مذہب

ماہ شعبان المعظم امت محمدیہ ؐ کے باعث سعادت

اللہ تعالیٰ اعلیٰ وارفع اور معاملات وحساب بھی بے مثل،شان نرالی ،فیصلہ حق بجانب اور ہر معاملات میں توازن وبہتری،اسی مناسبت سے زندگی کے لمحات کیلئے گزارنے اور حساب وکتاب کے لئے دن و رات کی یاد رکھنا اور اس کو صحیح طریقہ سے جاننے اور علم میں رکھنے کیلئے سال بنایا اور سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینہ انتیس یا تیس دن کا بناتے ہوئے لوگوں کے علم میں لایا گیا۔

مولانا محمد ممشاد علی صدیقی
بانی وناظم ادارہ مبین العلوم قاسمیہ: 9030825540

اللہ تعالیٰ اعلیٰ وارفع اور معاملات وحساب بھی بے مثل،شان نرالی ،فیصلہ حق بجانب اور ہر معاملات میں توازن وبہتری،اسی مناسبت سے زندگی کے لمحات کیلئے گزارنے اور حساب وکتاب کے لئے دن و رات کی یاد رکھنا اور اس کو صحیح طریقہ سے جاننے اور علم میں رکھنے کیلئے سال بنایا اور سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینہ انتیس یا تیس دن کا بناتے ہوئے لوگوں کے علم میں لایا گیا۔ان بارہ مہینوں میں سے ایک ماہ کا نام شعبان المعظم رکھا گیا جو ترتیب کے اعتبار سے آٹھواں مہینے کہلاتا ہے۔اسلامی عقیدہ کے اعتبار سے ہر سال،ہر ماہ ،ہر دن ،ہرساعت ،ہر گھڑی بابرکت ہے۔

کوئی دن یا ماہ منحوس یا بے برکت نہیںجیسا کہ بعض جاہل ونا اہل لوگوں منحوس قرار دیتے ہوئے خود کی تو دنیا وآخرت خراب ہوتا ہی اس علاوہ وہ لوگ جو اہل علم بھروسہ کرتے ہیں ان کا بھی ایمان خطرہ میں اور دنیا وآخرت خرابی ‘ البتہ بعض دنوں کو بعض ایام پر اور بعض سال کو دوسرے سال اور مہینہ پر حق سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی حکمت ونظام کی بناء پر جزوی ووقتی فضیلت وبرکت ضرور ودیعت فرمائی ہے تاکہ ایک مومن بندہ ان ایام وساعات میںعبادت وریاضت اور انابت الی اللہ کے ذریعہ فضل وکمال کے مقام بلند کو حاصل کرسکے اور توبہ واستغفار ،اشکباری وگریہ زاری کے ذریعہ اپنے گناہوں وسیٔات کے داغ ودھبہ کو دھوکر اپنے قلب کو انوار الٰہی سے روشن کرسکے۔

رمضان المارک جہاں اپنے خوبیوں ،اچھائیوں اور کامیابیوں کا خزینہ لئے ہوئے ہر لمحہ جلوہ افروز رہتا ہے اور ہم گھڑی ان کے تقاضوں کو پونے کرنے والوں کے نامۂ اعمال میں ہر گھڑی نیکیوں میں اضافہ ہوتارہتا ہے درجات بلند ہوتے رہتے ہیں۔بارہ مہینوں میں ماہ شعبان المعظم بھی انعام خداوندی میں سے انعامات ملتے ہیں۔دیگر ماہ کے مقابلے میں جناب محمد مصطفی ﷺ زیادہ سے زیادہ روزہ رکھتے ہوئے دیگر عبادتوں میں اضافہ فرماتے تھے اور امت کو بھی ان کی خوبیوں سے واقف کراتے ہوئے شوق دلاتے ہیں بھلائیوں کو جمع کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔

ماہ شعبان المعظم کے عظیم انعام میں سے ایک عظیم انعام ہے جس کا ایک ایک دن قابل قدر اور ہر ساعات بابرکت ومسعود ہے۔ احادیث کے اندر اس ماہِ مبارک کے بڑے فضائل آئے ہیں جو یقینا ایک بندۂ مؤمن کے دل میں عبادت کا شوق و جذبہ پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔ اپنے وقت کے فقیہ وامام جو دنیا کومذہب اسلام کے وہ وہ نقطہ کو اجاگر کیا اور وضاحت فرمائی جس کا اعتراف اس کے بعد تمام ادوار میں اہل علم ودانش نے سمجھا اور قبول کیا انہوں نے لکھا ہے کہ اس ماہ میں عام طور سے خیروبرکت کا ورود ہوتاہے جس کی مناسبت سے اس ماہ کو شعبان کہا جاتاہے اس لئے کہ جس طرح گھاٹی پہاڑ کا راستہ ہوتی ہے اسی طرح یہ مہینہ بھی خیر وبرکت کی راہ ہے۔

شیخ علیم الدین سخاویؒ نے ایک کتاب ایام وشہور لکھی ہے جس کا انہوں نے مکمل نام ’’المشہور فی اسماء الایام والشہور‘‘ رکھا ہے۔اس کتاب میں انہوں نے شعبان کی شعبان رکھنے کی وجہ لکھا ہے کہ شعبان تشعب سے مشتق ہے جس کے معنی جدا ہونے کے ہیں۔اہل عرب اشہر حرم میںسے ماہ رجب گزرنے کے بعد اس ماہ میں لڑائی جھگڑا اور لوٹ مار کے لئے اِدھراُدھر متفرق ہوجاتے تھے۔اس مناسبت سے اس ماہ کو شعبان کہاجاتاہے۔رسول اللہ ﷺ سے اس ماہ میں بکثرت عبادت کرنا ثابت ہے۔

حدیث کی مشہور اور قرآن شریف کے بعد کی درجہ رکھنے والی اور صحیح حدیث کی بخاری شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ایک روایت منقول ہے جو شعبان المعظم سے متعلق ہے۔فرماتی ہیں کہ میں نے شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں آپ ﷺ کو روزے رکھتے نہیں دیکھی۔ آپ ﷺ شعبان کے اکثر حصہ میں روزہ رکھتے تھے۔ (بخاری)ماہ شعبان میں کثرت سے روزہ رکھنے کی وجہ بھی خود آپ ﷺ نے بتلادی کہ اس مہینہ میں وہ دن بھی ہے جس میں بندوں کے سال بھر کے اعمال اللہ کے دربار میں پیش ہوتے ہیں۔ میرا دل چاہتاہے کہ میرے اعمال ایسی حالت میں پیش ہوں کہ میں روزہ دار ہوں۔

ایک جگہ ارشاد ہے کہ اس مہینہ میں ہر اس شخص کا نام مرنے والوں میں لکھا جاتاہے جو اس سال مرنے والے ہیں۔میرادل چاہتاہے کہ میری موت ایسی حالت میں لکھی جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔(خصائل نبوی)ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ شعبان کا چاند شمار کیا کرو،رمضان کے لئے۔گویا آپ ﷺ نے قولاً عملاً اپنی امت کو یہ پیغام دیا کہ وہ عبادت وریاضت کے لئے شعبان ہی سے تیار ہوجائے یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ جب رجب کا چاند دیکھتے تو ماہ رمضان تک پہنچنے کی دعاء فرماتے۔اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنارمضان (مجمع الزوائد )’’اے اللہ ہمارے لئے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطاء فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادیجئے‘‘۔ایک طرف آپ ﷺ کا یہ عمل ہے کہ آپ ؐ کثرت کے ساتھ اس ماہ میں روزے کا اہتمام فرماتے ہیں۔

ماہِ رمضان کی آمد کے پیش نظر عبادت میں اضافہ فرماتے ہیں لیکن اپنی امت کو ضعف وکمزوری کے خیال سے رمضان سے قبل شعبان میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا یہ امت پر غایت درجہ شفقت کی بناپر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شعبان میں روزہ رکھنے کی بناء پر وہ ضعف کا شکار ہوجائے اور رمضان کے مہینے میں کما حقہ عبادت نہ کرسکے۔ صحابہ کرام ؓ کا بھی معمول رہا ہے کہ اکثر صحابہ ؓ ماہ شعبان ہی میں اپنے دنیاوی مشاغل اور کام کاج سے بالکل فراغت حاصل کرلیتے اور خود کو رمضان کی عبادت کے لئے تیار کرلیتے۔

خادم رسول ؐ انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بزرگ اصحاب ؓشعبان کی چاند دیکھ کر قرآن کریم کی تلاوت میں اضافہ فرمادیا کرتے تھے۔اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کردیا کرتے تھے تاکہ غرباء ومساکین حضرات فائدہ اٹھا سکے اور ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے لئے ان کا کوئی وسیلہ بن جائے۔حاکم قیدیوں کو بلاکر ان میں جو حد جاری کرنے کے لائق ہوتے تھے ان پر حد جاری کرتے تھے اور باقی قیدی رہاکردئے جاتے تھے ،کاروباری حضرات بھی اس ماہ میں اپنا قرض ادا کرتے تھے اور دوسروں سے جو وصول کرنا ہوتا وصول کرلیا کرتے تھے اور ماہ رمضان کا چاند نظر آنے پر لوگ غسل کرنے اور اعتکاف میں بیٹھ جاتے تھے۔(غنیۃ الطالبین ص۳۵۶) ماہ شعبان کی فضیلت وخصوصیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ اس ماہ کو رسول اللہ ﷺ نے خاص طورپر اپنا مہینہ قراردیا ہے اور فرمایا کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔رسول اللہ ﷺ نے اس ماہ کی نسبت اپنی طرف فرمایا تاکہ اس ماہ کی عظمت واہمیت ہمارے قلب ودماغ پر واضح ہوجائے۔طالب آخرت ،آخرت کی تیاری میں جٹ جائے۔

ہر ایسے امور سے اجتناب کیا جائے جو امور‘ اللہ کے غیض وغضب کا سبب بنتاہو۔رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی کا ذریعہ ہو۔یہی اس ماہ کی صحیح قدر ہے۔دوسری ایک اہم بات جس کی جانب حدیث میں اشارہ کیا گیا وہ یہ ہے کہ اس ماہ میں بندوں کے سال بھر کے اعمال بارگاہ خداوندی میں پیش کئے جاتے ہیں۔ایسے وقت میں ہمیں اپنے تمام اعمال کا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ اعمال جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوں اس پر توبہ واستغفار کریں اور آئندہ نہ کرنے کا عزم مصمم پیدا کریں۔خاص طور سے حقوق العباد کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جسے آج معاشرتی وعالمی اعتبار سے جرم تصور نہیں کیا جاتا جبکہ شریعت اسلام نے حقوق کی ادائیگی کا حکم اتنا تاکیدی طور پر دیا ہے کہ اس کی معافی وتلافی صاحب حق کی معافی کے بغیر ممکن نہیں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم خود کو تمام گندگیوں ،آلائشوں سے اپنے آپ کو پاک وصاف کرلیں۔اشک باری،گریہ وزاری کے آنسو سے اپنے قلب سیاہ کو مثل آئینہ بنالیں اور تمام گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے عبادت وریاضت ،تلاوت وانابت الی اللہ کی طرف خاص متوجہ ہوجائیں۔صحابی ٔ رسول ؐ حضرت اسامہ باہلی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب شعبان کامہینہ آجائے تو اپنے جسموں کو پاکیزہ رکھو اور اپنی نیتوں کو درست کرلو اور اسے حسین بنالو۔ضرورت ہے کہ ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس نئے خدائی مہینے سے جس میں تمام سال کا حساب وکتاب کیا جاتاہے اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیدا کریں اور نیا حوصلہ اور عزم پیدا کریں کہ انشاء اللہ ہم ایسی کام کو انجام دیں گے جو جائز اور مستحسن ہوگااور اس سے حاصل ہونے والے پورے فائدہ کو حاصل کرنے والے بنیں۔
٭٭٭