امریکہ و کینیڈا

مسلم ممالک کے وفد کے دورہ ژنجیانگ کی مذمت

انسانی حقوق گروپس اور بیرونی ممالک میں آباد ایغور مسلمانوں نے ترقی پذیر ممالک کے مسلم اسکالرس و علماء کے وفد کے جاریہ ہفتہ دورہ ژنجیانگ (شی آنگ) کی سخت مذمت کی ہے۔

واشنگٹن: انسانی حقوق گروپس اور بیرونی ممالک میں آباد ایغور مسلمانوں نے ترقی پذیر ممالک کے مسلم اسکالرس و علماء کے وفد کے جاریہ ہفتہ دورہ ژنجیانگ (شی آنگ) کی سخت مذمت کی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ وفد نے عتاب جھیل رہی ایغور اقلیت کی حالت زار کی اَن دیکھی کردی۔ 14 ممالک بشمول متحدہ عرب امارات‘ اُردن‘ سربیا‘ جنوبی سوڈان اور انڈونیشیا کے 30 اسلامی نمائندوں کا گروپ 8 جنوری کو عرومچی‘ تورپان‘ اٹلے اور کاشغر شہروں کا دورہ کرنے اور سرکاری عہدیداروں اور ایغور مسلمانوں سے ملنے کے لئے پہنچا تھا۔

آر ایف اے نے یہ اطلاع دی۔ وفد کے سربراہ علی راشد النُعیمی کے بیانات پر بیرونی ممالک میں آباد ایغور مسلمانوں اور امریکہ کی مسلم تنظیموں جیسے امریکن اسلامک ریلیشنس اور جسٹس فار آل کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کی ورلڈ مسلم کمیونٹیز کونسل کے سربراہ النُعیمی اور دیگر نے ژنجیانگ ایغور آٹونامس ریجن کے کمیونسٹ پارٹی سکریٹری اور علاقہ کے سربراہ سے ملاقات کی تھی۔ دونوں نے چین کی ژنجیانگ پالیسی کی تائید کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

النُعیمی نے ژنجیانگ میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمہ کے لئے چینی حکام کی کوششوں کی ستائش کی اور کہا کہ چین کے مفادات اور عوام کے تحفظ کا یہ صحیح طریقہ ہے۔ چین کی سی جی ٹی این نے چہارشنبہ کو النُعیمیکے حوالہ سے کہا تھا کہ یہاں ہمیں سارے مسلمان چینی دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں چینی شہری ہونے پر فخر ہونا چاہئے۔ چین کی ژنجیانگ پالیسی کے تحت ایغور مسلمانوں کی کڑی نگرانی ہوتی ہے۔

ان پر مذہبی پابندیاں ہیں‘ مسجدیں ڈھائی جاچکی ہیں۔ من مانی گرفتاریاں ہوئی ہیں اور 18لاکھ کی آبادی جن میں زیادہ تر مسلمان ایغور اور دیگر ترک شامل ہیں‘ جیلوں میں اور حراستی کیمپوں میں پڑی ہے۔ ان میں بعض کو بندھوا مزدور بنادیا گیا اور بعض کی جبراً نسبندی کی گئی۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے چین کے ان اقدامات کی مذمت کی ہے جبکہ بیشتر مسلم ممالک ژنجیانگ پالیسی کا دفاع کرتے ہیں کیونکہ بیجنگ کی معاشی اور سفارتی طاقت کافی بڑھی ہوئی ہے اور کئی مسلم ممالک چین کے مقروض ہوتے جارہے ہیں۔

ترک قلمکار و صحافی مصطفی الکیول نے کہا کہ بدبختی کی بات ہے کہ چین سے ملنے والے فوائد کے مدنظر مسلم دنیا ایغور مسلمانوں پر چین کی ظلم و زیادتی کو نظرانداز کررہی ہے۔ وہ اسے نسل کشی کے جرم کے طورپر نہیں دیکھ رہی ہے۔ اسوسی ایٹ ڈائرکٹر ایشیا ڈیویژن ہیومن رائٹس واچ مایا وانگ نے کہا کہ مسلم ممالک چین کی ہر بات مان کر اس کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں۔