بھارتسوشیل میڈیا

مخلوط تعلیم کے باعث مسلم لڑکیاں، مرتد ہورہی ہیں: مولانا ارشد مدنی

جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا ہے کہ مخلوط تعلیم کی وجہ سے مسلم لڑکیاں مرتد ہورہی ہیں۔ اس کی روک تھام کے لئے مزید تعلیمی ادارے کھولے جانے چاہئیں۔

نئی دہلی: جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا ہے کہ مخلوط تعلیم کی وجہ سے مسلم لڑکیاں مرتد ہورہی ہیں۔ اس کی روک تھام کے لئے مزید تعلیمی ادارے کھولے جانے چاہئیں۔

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

مولانا نے اتوار کے دن کہا کہ ملک میں ارتداد کا تیزی سے پھیلاؤ خطرناک ہے۔ مسلمانوں کے خلاف یہ منظم طریقہ سے شروع ہوا ہے۔ اس کے تحت ہماری لڑکیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس رجحان کی روک تھام کے لئے فوری اور موثر اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والے دنوں میں صورتِ حال دھماکو ہوجائے گی۔

مخلوط تعلیم کی وجہ سے یہ رجحان زور پکڑرہا ہے اور اسی لئے ہم مخلوط تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ میڈیا ہمارے نقطہ ئ نظر کو منفی طریقہ سے پیش کرتا ہے اور شور مچاتا ہے کہ مولانا مدنی لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں جبکہ ہم کوایجوکیشن کے خلاف نہیں‘ گرلز ایجوکیشن کے خلاف نہیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہم جو بھی کرسکتے ہیں وہ اب قوم کی فلاح و بہبود اور تعلیمی ترقی کے لئے کرنا چاہئے۔ ملک کی آزادی کے بعد ہم بحیثیت قوم تاریخ کے انتہائی نازک مقام پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف ہمیں مختلف مسائل میں الجھایا جارہا ہے اور دوسری طرف معاشی‘ سماجی‘ سیاسی اور تعلیمی ترقی کی راہیں ہم پر بند کی جارہی ہیں۔

اگر ہمیں اس خاموش سازش کو ہرانا اور کامیابی کی معراج پر پہنچنا ہے تو ہمیں اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ تعلیمی ادارے کھولنے ہوں گے۔

مولانا نے کہا کہ قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ تعلیم ہر دور میں ترقی کی کلید (کنجی) رہی ہے لہٰذا ہمیں اپنے بچوں کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرنا چاہئے بلکہ انہیں احساسِ کمتری سے نکال کر مسابقتی امتحانات لکھنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔

اس طرح ہم اپنے خلاف ہر سازش کا کرارا جواب دے سکتے ہیں۔ جمعیت کے قومی عاملہ اجلاس میں ان قانونی کیسس کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا جو جمعیت کا قانونی سل لڑرہا ہے۔ ان میں آسام میں شہریت قانون کی برقراری اور ملک میں مذہبی مقامات کے تحفظ جیسے اہم کیسس شامل ہیں۔