مضامین

گجراتی ٹھگ کرن بھائی پٹیل کے پیچھے کون؟

محمد ہاشم القاسمی

گزشتہ دنوں جموں و کشمیر پولیس نے سری نگر شہر میں ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا ہے، جو خود کو وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر میں ٹاپ رینک کا افسر بتاتا تھا۔ وہ شخص دوران سفر نہ صرف فائیو اسٹار ہوٹل میں سرکاری مہمان بن کر ٹھہرتا تھا بلکہ زیڈ پلس سیکورٹی میں کشمیر کے حساس علاقوں میں بھی گھومنے پھرنے جاتا تھا۔ وادی کشمیر کے حسین نظاروں میں سیلفیز لیتا، خود ویڈیو بناتا، فیسبک اور ٹوئٹر پر اپلوڈ کرتا تھا اور سرکاری سروس اور مراعات کا بھرپور لطف اٹھاتا تھا، سرکاری افسران اپنے اصول و قواعد (پروٹوکول) بھول کر اس کی جی حضوری میں مصروف ہو جاتے تھے، وہ ڈانٹ ڈپٹ کرتا، کبھی افسران کے ساتھ میٹنگ کرتا، کسی کو ترقی دینے کی خوشخبری سناتا، اور کسی کی نوکری ختم کرنے کا دھونس جماتا۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے مبینہ طورپر خود کو وزیر اعظم دفتر دہلی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کے طور پر ظاہر کرنے والے جعلساز کا نام ”کرن بھائی پٹیل“ ہے۔ اگر میڈیا ذرائع کی مانیں تو ٹھگباز کرن بھائی پٹیل، جو اس وقت قومی سطح پر سرخیوں میں ہے، اس نے جعلسازی کی کئی حرکتیں اس سے پہلے بھی کی ہیں۔ کرن پٹیل کا احمد آباد گجرات کے منی نگر علاقے میں گھوڑاسر میں ایک پر تعیش بنگلہ ہے۔ کرن پٹیل کے خلاف وڈودرا میں ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر اس کے خلاف نوراتری تہوار میں دھوکہ دہی اور جعلسازی کے معاملے میں درج کی گئی تھی۔ اس کے بعد پولیس نے اسے تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے کی دھوکہ دہی کے معاملے میں گرفتار بھی کیا تھا۔ اپنی شناخت بدلنے والا کرن پٹیل اتنا چالاک اور شاطر ہے کہ ہر کسی کو اپنے جال میں آسانی سے پھانس لیتا ہے۔ ان میں لیڈر سے لے کر پولیس تک، بابا اور سنت بھی شامل ہیں۔
اخباری رپورٹ کے مطابق یہ اس کا پہلا دورہ نہیں، بلکہ تیسرا وی آئی پی دورہ تھا، کشمیر میں ایک مرتبہ وہ فیملی کے ساتھ بھی آیا تھا اور کئی دن تک قیام کیا تھا، خبروں کے مطابق ایک بار وہ ا±ری دورے پر گیا اور سخت حفاظت کے درمیان ہند-پاک سرحد پر کمان امن سیتو کو دیکھنے پہنچا تھا۔ اس دوران اس کے پاس نیم فوجی دستہ کی سیکورٹی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ جنوری 2023 میں روس کا بھی دورہ کر چکا ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ بھی اس کیس سے سخت پریشان اور تشویش میں ہے کہ کیسے جعلساز پولیس اور افسران کی آنکھوں میں دھول جھونک کر زیڈ پلیس سیکورٹی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ آپ کی معلومات کے لئے بتا دیں کہ ایک سو چالیس کروڑ والی آبادی والے ملک ہندوستان میں صرف چالیس لوگوں کو زیڈ پلس سیکورٹی فراہم کی گئی ہے، زیڈ پلس سیکورٹی وہ سسٹم ہے جس کے تحت پچپن لوگ اس کی حفاظت میں لگائے جاتے ہیں، جس میں 10 این ایس جی کمانڈوز، 10 ہتھیار بند گارڈ، 5 پی ایس او، 24 سپاہی، 2 اسکارٹ، 5 نگراں، 6 اسکریننگ کرنے والے، 6 ماہر ڈرائیور، 5 بلٹ پروف گاڑیاں، اور بھی بہت کچھ، اس کا کم از کم ماہانہ خرچ تیس پینتیس لاکھ روپے آتا ہے، اب یہ شخص گزشتہ پانچ ماہ سے زیڈپلس سیکورٹی کے ساتھ مزے لے رہا ہے جس میں کروڑوں روپے کا چونا لگا چکا ہے، لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں بلکہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ یہ ملک کے تحفظ کے ساتھ کتنا بڑا کھلواڑ ہے جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ہندوستان میں زیڈ پلس سیکورٹی پولیس اور مقامی حکومت کی طرف سے اعلیٰ خطرے والے افراد کو ہی فراہم کی جاتی ہے۔ کسی بھی فرد کو درکار سیکورٹی کی سطح کا فیصلہ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے موصول ہونے والی معلومات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جس میں انٹیلی جنس بیورو (IB) اور ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (R&AW) شامل ہیں۔
کانگریس پارٹی نے اپنی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” جموں و کشمیر کے انتہائی حساس علاقے میں زیڈ پلس سکیورٹی کے ساتھ ایک شخص گھوم رہا ہے، اور کسی کو یہ معلوم نہیں ہے، کہ وہ شخص وہاں کیا کرنے گیا ہے، ا س لیے حکومت کو اس سلسلے میں وضاحت کرنی چاہیے۔ کانگریس پارٹی کے میڈیا کے ترجمان پون کھیڑا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس شخص کا پتہ دہلی کا ہے، اور وہ گزشتہ پانچ ماہ سے 55 سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ کشمیر کے انتہائی حساس علاقوں میں گھوم رہا ہے۔ اسے وہاں کس نے اور کیوں بھیجا، اس بارے میں صورتحال واضح ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے خود ٹویٹ کیا ہے، کہ وہ کشمیر کی وادیوں میں ہے، سوال یہ ہے کہ یہ شخص پانچ ماہ سے وزیر اعظم کے دفتر کے نام کا استعمال کر کے زیڈ پلس سکیورٹی کے ساتھ کشمیر کے حساس علاقوں میں کیوں گھوم رہا ہے؟ وہ ایسی جگہ جا رہا ہے جہاں عام آدمی نہیں جا سکتا، نئی دہلی کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ وہ وہاں گھوم رہا ہے، وہ شخص خود ٹویٹ کرکے اور اپنی تصویر لگا کر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کر رہا ہے، کہ اسے کشمیر میں خدمت کرنے کا موقع دیا گیا ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت نے سابق وزرائے اعظم کو دی جانے والی اس سکیورٹی میں کمی کر دی ہے، لیکن کشمیر میں گھومنے پھرنے گئے اس شخص کو زیڈ پلس سکیورٹی ملی ہے، انہوں نے کہا کہ کس کے کہنے پر وہ شخص وہاں گیا ہے؟
14 فروری 2019 کو اسی علاقے میں ایک دہشت گردانہ حملے میں ہمارے 40 فوجی شہید ہوئے تھے، حملے کے لیے آر ڈی ایکس کیسے آیا؟ یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ اسی کشمیر میں جب ڈی ایس پی دیویندر سنگھ دہشت گردوں کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تب اس نے ڈی آئی جی سے کہا تھا کہ ” میرا گیم کیوں خراب کرتے ہو“ کیا گیم تھا؟ کسی کو پتہ نہیں، لیکن آج ڈی ایس پی دیویندر سنگھ کو بغیر تفتیش کے چھوڑ دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ دیویندر سنگھ کو کیوں رہا کیا گیا اور وہ کہاں ہے؟ کیا یہ اسی ٹ±ول ِکٹ کا حصہ ہے؟ کیا اس سلسلے میں کوئی بھی شخص پکڑا جائے گا اور اس کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی؟” ترجمان نے کہا کہ جو شخص زیڈ پلس سکیورٹی کے ساتھ کشمیر میں گھوم رہا ہے، اس نے اپنا پتہ 34 مینا، دہلی کا دیا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ فلیٹ کس کے نام پر الاٹ ہے، اور دہلی سے کس کے کہنے پر کشمیر گیا اور کشمیر میں کیا کر رہا ہے۔؟ یہ سوال قومی سلامتی کے حوالے سے اہم ہے۔“
اس معاملے میں بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت سے سوال کیا کہ کرن پٹیل اور امیت شاہ کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ انہوں نے پوچھا کہ سرکار سے زیڈ پلس سکیورٹی کیسے حاصل کی اور کیسے وہ پی ایم او میں اسپیشل سکریٹری بنے؟ یہ ایک سنگین سکیورٹی چوک ہے اور نریندر مودی حکومت کو اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔“تیجسوی یادو نے دعویٰ کیا کہ ”نریندر مودی حکومت نے سبھی مرکزی ایجنسیوں کو اپوزیشن لیڈروں کو نشانہ بنانے کے لیے بھیجا ہے، لیکن سکیورٹی ایجنسیوں کو اس کا دھیان رکھنا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کرن بھائی پٹیل نے خفیہ اور اہم جانکاری حاصل کی جو قوم کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔“
سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے بی جے پی حکومت کو نشانہ پر لیتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا ” گجرات کے فرضی افسر کرن بھائی پٹیل کو سیکورٹی دیتے ہوئے کوئی تحقیقات نہیں کی گئی، یہ ملک کی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ اس سنگین مسئلے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، انہیں فوری طور پر ملازمتوں سے ہٹا کر سزا دی جائے۔“
ایڈ منسٹریٹر و افسر بھلے ہی اس معاملے پر کچھ بولنے کو تیار نہ ہوں، لیکن ایک بات صاف ہے کہ اس معاملے نے ایڈمنسٹریٹر اور پولیس افسران کی چوکسی اور قابلیت کے بلند بانگ دعویٰ کا پول کھول کر رکھ دیا ہے، ان کی نا اہلی و ناکامی اور بے توجہی ملک کی سلامتی کے لیے ناقابل تلافی جرم ہے، جس پر سخت کارروائی ہونی چاہیے۔