بھارت

ملک میں فرقہ پرستی کو عروج کے لئے کانگریس ذمہ دار: مولانا ارشدمدنی

انہوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی کا قتل درحقیقت ملک کے سیکولرازم کا قتل تھا، مگرافسوس اس وقت کانگریس قیادت کو جوکرنا چاہئے تھا اس نے نہیں کیا۔

ممبئی: فرقہ پرستی کو ملک کے لئے تباہ کن قرار دیتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا سیدارشدمدنی نے ایک بارپھر اعادہ کیا ہے کہ مہاتماگاندھی کے قتل کے پیچھے فرقہ پرست طاقتوں کاہاتھ تھا اوراگراسی وقت فرقہ پرستی کے سرکو کچل دیاجاتاتوملک کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا تھا۔

انہوں نے یہ بات جمعیۃ کے سہ روزہ اختتامی اجلاس میں کہی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ تقسیم کے بعد ملک بھر میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے تو انہیں روکنے کے لئے مہاتما گاندھی برت رکھ رہے تھے۔ فرقہ پرستوں یہاں تک کہ کانگریس میں موجود بعض بڑے لیڈوں کو یہ بات اچھی نہ لگی اوروہ ان کے خلاف ہوگئے اوربالآخرانہیں موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی کا قتل درحقیقت ملک کے سیکولرازم کا قتل تھا، مگرافسوس اس وقت کانگریس قیادت کو جوکرنا چاہئے تھا اس نے نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی قیادت مسلسل کانگریس کی قیادت سے مطالبہ کررہی تھی کہ فرقہ پرستی کے اس جنون کو روکے مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی۔

اس سے فرقہ پرستوں کو شہہ مل گئی۔ تاریخ کے صفحات پلٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آزادی سے قبل جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین نے کانگریس لیڈروں سے یہ تحریری وعدہ لے لیا تھا کہ آزادی کے بعد ملک کا دستورسیکولرہوگا یعنی حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اورتمام اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی ہوگی۔

انہوں نے آگے کہا کہ جب ملک تقسیم ہوا توکانگریس لیڈروں کا بھی ایک بڑاحلقہ ان دوسروں لیڈروں کے اس مطالبہ میں شریک ہوگیا کہ چونکہ مسلمانوں کے لئے نیاملک بن چکاہے اس لئے اب ملک کا دستورسیکولرنہ رکھاجائے۔

اس موقع پر جمعیۃعلماء ہند کی قیادت کانگریس لیڈروں کاہاتھ پکڑکر بیٹھ گئی اورکہاکہ اگرملک تقسیم ہواہے تواس کے مسودہ پر ہم نے نہیں آپ نے دستخط کئے ہیں۔ اس لئے آپ نے ہم سے جو وعدہ کیا ہے اسے پوراکریں، چنانچہ سیکولردستورمرتب ہوگیا،لیکن فرقہ پرستی کی جڑیں اندرہی اندرگہری ہوتی گئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمعیۃ علمائے ہند کانگریس سے مطالبہ کرتی رہی کہ انسداد فرقہ پرستی بل پاس کرایا جائے اور بل پاس کراتی ڈی ایم اور ایس پی کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تو بہت حد تک فسادات پر قدغن لگایا جا سکتا تھا۔

جمعیۃعلماء ہند کے مسلسل اصرارکے بعد بھی اس پر نکیل نہیں ڈالی گئی اگرچہ اس وقت مرکزاورتمام صوبوں میں کانگریس کا ہی اقتدارتھا اوروہ چاہتی تواس پرکوئی سخت قانون سازی کرسکتی تھی مگر اس نے جولچکدارپالیسی اختیارکی اس کے نتیجہ میں فرقہ پرست طاقتورہوتے گئے اورپھریہی فرقہ پرستی ایک دن کانگریس کے اقتدار کو نگل گئی۔

اسی تسلسل میں مولانا مدنی نے کہا کہ کرناٹک کے الیکشن میں کانگریس نے فرقہ پرستی کے خلاف جو سخت موقف اختیارکیا اورجس طرح بجرنگ دل اوراس جیسی دوسری تنظیموں پر پابندی لگانے کا وعدہ کیاہے وہ قابل تحسین ہے، اوراب وقت آگیاہے کہ کانگریس اپنے انتخابی وعدہ کو پوراکرے اوراقتصادی پسماندگی کی بنیادپر جو ریزرویشن مسلمانوں کو دیا گیا ہے اسے بحال کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ الیکشن پوری طرح ہندو مسلم دشمنی کی بنیاد پر لڑا گیا مگر کرناٹک کے عوام نے ان کے نفرت کے اس ایجنڈے کو پوری طرح مسترد کردیا۔ یہ انتخابی نتیجہ بتاتا ہے کہ ملک کی اکثریت آج بھی نفرت کی سیاست کو پسند نہیں کرتی اورکانگریس کے منی فیسٹو کو سچ مانتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس نے فرقہ پرستی کے خلاف اب جو سخت موقف اختیارکیا ہے اگراب سے 75سال قبل ایساہی موقف اختیارکرتی تووہ اقتدارسے بے دخل نہیں ہوئی ہوتی اورملک تباہی کے دہانے تک نہ پہنچا ہوتا۔

ان 75برسوں میں فرقہ پرستی نے اپنی جڑیں کس طرح اندرتک مضبوط کرلی ہیں اس کی وضاحت کے لئے مولانا مدنی نے راہول گاندھی سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کیا اس وقت کانگریس اقتدارمیں تھی اورپڑھے لکھے مسلم نوجوانوں کی دہشت گردی کے الزام میں دھڑادھڑگرفتاریاں ہورہی تھیں۔

اس مسئلہ کو لیکر جب وہ راہول گاندھی سے ملے توانہوں نے اس وقت کے وزیرمملکت برائے داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملہ کو حل کرے۔ مذکورہ وزیرنے معاملہ میں گہری دلچسپی لی اوراسے حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی مگر دوماہ بعد ہی اس وزیرکو ہٹا دیا گیا اوراس معاملہ کی فائل ہمیشہ کے لئے بند کردی گئی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اس واقعہ سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ملک کے رگ وریشہ میں فرقہ پرستی کا زہر کس حدتک سرایت کرگیاہے، فرقہ پرست طاقتوں کے ہاتھوں اب نہ آئین محفوظ ہے اورنہ ہی آئینی ادارے یکساں سول کوڈ لاکر شہریوں کی مذہبی آزادی کو چھین لینے کی سازش ہورہی ہے۔

نئی قومی تعلیمی پالیسی کے آڑمیں ہندواحیاء پرستی کو فروغ دینے کی کوشش شروع ہوگئی ہے۔ جمعیۃعلماء ہند اس کی شدید مخالفت کرتی ہے اورمجلس منتظمہ کے اجلاس میں اس پر تجاویز بھی منظورکی جاچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سچ یہ ہے کہ ڈراورخوف کا ماحول پیداکرکے پورے ملک کو پولس اسٹیٹ میں بدل دیاگیاہے لیکن قومی یکجہتی مذہبی یگانگت اورباہمی پیارومحبت کی صدیوں پرانی جوروایتیں ہیں فرقہ پرستی ابھی انہیں ختم نہیں کرسکی ہیں۔

کرناٹک کے لوگوں نے اس کا ثبوت فراہم کردیاہے کچھ لوگ اب بھی خوش فہمی میں ہے کہ منافرت کی سیاست ہی ان کے اقتدارکو محفوظ رکھ سکتی ہے، ایسے لوگوں کو کرناٹک میں شدیددھچکالگاہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ملک کے اتحاداورسلامتی کے لئے قومی یکجہتی اورمذہبی رواداری کاعملی نمونہ بن جائیں۔

انہوں نے ایک بارپھرکہاکہ نفرت کو نفرت سے نہیں محبت سے ہی ہرایاجاسکتاہے یہ ہماراملک ہے اس کے لئے ہمارے بزرگوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اس لئے اس کی ترقی اورخوشحالی کی ذمہ داری بھی ہم پرہی عائد ہوتی ہے، قوموں کی زندگی میں مشکل دورآتے ہیں اورپھر گزرجاتے ہیں اس لئے مایوس ہونے کی جگہ ہمیں اپنی تمام ترتوانائی ملک کے مذہبی اتحاد امن اوراپنی قانونی واقتصادی ترقی پرصرف کرناچاہئے۔

ارتداد کے پڑھتے ہوئے واقعات کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پر قدغن لگانے کا واحدحل یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں اوربچیوں کے لئے علاحدہ علاحدہ معیاری اسکول وکالج قائم کریں۔ اس کے لئے انہوں نے قوم کے صاحب ثروت افرادسے آگے آنے کی اپیل کی اورتمام حاضرین سے کہا کہ آپ سب کو اس کے لئے مل کر ایک مشن کے طورپر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اجلاس میں شریک ہونے والے اہم شخصیات میں مفتی سید معصوم ثاقب ناظم عمومی جمعیۃعلماء ہند، مولانامحموددریابادی، مولانا سیداسجدمدنی نائب صدرجمعیۃعلماء ہند، مولانا اخلدرشیدی مدینہ منورہ،مولانا اشہدرشیدی صدرجمعیۃعلماء یوپی،اورجمعیۃعلماء کے تمام صوبوں کے صدوروناظم اعلیٰ اورجمعیۃعلماء مجلس منتظمہ کے ممبران موجودتھے۔ اس کے علاوہ ممبراکے ایم ایل اے جتندراوہاڈ اورجماعت اسلامی ہند ممئی کے جنرل سکریٹری نے بھی خطاب کیا۔ نظامت کے فرائض مولانا حلیم اللہ قاسمی ناظم اعلیٰ جمعیۃعلماء مہاراشٹراورناظم عمومی جمعیۃعلماء ہندنے مشترکہ طورپر انجام دیئے۔