دہلی

سپریم کورٹ نے 2000 روپئے کے نوٹ پر جلد سماعت سے انکار کردیا

تعطیلاتی بنچ نے ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے دائر اپیل پر جلد سماعت کے لیے فہرست دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار گرمیوں کی تعطیلات کے بعد چیف جسٹس کے سامنے اس معاملے کا ذکر کر سکتے ہیں۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بغیر کسی درست شناختی ثبوت کے 2000 روپے کے نوٹ تبدیل کرنے کی اجازت سے متعلق دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی پر جلد سماعت کرنے سے جمعرات کو انکار کر دیا۔

متعلقہ خبریں
تعلیم کیلئے مخصوص اسکول کے انتخاب کا حق نہیں: دہلی ہائی کورٹ
ہر چیز پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ای وی ایم، وی وی پیاٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ
عباس انصاری والدکی فاتحہ میں شرکت کے خواہاں
سی اے اے قواعد کا مقصد پڑوسی ملکوں کی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ
صدر جمہوریہ کے خلاف حکومت ِ کیرالا کا سپریم کورٹ میں مقدمہ

جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی تعطیلاتی بنچ نے ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے دائر اپیل پر جلد سماعت کے لیے فہرست دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار گرمیوں کی تعطیلات کے بعد چیف جسٹس کے سامنے اس معاملے کا ذکر کر سکتے ہیں۔

ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف چہارشنبہ کو ہی عدالت میں اپیل دائر کی تھی۔ انہوں نے آج ‘خصوصی تذکرہ’ کے دوران یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ اپادھیائے کی جانب سے دائر اپیل میں کہا گیا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کا 29 مئی 2023 کا فیصلہ درست نہیں ہے۔

عرضی گزار کا استدلال ہے کہ 19 اور 20 مئی کو جاری کردہ آر بی آئی کے نوٹیفکیشن نے غیر قانونی رقم کو قانونی بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس لیے یہ واضح طور پر من مانی، غیر معقول اور مساوات کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔

ہائی کورٹ نے پیر کے روز اپادھیائے کی پی آئی ایل کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ یہ نوٹوں کی واپسی سے متعلق خالصتاً ایک پالیسی فیصلہ ہے اور اسے ٹیڑھا یا من مانا نہیں کہا جا سکتا یا یہ کہ اس نے بلیک منی، منی لانڈرنگ ، منافع خوری یا بدعنوانی کو فروغ دیا ہے۔

ایڈوکیٹ اپادھیائے نے عدالت عظمیٰ میں داخل کی گئی اپنی خصوصی اجازت کی درخواست میں کہا ہے کہ ہائی کورٹ یہ ماننے میں ناکام رہی کہ آر بی آئی نے نوٹیفکیشن میں قبول کیا کہ زیر گردش 2000 روپے کے نوٹوں کی کل قیمت 6.73 لاکھ کروڑ روپے سے کم ہو کر 3.62 لاکھ کروڑ روپے رہ گئی ہے۔

انہوں نے کہا، ”اس کا مطلب ہے کہ 3.11 لاکھ کروڑ روپے لوگوں کے لاکر میں پہنچ چکے ہیں اور باقی جمع خوری کردی گئی ہے۔

درخواست گزار وکیل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ نوٹیفکیشنس بدعنوانی کی روک تھام ایکٹ، بے نامی لین دین ایکٹ، منی لانڈرنگ ایکٹ، محتسب ایکٹ، سی وی سی ایکٹ، مفرور اقتصادی مجرم ایکٹ اور بلیک منی ایکٹ کے مقصد اور مقاصد کے خلاف ہیں۔

وکیل نے یہ بھی دلیل دی ہے کہ تقریباً 30 کروڑ خاندانوں کے پاس 130 کروڑ آدھار کارڈ ہیں۔ اسی طرح 225 کروڑ بینک اکاؤنٹس ہیں جن میں 48 کروڑ جن دھن اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے، "2000 روپے کے نوٹوں کو بینک اکاؤنٹ میں جمع کیے بغیر یا کسی قسم کی پرچی اور شناختی ثبوت حاصل کیے بغیر بدلنے کی اجازت دینا واضح طور پر من مانی، غیر معقول اور آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے۔”