے تحت چلنے والے مختلف اداروں میں جدید اور سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کا کام بھی انجام دیا۔ [/tab]
[tab]
انہوں نے اخبار منصف کی باگ ڈور 1996ء میں سنبھالی تھی۔صرف دو سال کی مدت میں یہ اخبار ہندوستان کے اردو روزناموں میں نمبر ایک ہو گیا۔ حیدرآباد میں جو مختلف ادارے انہوں نے قائم کئے ہیں، ان کے ذریعہ سینکڑوں افراد کو روزگار فراہم ہوتا ہے۔ آرٹ، ڈرامہ، کلچر کو جو قومی یکجہتی پر مبنی ہے، فروغ دینے کے لئے انہوں نے قلب شہر حیدرآباد میں عابڈس پر دو سینما تھیٹرس سنتوش 70 ایم ایم اور سپنا 35 ایم ایم بھی قائم کئے،جو شہر کے مشہور سینما گھروں میں شمار ہوتے ہیں۔ [/tab]
[tab]
ریاست کے مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار کے میدان میں 5 فیصد تحفظات کی فراہمی میں انہوں نے اہم رول ادا کیا تھا۔ سپریم کورٹ میں مقدمہ کی پیروی کے لئے جیب خاص سے انہوں نے بھاری رقم ادا کر کے سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء کو متعین کیا،جنہوں نے آندھراپردیش حکومت اور ہائی کورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ کمیشن میں بحث کی۔ گجرات فسادات کے متاثرین کی مدد کے لئے بھی وہ آگے بڑھے، جن کے لئے انہوں نے 1.26 کروڑ کی رقم جمع کی۔ گجرات کے متاثرین کے لئے جناب خان لطیف محمد خان نے وہاں منصف کالونی تعمیر کی۔ کھیل کود کے میدان میں بھی انہوں نے اہم رول ادا کئے۔ انہوں نے سٹی کالج اولڈ بوائز اسوسی ایشن کے ذریعہ فٹبال اور والی بال کی ترقی کے لئے بھاری رقم خرچ کی تاکہ ملازمتوں میں جو اسپورٹس کو ٹہ ہوتا ہے، اس میں کمزور طبقات کے نوجوانوں کو موقع مل سکے۔ [/tab]
[tab]
2002 ء میں جبکہ حیدرآباد میں نیشنل گیمس منعقد ہوئے تھے تو انہوں نے مقابلہ جیتنے والےہر کھلاڑی کو لاکھوں روپے کا نقد انعام بھی دیا تھا۔ انہوں نے نیشنل جونیر روونگ چمپئن شپ کی کفالت بھی کی،جو حیدرآباد میں اکتوبر 15تا 19 ،2003 منعقد کی گئی۔ شہر حیدرآباد میں خوبصورت عمارتیں تعمیر کر کے انہوں نے تعمیرات کے شعبہ میں بھی اہم کام انجام دئیے۔ ایک بلڈ رکی حیثیت سے بھی انہوں نے اپنے نقوش چھوڑے۔ بنجارہ جھیل کے قریب لیک ویواپار ٹمنٹس کی تعمیر بھی کی،جس کے بعد خان لطیف خان اسٹیٹ کی تعمیر ہوئی،جو حیدرآباد کی تاریخ میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ یہ عمارت فتح میدان اسٹیدیم کے روبرو واقع ہے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں، ٹاٹا کنسلٹنسی سرویسس، بی ایس این ایل، ہیل کنیڈا جیسی معروف کار پوریٹ کمپنیوں کے دفاتر کام کر رہے ہیں۔ تاریخی چار مینار کے قر یب جلو خانہ عقب لاڈ بازار میں ایک خوبصورت شاپنگ کامپلکس بھی قائم کیا گیا ہے۔ [/tab]
[tab]
غرض جناب خان لطیف محمد خان صاحب نابغۂ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ اردو صحافت کو نئی بلندیوں پر لیجانے اور اس کے وقار میں اضافہ کرتے ہوئے اردو صحافیوں کے معیار زندگی کو ایک نئی پرواز عطا کرنے والی یہ عظیم شخصیت نے 6 اگست 2020 کو داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ ان کا انتقال امریکی ریاست الینائے کے شہر شکاگو میں ہوا۔وہ شکاگو کے ہی ایک مسلم قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔.[/tab]
[/tabs]
یہ ویب سائٹ روزنامہ منصف کے تحت ہی چلائی جارہی ہے۔ جناب محمد عبدالجلیل صاحب اخبار اور ویب سائٹ کے ایڈیٹر انچیف ہیں۔