بھارت

بی بی سی کے بعد اب الجزیرہ کی ڈاکیومنٹری فلم "اِنڈیا…. ہُو لِٹ دی فیوز؟” کی ریلیز پر روک

درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ اس فلم کے ذریعہ جان بوجھ کر ہندوستان کی سب سے بڑی مذہبی برادریوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے اور عوامی نفرت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے آج الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک پرائیویٹ لمیٹڈ کو اس کی ڈاکیومنٹری فلم "انڈیا…. ہو لِٹ دی فیوز؟” کو ٹیلی کاسٹ/براڈکاسٹ/ریلیز کرنے سے عارضی طور پر روک دیا ہے۔

متعلقہ خبریں
مشین چوری کیس، اعظم خان اور بیٹے کی درخواست ضمانت مسترد
سلطان پور کے رکن پارلیمنٹ کے انتخاب کے خلاف مینکاگاندھی سپریم کورٹ سے رجوع
وضوخانے کا سروے، انجمن انتظامیہ کو نوٹس
سرکاری عہدیداروں کو معمول کی کارروائی کے طور پر طلب نہیں کیا جاسکتا: سپریم کورٹ
متھرا شاہی عیدگاہ سروے، الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ محفوظ

بتایا گیا ہے کہ اس فلم کی ریلیز کی صورت میں ہندوستان میں ’بدامنی‘ پھیلنے اور برے نتائج سامنے آنے کے امکانات کے پیش نظر اس کے ٹیلی کاسٹ/براڈکاسٹ ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

جسٹس اشونی کمار مشرا اور جسٹس آشوتوش سریواستو کی بنچ نے مرکزی حکومت اور وزارت اطلاعات و نشریات کو ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے مناسب اقدامات کریں کہ جب تک اس فلم کے مواد کی متعلقہ حکام کی طرف سے جانچ نہیں کی جاتی، اس فلم کو ٹیلی کاسٹ/ نشر کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ضروری سرٹیفیکیشن/ اجازت مجاز اتھارٹی سے حاصل کرنی پڑے گی۔

ہائی کورٹ کا یہ حکم ایک سماجی جہدکار سدھیر کمار کی طرف سے دائر کی گئی مفاد عامہ کی درخواست پر سامنے آیا ہے جس میں اس نے مذکورہ فلم کے ٹیلی کاسٹ کو اس بنیاد پر چیلنج کیا ہے کہ اس فلم سے شہریوں میں بدامنی پھیل سکتی ہے اور ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔  

قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدالت نے یونین آف انڈیا، وزارت اطلاعات و نشریات، سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن کے ساتھ ساتھ الجزیرہ کو اس معاملے میں 6 جولائی 2023 تک اپنا جواب داخل کرنے کی آزادی دی ہے۔

مفاد عامہ کی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ فلم کی ریلیز/براڈکاسٹ سے مختلف طبقات اور مذہبی فرقوں کے درمیان نفرت پیدا ہونے اور ملک کے سیکولر تانے بانے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس فلم سے سماجی بدامنی اور امن عامہ میں بگاڑ اور اخلاقیات کے بگڑنے کا بھی امکان ہے۔

درخواست میں اس بات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے کہ الجزیرہ صرف ایک نیوز آرگنائزیشن ہے، پھر بھی اس نے فلموں کو نشر کرنے کے لئے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا ہے۔

درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ اس فلم کے ذریعہ جان بوجھ کر ہندوستان کی سب سے بڑی مذہبی برادریوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے اور عوامی نفرت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلم کے ذریعہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔

آخر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الجزیرہ نے قانون کے تحت مجاز اتھارٹی سے اس فلم کو نشر کرنے کے لئے کوئی سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کیا ہے۔ یونین آف انڈیا کے وکیل کی طرف سے بھی اس دلیل سے اختلاف نہیں کیا گیا۔

مفاد عامہ کی درخواست کا جائزہ لینے کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ نے عرضی میں ظاہر کئے گئے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہندوستان کا آئین اظہار خیال کی آزادی اور اظہار رائے کے بنیادی حق کی ضمانت دیتا ہے لیکن یہ ہندوستان کے دستور کی دفعہ 19 (2) میں بیان کردہ معقول پابندیوں کے ساتھ مشروط ہے۔

مزید، عدالت نے سنیماٹوگراف ایکٹ 1952، دی کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس (ریگولیشن) ایکٹ 1995 کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کے ساتھ اس کے تحت جاری کردہ قواعد، ضوابط اور قانونی رہنما خطوط کا بھی جائزہ لیا کہ آیا اس فلم کی نشریات مذکورہ بالا قوانین کی خلاف ورزی کرے گی اگر رٹ پٹیشن میں کئے گئے دعوے درست پائے جاتے ہیں؟