Uncategorizedسیاستمضامین

پراپرٹی ڈیولپمنٹ معاہدات مالکینِ جائیداد کیلئے تباہ کن ثابت ہورہے ہیں‘ سخت احتیاط برتنے کی ضرورت ہےغیرمجاز تعمیر کے خلاف بلیک میلرس ہائیکورٹ میں رٹ درخواست پیش کرکے تعمیر کو مہر بند کروارہے ہیں

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ اراضی کے مالکین کو بھاری نقصانات برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
٭ رٹ درخواست واپس نہیں ہوسکتی۔ ہائیکورٹ
٭ کئی سال گزرنے کے بعد بھی تعمیر کا موقف جوں کا توں ہے۔
٭ بغیر قانونی مشورہ کے معاہدہ کرنے کا شاخسانہ
نادانی اور خود اعتمادی میں کئے گئے پراپرٹی ڈیولپمنٹ معاہدات کس بھیانک حد تک خطرناک ثابت ہورہے ہیں ان کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔ آج کے دور میں ہر کس و ناکس رئیل اسٹیٹ بزنس من بن گیا ہے اور پراپرٹی ڈیولپمنٹ ان کا پیشہ بن گیا ہے۔ وہ حضرات جو دو تین سو مربع گز یا اس سے کچھ زیادہ رقبۂ اراضی یا قدیم مکان کے واحد یا مشترکہ مالک ہیں‘ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اراضی پر ہمہ منزلہ کامپلکس تعمیر کریں اور اپارٹمنٹس کو آپس میں تقسیم کرلیں۔ ایسے لوگوں کے پاس تعمیر کے بھاری اخراجات کے لیے پیسہ نہیں رہتا۔ لہٰذا وہ لوگ کسی ایسے بلڈر سے پراپرٹی ڈیولپمنٹ کا معاہدہ کرتے ہیں جو 50:50 کی اساس پر ہوتا ہے۔ پیسہ ڈیولپر کا ہوتا ہے اوروہ مالکینِ جائیداد سے ایک رجسٹر شدہ ڈیولپمنٹ معاہدہ کرتا ہے جس میں یہ بات درج ہوتی ہے کہ ڈیولپر کے حصہ میں آئے ہوئے تعمیر شدہ رقبہ کو فروخت کرنے کا مجاز ہوگا۔ معاہدہ کے فوری بعد بلڈر کو قبضہ دیدیا جاتا ہے اور زمین کو مسطح کردیا جاتا ہے۔ بلڈر بغیر کسی تعمیری اجازت کے کام شروع کردیتا ہے۔ پلرس بنائے جاتے ہیں اور چار پانچ فلورس بھی ڈال دیئے جاتے ہیں۔ اجازت حاصل نہیں کی جاتی۔ پھر اس کے بعد متعلقہ ڈپٹی کمشنر محکمۂ بلدیہ سے تعمیری اجازت دیجاتی ہے جس میں Set-Back دیا جاتا ہے اور دو منزلہ تعمیر کی ہی اجازت ملتی ہے کیوں کہ چھوٹے رقبۂ اراضی پر دو سے زیادہ منزلیں تعمیر کرنے کی ممانعت ہے کیوں کہ قانون اور تعمیری قواعد یہی کہتے ہیں۔ معاہدہ میں وقت کا تعین ہوتا ہے جو عموماً 18سے 24ماہ تک ہوتا ہے۔ درایں اثناء بلڈر صاحب اپنے حصہ میں آنے والے فلیٹس اور دوکانوں کی فروخت کی اڈوانس رقم وصول کرلیتے ہیں اوراکثر صورتوں میں تعمیری کام جاری رہتاہے۔ اکثر صورتوں میں مالکِ اراضی کو اڈوانس میں کوئی رقم بھی نہیں جاتی اور نہ ہی ان کو کرایہ پر کوئی مکان دلایا جاتا ہے۔ اگر کبھی پیسوں کی کمی پڑجائے تو تعمیر روک دی جاتی ہے۔
تعمیر کیوں رکتی ہے۔ مالکِ اراضی کا نقصان کس طرح ہوتا ہے
شہر میں ایک بلیک میلرس لابی کا بہت زور وشور ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر غیرمجازتعمیر کرنے والے کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور کبھی بھاری رقومات کا مطالبہ کرتے ہیں تو کبھی ایک فلیٹ مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے یہ تعمیر غیرقانونی طور پر کی ہے ۔ یہ تعمیر بغیر اجازت تعمیر کی گئی ہے یا اس کی اجازت صرف دومنزلوں تک ہے اور آپ نے پانچ منزلوں کے فلورس ڈالے ہیں۔ آپ نے متعلقہ ٹاؤن پلاننگ عہدیدار کو رشوت دے کر اوپری منزلیں تعمیر کی ہیں۔ یہ ہمارے مطالبات ہیں۔ اگر آپ نے ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے تو ہم گورنمنٹ ‘ کمشنر میونسپل کارپوریشن سے شکایت کریں گے کہ آپ نے غیر مجاز تعمیر کی ہے اور انہدامی کارروائی کا مطالبہ کریں گے۔ اگر میونسپل کارپوریشن ہمارے مطالبہ کو تسلیم نہیں کرتی ہے تو ہم ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر کمشنر میونسپل کارپوریشن کے نام یہ احکام صادر کروائیں گے کہ آپ کی غیر مجاز تعمیر کے خلاف ازروئے قانون کارروائی کرے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق آپ کی تعمیر مہر بند(Seal) ہوجائے گی اور آپ کا بھاری نقصان ہوگا۔ اگر بلڈر اور مالکِ اراضی ایسے بلیک میلرس کے ناجائز مطالبات کو قبول کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ یہ لوگ وہی کرگزریں گے جس کی انہوں نے دھمکی دی ہے۔ اگر ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا تو یہ لوگ سب سے پہلے متعلق ڈپٹی کمشنر کے روبرو ایک شکایتی درخواست پیش کرکے غیر مجاز تعمیر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایسی درخواست وصول ہونے کے فوری بعد یہ عہدیدار بلڈر کے اور مالکِ جائیداد سے ربط قائم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھئے آپ کے خلاف شکایت آئی ہے جو صرف میری حد تک ہے اور یہ شکایت اوپر تک پہنچ گئی ہے۔ آپ برائے مہربانی اس شکایت کنندہ سے کوئی مصالحت کرکے شکایتی درخواست واپس لے لیں ورنہ اگر یہ شخص کمشنر یا ہائیکورٹ سے رجوع ہو تو ہم مجبور ہوجائیں گے کہ آپ کی تعمیراتی سرگرمی کو روک دیں اور آپ کی تعمیرکو مہر بند کردیں یا منہدم کردیں۔
اگر ان مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا تو شکایت کنندہ یا بلیک میلر کمشنر بلدیہ کے روبرو ایسی ہی درخواست پیش کرے گا اور اس کے چند ہفتوں بعد ہائیکورٹ سے بذریعہ رٹ رجوع ہوکر غیر مجاز تعمیر کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست دے گا۔ ایسی رٹ درخواست کا لازمی نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ ہائیکورٹ اپنے عبوری حکم میں کمشنر میونسپل کارپوریشن کو درخواست گزار کی درخواست پر عمل درآمد کا حکم دے گا اور ساتھ ہی یہ حکم ہائیکورٹ کی رجسٹری کو جاری کرے گا کہ یہ رٹ درخواست کسی بھی قیمت پر واپس نہیں ہوسکتی۔ ہائیکورٹ ایسے بلیک میلرس کے ارادوں سے واقف ہے کہ سابق میں ایسی درخواستیں دائر کی گئیں اور پھر واپس یعنی (Withdraw) کرلی گئیں۔ لہٰذا درخواست کی واپسی کا ذریعہ بند ہوگیا۔ نہ تو بلیک میلرس کا ہی کوئی فائدہ ہوا اور نہ پراجکٹ کی تکمیل ہوسکی۔ عمارت یاتو مہر بند کردی گئی یا اجازت سے زائد تعمیر کردہ فلورس منہدم کردیئے گئے۔ نقصان اور بھاری نقصان صرف مالکِ اراضی کا ہوا جس نے محض خود اعتمادی سے بغیر قانونی مشورہ یہ اقدام کیا اور کروڑوں روپیوں مالیتی جائیداد برباد ہوگئی۔
اوپر لکھے ہوئے واقعات گزشتہ ایک ماہ کے دوران آئی ہوئی کئی شکایتوں کا نچوڑ ہیں ‘ حالات کم و بیش ایک جیسے ہیں۔ مالکینِ جائیداد اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔ وہ افراد جنہوں نے بلڈرصاحب کو اڈوانس ادا کیا تھا وہ بھی کفِ افسوس مل رہے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اس ضمن میں اس سے پہلے کچھ نہیں لکھا گیا اور اپنی رائے کی اشاعت نہیں کی سابق میں کم و بیش چھ سات بار اسی مضمون پر اپنی رائے کی اشاعت کی گئی تھی اور سخت وارننگ دی گئی تھی کہ تعمیر صرف منظورہ فلورس کی حد تک ہی کی جائے گی۔ ساتھ ہی یہ رائے بھی دی گئی تھی کہ جہاں تک ہوسکے تعمیرآپ خود ہی کریں۔ اگر پیسہ نہ ہو تو آہستہ آہستہ اور اپنی سہولت کے لحاظ سے کریںاور کبھی بھی اور کسی صورت میں منظورہ پلان کی مخالفت میں تعمیر نہ کریں ورنہ بھاری نقصان کا اندیشہ لاحق رہے گا لیکن ہماری رائے صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔
مالکینِ جائیداد کیلئے مشورے
-1 جہاں تک ہوسکے ڈیولپمنٹ معاہدات سے گریز کریں کیوں کہ ان میں خطرہ کا عنصر رہے گا۔ پتہ نہیں بلڈر صاحب کی تکنیکی صلاحیت اور مالی حیثیت کیا ہے اور یہ کہ ان کے پاس ایسی تعمیرات کو تکمیل تک پہنچانے کا کتنا تجربہ ہے۔
-2 اگر معاہدہ کرنا ضروری ہوجائے توبلڈر صاحب سے بہت بڑی رقم بطورِ اڈوانس وصول کیجئے جو قابلِ واپسی ہو ۔
-3 جب تک پراجکٹ کی تکمیل نہیں ہوتی‘ اس مدت تک ایک مکان میں رہنے کا کرایہ حاصل کرنے کا معاہدہ کیجئے۔
-4 اس بات کا خیال رکھیئے کہ پراجکٹ کی مکمل تکمیل کے بعد اور اپنا تعمیری رقبہ حاصل کرنے کے بعد ہی بلڈر صاحب اپنا تعمیری رقبہ فروخت کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔
-5 اس وقت تک تعمیر کی اجازت نہ دیجئے جب تک کہ تعمیری اجازت نہیں مل جاتی۔
-6 اگر یہ کہا جائے کہ بعد میں(BRS) کے تحت اوپری منزلوں کی اجازت حاصل کی جائے گی تو یقین نہ کریں۔
-7 تعمیر 18تا 24ماہ کے اندر ہوجائے۔ اس سے زیادہ مدت کی نہیں۔
-8 جنگ۔ ایمرجنسی اورآفاتِ سماوی کی صورت میں چھ ماہ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
-9 اگر ان شرائط میں سے کسی ایک شرط کی خلاف ورزی ہو تو معاہدہ کو منسوخ کرنے کا حق مالکِ جائیداد کو حاصل رہے گا۔
-10 بلڈر کی جانب سے پیش کئے گئے ڈیولپمنٹ معاہدہ پر اس وقت تک دستخط نہ کریں جب تک کہ آپ قانونی رائے حاصل نہ کرلیں۔
-11 اگر خود ہی تعمیری کام کرنا ہے تو ضرور کیجئے۔ آہستہ آہستہ کام کو آگے بڑھائیے اگر ہمت و حوصلہ ہو تو ہر مشکل کام آسان ہوسکتا ہے۔
کرایہ دار اور مالکِ جائیداد کا تنازعہ
ایک خطرناک صورتحال
سوال:- میرے ایک جان کار ایک بہت بڑی بلڈنگ کے مالک ہیں جو شہر کے ایک پاش علاقہ میں واقع ہے۔ ان کا ارادہ اس بڑی جائیداد کو کسی بڑی کمپنی یا بزنس گروپ کو کرایہ پر دینے کا تھا اور اس غرض کے لئے انہوں نے ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی کے انتظامیہ سے ربط قائم کیا جس کے تعلقات بہت بڑے بزنس گروپ سے تھے۔ بلڈنگ اتنی بڑی تھی جو صرف بڑے دفاتر کے ہی کام آسکتی تھی۔ کوئی بھی فرد اس بلڈنگ کے بھاری کرایہ کو ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ بہت دنوں کے بعد رئیل اسٹیٹ ایجنٹ ایک کمپنی کے منیجر کو ساتھ لایا۔ ہمارے جانکار اس شخص اور اس کے ظاہرہی ٹھاٹ باٹ اور شاندار کار سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایک بھاری کرائے پر اس بلڈنگ کو کریہ پر دینے کی حامی بھرلی۔ معاہدہ کے مطابق بلڈنگ کے کئی ہال اور کمروں میں ایرکنڈیشنر لگانے کی بات ہوئی تومالکِ بلڈنگ نے اس کی بھی حامی بھرلی۔ اس کے بعد کرایہ نامہ لکھا گیا۔ جب انہوں نے کرایہ نامہ کی رجسٹری کی بات کی تو منیجر نے کہا کہ ہمیں دس سال کے لئے آپ کی بلڈنگ کی ضرورت ہے اور کرایہ کی رقم کے مطابق بہت بھاری رقم اسٹامپ فیس اور رجسٹریشن چارجس میں ضائع ہوگی لہٰذا بغیر رجسٹری کے معاہدہ ہوگیا۔ اڈوانس میں دو ماہ کا کرایہ دیا گیا اور ساتھ ہی قبضہ بھی دیدیا گیا۔ ایک مہینہ کرایہ ادا کیا گیا جس پر انکم ٹیکس کی رقم بھی (TDS) میں ادا کردی گئی۔ پھر اس کے بعد کرایہ بند ہوگیا اور منیجر بھی غائب ہوگیا۔ اب دفتر میں کوئی بھی نہیں۔ باہر ایک نیون سائن لگا ہوا ہے اور دفتر بند ہے۔ اس شخص کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ کرایہ کی رقم بڑھ رہی ہے۔ اب نہ تو کرایہ ہی آرہا ہے اور نہ ہی اس شخص کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکا کہ وہ کون ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بدمعاش ہریانہ کا رہنے والا ہے اور بہت ہی فراڈ قسم کا آدمی ہے۔ آفس میں اس کا فرنیچر اور کچھ کرسیاں اور ٹیبل ہیں۔
اب اس صورت میں صاحبِ موصوف بہت ہی پریشان ہیں۔ ان کے لئے کیا قانونی رائے ہوسکتی ہے۔
جواب:- شائد وہ شخص نادان مالکِ جائیداد سے بھاری رقم وصول کرکے غائب ہوجائے گا اور بلڈنگ مالکِ جائیداد کے حوالے کردے گا۔
خودکردہ را علاجے نیست