مضامین

ریاض اور واشنگٹن کے درمیان فوجی مفاہمت

عبدالرحمان الراشد

امریکی صدر جو بائیڈن کے جدہ شہر کے دورے کے بارے میں میڈیا میں شوروغوغا اور ہلچل کے باوجود، اس کے جن نتائج کا باضابطہ طور پراعلان کیا گیا ہے،ان کے مطابق صدر کا دورہ مملکت تزویراتی قدر کے لحاظ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔
موقع خواہ کوئی بھی ہو، مقبول میڈیا ہمیشہ انکشافات سے بھرپور خبروں اور سنسنی خیز کہانیوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ چند سال قبل سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ، شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور مصری صدرعبدالفتاح السیسی کی ایک مخصوص مرکز کے افتتاح کے موقع پرایک کُرّے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تصویرنمایاں خبر بن گئی تھی لیکن انھوں نے انتہا پسندنظریات سے نمٹنے کے لیے جس عالمی مرکز کا افتتاح کیا تھا،اس کی خبردب کر رہ گئی تھی۔اسی طرح سابق صدر بارک اوباما کے اعزازی کالر وصول کرنے کے لیے جھکنے کی وجہ سے خبر شہ سرخیوں کے ساتھ میڈیا کی زینت بنی تھی۔مرحوم شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز اورامریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے درمیان مصافحہ کی خبر،صدر جو بائیڈن کے طیارے پر سوارہوتے وقت سیڑھیوں پر ٹھوکر کھانے یا بائیسکل سے گرنے کے واقعات کا ذکرکرنے کی توضرورت ہی نہیں۔ اوراب سعودی ولی عہد کے ساتھ بائیڈن کی مٹھی کی ٹکرکی باری آتی ہے۔ ان کا شاہی محل کے دروازے پر پُرتپاک استقبال کیا گیا لیکن اسے واشنگٹن میں کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے مسترد کرنے کو اُمڈ پڑے:”سعودی ولی عہد نے صدرکا ہوائی اڈے پران کے طیارے کے پہلومیں (ٹارمک پر)خیرمقدم کیوں نہیں کیا؟“
لیکن جب اس طرح کی ملاقاتوں کا تسلسل میں جائزہ لیا جاتا ہے تو پریس اسکوپ وہ بات نہیں ہوتی جواہمیت کی حامل ہوتی ہے۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعاون کے معاہدے طے پائے ہیں اور ایک اہم سیاسی سربراہ اجلاس منعقد ہوا جس میں خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کی ریاستوں، مصر، اردن اور عراق کے رہ نماﺅں کے ساتھ صدر بائیڈن بھی شریک تھے۔
ان تزویراتی انتظامات کوتو ایک طرف رکھیں ،جن پر اتفاق کیا گیا تھا، لیکن ان کا علانیہ اظہار نہیں کیا گیا، ملاقاتوں کے بعد جاری کردہ سرکاری بیانات دو طرفہ تعلقات اور تعاون میں ایک اہم پیش رفت کے آئینہ دار ہیں۔ میری رائے میں ان کا اہم پہلوامریکہ کی سعودی عرب کے ساتھ فوجی تعاون کی طرف واپسی ہے۔درحقیقت یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے الریاض کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات کو دوبارہ زندہ کردیا ہے جوسابق صدر براک اوباما کی صدارت کے دور سے قریباً ایک دہائی سے تعطل کا شکار تھے اور ان میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی۔
براک اوباما نے اپنے دورصدارت میں سعودی عرب اور عرب ممالک کے ساتھ تعاون کم کرنے اورایران کے ساتھ مذاکرات کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ کے دور میں کانگریس نے الریاض کے ساتھ فوجی معاہدوں اور تعاون کے کچھ پہلوو¿ں پر قدغنیں لگادی تھیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان اورصدر بائیڈن نے گزشتہ جمعہ کو اپنی ملاقات میں اس بات پراتفاق کیا کہ امریکہ اور دیگر امن فوجی اور مبصرین سال کے آخر تک خلیج عقبہ کے دہانے پر واقع سعودی جزیرے تیران سے نکل جائیں گے۔یہ بات الریاض کی اس درخواست پر سامنے آئی کہ تیران کو فوجی اڈے سے اقتصادی اڈے میں تبدیل کردیا جائے کیونکہ مصر نے اس جزیرے پر خودمختاری حاصل کرلی۔ دوسری جانب سعودی عرب اس تزویراتی خطے میں اپنے خودمختاراختیار کا استعمال کرے گا۔وہ دوسال قبل اعلان کردہ معاہدے کے تحت بین الاقوامی جہازرانی کے راستوں کی نگرانی کرے گا۔ یہ معاہدہ اسرائیل کے بحری جہازوں اور طیاروں کو سعودی عرب کے علاوہ علاقائی ممالک کی بحری اور فضائی حدود میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ دونوں حکومتوں نے فوجی اور سکیورٹی کے شعبے میں تعاون کے جو معاہدے کیے ہیں،ان میں واشنگٹن نے جدید فوجی دفاعی اور تکنیکی نظام سمیت فوجی سازوسامان دوبارہ سعودی عرب کو فروخت کرنے کااعلان کیا ہے۔ واشنگٹن نے امن کے لیے خطرہ بننے والے ڈرونز اور بیلسٹک میزائلوں یعنی ایران اور اس کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کی جانب سے داغے جانے والے میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نظام کی تنصیب میں مملکت کے ساتھ تعاون کا بھی وعدہ کیا جس کا اس نے واضح طور پرنام نہیں لیا۔
جدہ سربراہ اجلاس کے سرکاری طورپراعلان کردہ حاصلات کے مطابق بحیرہ احمر میں مشترکہ ٹاسک فورس اور خلیج عمان اور بحیرہ شمالی عرب میں سعودی قیادت میں ایک اور مشترکہ گروپ کے قیام پراتفاق کیا گیا ہے۔اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ سعودی افواج بحری حدود کی حفاظت کے لیے جدید ٹیکنالوجی جیسے بغیرانسان کے جہازوں اور مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھانے کے لیے خطے میں موجود امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے کے ساتھ مل کر کام کریں گی۔
ہم نے یہ بھی ملاحظہ کیا کہ امریکہ ایک مدت کی علاحدگی کے بعد الریاض کے ساتھ سکیورٹی کے شعبے میں تعاون کی طرف لوٹ رہا ہے۔اس مفاہمت میں سعودی نیشنل سائبر سکیورٹی اتھارٹی اور دوسری طرف ایف بی آئی اور امریکی سائبرسکیورٹی اور انفراسٹرکچرایجنسی کے درمیان سائبرسکیورٹی سے متعلق دو سمجھوتے بھی شامل تھے۔
ٹیلی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ سعودی عرب نے چینی فائیو جی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کردیا ہے، ہم نے جدہ اجلاس کے نتائج کے اعلان میں نوٹ کیا کہ امریکہ نے سعودی اور امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو 5جی اور 6جی ٹیکنالوجیز مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی تعاون کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دست خط کیے ہیں۔ان کے علاوہ سرمایہ کاری، صحت اور قانون کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے فروغ کے معاہدے طے پائے ہیں۔