مذہب

سوال سونے کی انگوٹھی کا نہیں، سوال تو روزِ محشر پکڑ کا تھا

یہ آج سے 56 برس پہلے کی بات ہے ریاست آسام کے دارالحکومت گوہاٹی سے تقریباً 360 کیلو میٹر دور واقع ضلع سیوا ساگر کے شہر کے ڈھائی علی گرلز ہائی اسکول کا منظر ہے۔

محمد مصطفی علی سروری

متعلقہ خبریں
فُضلات سے تیار شدہ گیس
روزہ میں ماہواری شروع ہوجائے
استقبالِ رمضان میں، نبی کریمؐ کا ایک جامع وعظ
بغیر کسی عذر کے لوگوں کے سامنے کھلے عام روزہ توڑنا گناہ کبیرہ: مفتی اعظم مصر
رمضان میں ہند۔ پاک مچھیروں کی رہائی کا مطالبہ

یہ آج سے 56 برس پہلے کی بات ہے ریاست آسام کے دارالحکومت گوہاٹی سے تقریباً 360 کیلو میٹر دور واقع ضلع سیوا ساگر کے شہر کے ڈھائی علی گرلز ہائی اسکول کا منظر ہے۔

ہائی اسکول کی ایک کلاس میں زلیخا نامی لڑکی پڑھا کرتی تھی۔ اسکول تو اگرچہ سرکاری تھا مگر زلیخا کا تعلق ماشاء اللہ سے بڑے گھرانے سے تھا۔ اس لیے زلیخا اسکول میں بھی سونے کے زیورات پہن کر آیا کرتی تھی۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ زلیخا نے ٹیچر سے شکایت کی کہ کلاس میں اس کی انگوٹھی گم ہوگئی ہے۔ سب نے ڈھونڈا لیکن زلیخا کی انگوٹھی نہیں ملی۔

قارئین 56 برس پہلے اس واقعہ کو آج یاد کرنے کا ایک اہم سبب ہے وہ یہ کہ سال 2023ء میں زلیخا کو ایک خاتون کا فون آتا ہے وہ زلیخا سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے۔ زلیخا اس اجنبی خاتون کو گھر آنے کی دعوت دیتی ہے۔ اجنبی خاتون نے زلیخا سے 21؍ مارچ 2023ء کو اس کے گھر پرملاقات کرنے کے بعد ایک لفافہ حوالے کرتی ہے۔ جس میں 12 ہزار روپئے بند ہوتے ہیں۔

خاتون نے زلیخا کو 12 ہزار روپئے کیوں دیئے اور وہ اجنبی خاتون کون ہے ان سب کے متعلق اخبار انڈین ایکسپریس نے 23؍ مارچ 2023ء کو تفصیلی خبر شائع کی۔ خبر کی تفصیلات کے مطابق وہ اجنبی خاتون کوئی اور نہیں زلیخا کے اسکول میں اس کے ساتھ پڑھنے والی لڑکی طیب النساء ہے۔ اخبار کے رپورٹر پر سانتا مزمدار نے لکھا ہے کہ زلیخا اور طیب النساء دونوں ایک ہی جماعت میں ڈھائی علی گرلز ہائی اسکول میں پڑھا کرتی تھی جس دن زلیخا کی 1967ء میں سونے کی انگوٹھی کمرہ جماعت میں گم ہوگئی اس کے اگلے دن طیب النساء جب اسکول کے وقت سے پہلے کمرہ جماعت میں پہنچتی ہے تو کلاس روم کی صفائی کے دوران طیب النساء کو زلیخا کی سونے کی انگوٹھی مل جاتی ہے۔ طیب النساء نے انگوٹھی ملنے کے بعد بھی اس کو زلیخا کو واپس کرنے کے بارے میں سوچا لیکن پھر ڈر اس بات کا ہوا کہ سب لوگ اس کو ہی چور کہیں گے۔ بس اسی ڈر کی وجہ سے طیب النساء نے سونے کی انگوٹھی واپس نہیں کی اور اس کو اپنے گھر لے کر چلی گئی۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور پھر ہوا یوں کہ طیب النساء کے والد کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے ان کے گھر کے حالات بہت خراب ہوگئے۔ اس طرح کے پریشان حالات میں طیب النساء کے گھر والوں نے سونے کی وہ انگوٹھی فروخت کر کے اپنی ضروریات کاسامان پیدا کیا۔

وقت گذرنے کے ساتھ زلیخا اور طیب النساء کا آپس میں رابطہ ٹوٹ گیا۔ دوسری طرف طیب النساء کھیل کود میں تیز تھی۔ ڈسکس تھرو کے قومی مقابلوں میں طیب النساء نے نیشنل مقابلے بھی جیتے۔ اور سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور طیب النساء کو ان سرٹیفکیٹ کی بنیادوں پر اسپورٹس کوٹے کے تحت انڈین ریلوے میں ملازمت بھی مل گئی۔

سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ طیب النساء نے کھیل کود میں میڈل جیت لیا، سرکاری نوکری بھی مل گئی مگر ان سب کے باوجود طیب النساء کو ایک بات کا ملال تھا۔ وہ ہمیشہ اس غم میں مبتلا رہتی تھی کہ ہائی اسکول میں صفائی کرتے وقت سونے کی انگوٹھی جو ملی تھی وہ زلیخا کی تھی اور افسوس اس بات کا ہے کہ اس نے وہ انگوٹھی واپس کرنے کے بجائے اپنے گھر میں رکھ لی۔

اب طیب النساء کے لیے سونے کی انگوٹھی خریدنا ممکن تھا مگر وہ تو چاہتی تھی کہ زلیخا سے اس کی ملاقات ہوجائے اور وہ اس کو سب کچھ سچ سچ بتادے اور چونکہ وہ اصلی انگوٹھی تو وہ واپس نہیں کرسکتی تھی اس لیے کم سے کم وہ انگوٹھی کی قیمت کے مساوی رقم زلیخا کو واپس کر کے اپنے دل کا سکون حاصل کرسکتی ہے۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ طیب النساء کے پاس سونے کی انگوٹھی کی قیمت ادا کرنے کی استطاعت تو تھی مگر زلیخا کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ طیب النساء نے اپنی بہن سے مدد مانگی کہ ڈھائی علی گرلز ہائی اسکول کے 1967ء کے بیاچ کی زلیخا کی تلاش کرنا ہے۔ طیب النساء کی بہن نے بہت سارے لوگوں سے بات کی۔ بہت سارے لوگوں سے پتہ پوچھا تب کہیں جاکر پتہ چلا کہ زلیخاں کہاں ہے۔ پھر زلیخا کا فون نمبر حاصل کرنے کے بعد طیب النساء نے فون پر زلیخا سے بات کی اور اپنی خواہش ظاہر کی کہ وہ ملنا چاہتی ہے۔ بالآخر 21؍ مارچ 2023ء کو طیب النساء زلیخا کے گھر پہنچ کر ملاقات کرتی ہے اور 56 سال پرانے سونے کی انگوٹھی کا سارا قصہ سنا ڈالتی ہے۔

طیب النساء نے جب زلیخا کو انگوٹھی کے بدلے رقم چکانے کی کوشش کی تو شروع میں زلیخا نے منع کیا لیکن طیب النساء نے واضح کردیا کہ وہ انگوٹھی کے قرضے تلے دبی ہوئی ہے اور اس کے ذہن کو سکون بھی نہیں ہے۔ جب تک وہ انگوٹھی کی رقم واپس نہیں لے لیتی تب تک اس کو چین نہیں مل سکتا ہے۔ بہت اصرار کے بعد بالآخر زلیخا نے بند لفافے میں 12 ہزار روپئے واپس لیے۔اخبار نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق کم گو شرمیلی زلیخا نے بھی طیب النساء سے ملاقات پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں تو طیب النساء کو بھول چکی تھی لیکن اس نے مجھے یاد رکھا۔

قارئین طیب النساء نے آج سے 56 برس پہلے ہوئی ایک غلطی کے ازالہ کے لیے بے چین رہی اور مسلسل بے چین رہتے ہوئے اپنی اس سہیلی کی تلاش کے کام کو جاری رکھا (اور نیتوں کا حال تو خدائے ذوالجلال کو ہی صحیح علم ہے) اور بالآخر اپنی سہیلی کی انگوٹھی کی رقم واپس کرتے ہوئے اپنی اس شرمندگی کے ازالہ کی کوشش کی جو گذشتہ پانچ دہائیوں سے مسلسل ستاتی رہی۔ طیب النساء کے لیے یہ کام بالکل بھی آسان نہیں تھا کیونکہ طیب النساء اب ایک ریلوے افسر بن چکی ہے۔ ساتھ ہی وہ ڈسک تھرو کی نیشنل کھلاڑی بھی تھی۔ لیکن اس خاتون نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی کہ لوگ اس کو کیا کہیں گے۔ اس خاتون نے یہ بھی نہیں سوچا کہ لوگ اس کو طعنہ دیں گے۔ کیونکہ طیب النساء کا دل بے چین تھا اور ایک عجیب سی کیفیت تھی کہ اسکول کے زمانے میں اس نے ایک ایسی حرکت کی جو کہ اس کو نہیں کرنی چاہیے تھی۔

قارئین بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ ان سے غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ لیکن اچھے بچوں کی پہچان تو یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو مان کر ان کی اصلاح کرلیں۔ قابل مبارکباد ہے طیب النساء جس نے ایک طویل عرصے کے بعد بھی اپنی غلطی کی اصلاح کی۔ لیکن ہمارے سماج میں ہمارے آس پاس ہمارے رشتہ داروں میں اور خود ہم میں سے بہت سارے احباب ایسے ہیں جو اپنی غلطیوں کے بارے میں خود جانتے ہیں اور غلطیاں یاد آنے پر بجائے نادم ہونے کے ارے آج کے دور میں سبھی لوگ ایسا کرتے ہیں۔ معافی کون مانگتا ہے کہہ کر اپنے آپ کو اپنے ضمیر کو دلاسا دے کر سلا دیتے ہیں۔

ایک ایسے وقت جب رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے ضرورت ہے کہ ہم محاسبہ کریں۔ کسی فرد یا تنظیم کا نہیں بلکہ اپنی ذات کا۔ اپنے اعمال کا اور طئے کریں کہ ہمیں اللہ کے حضور پیش تو ہونا ہی ہے کیوں نہ ہم ان لوگوں سے بھی معافی چاہیں جن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو یا ہماری ذات سے جن کسی کو تکلیف پہنچی ہو۔

حقوق اللہ میں کوتاہیوں کے لیے ہم اللہ کی ذات سے معافی طلب کرسکتے ہیں لیکن جب حقوق العباد کے حوالے سے کمیوں اور ناانصافیوں کا معاملہ ہو تو متعلقہ بندوں سے بھی معافی مانگنی ضروری ہوجاتی ہے۔

ایک ایسے وقت جب امت مسلمہ ہر طرف سے امتحانات اور پریشانیوں و آزمائشوں میں گھری ہو سبھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بجائے دوسروں پر انگلی اٹھانے، الزامات تراشنے کے اپنی ذات کا محاسبہ کریں۔ اپنے اعمال کا اور اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں۔ کیا ہم نے کسی کا ناحق مال تو نہیں ہڑپ لیا۔ کیا ہم نے کسی کی زمین پر تو قبضہ نہیں کرلیا۔ کیا ہم نے کسی کو جانے انجانے میں تکلیف تو نہیں پہنچائی ہے۔ پھر چاہے وہ اپنی گاڑی کی پارکنگ سے ہو یا ہارن کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے ۔

ان سب سے توبہ کرتے ہوئے ہم اللہ کے حضور دعاء گو ہیں کہ وہ اس ماہ مبارک کے دوران ہمیں طیب النساء کی طرح اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس مہینے کی برکتوں سے نواز دے۔ (آمین ۔ یارب العالمین)

(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔sarwari829@yahoo.com