مضامین

آیا اب بھی ہیں بیٹیاں منحوس؟

آج اس معصوم کے رخساروں کو سگریٹ کے چرکے دیتا ہے اور اس بے زبا ن کا سر دیوار سے دیوانہ وار ٹکرارہا ہے تو کو ن سی تعجب کی بات ہے ،ایسی معصوم بچیاں کبھی کبھی موت کے گھاٹ بھی اتار دی جاتی ہیں اور جاتے جاتے پیام دے جاتی ہیں کہ کون ہے جو باپوں کے ظلم و ستم سے ہماری حفاظت کرے ۔

ڈاکٹرسید عباس متقی
9391323968

ہاں !کچھ ایسا ہی محسوس ہوتاہے کہ اس فلک رسا دور اورترقی یافتہ عہد میں بھی بیٹیاں منحوس گردانی جارہی ہیںاور اس ایٹمی دور میں بھی باپ اپنی بیٹی کے قتل کے درپے نظرآرہا ہے ۔آج بھی ’’بِأَیِّ ذَنبٍ قُتِلَت‌؟‘‘ کی خشمگین صدا کی قیامت خیز باز گشت سنائی دے رہی ہے ۔

ہم یہ سوچ کر لرز اٹھتے ہیںکہ کیا باپ اپنی لخت جگر کو اپنے ہاتھوں سے پامال کر سکتا ہے ۔ہاں !جب آج سے چودہ سو سال پہلے جب وہ اپنی لخت جگر کو زندہ در گور کردیا کرتا تھا تو آج اس معصوم کے رخساروں کو سگریٹ کے چرکے دیتا ہے اور اس بے زبا ن کا سر دیوار سے دیوانہ وار ٹکرارہا ہے تو کو ن سی تعجب کی بات ہے ،ایسی معصوم بچیاں کبھی کبھی موت کے گھاٹ بھی اتار دی جاتی ہیں اور جاتے جاتے پیام دے جاتی ہیں کہ کون ہے جو باپوں کے ظلم و ستم سے ہماری حفاظت کرے ۔

ہمیں تو ایسا معلوم ہو تا ہے کہ عورت کا جنم ہی ظلم و ستم سہنے کے لیے ہو ا ہے ۔وہ تو خیر گزری کہ ہماری رحم دل حکومت نے دوران حمل اسکیاننگ کو جرم قرار دیا ہے ورنہ لوگ تو لڑکی کی پیدائش کو رحم مادر ہی میں نہایت بے رحمی سے ختم کردیا کرتے کہ رہے بانس اور نہ بجے یہ بے سری بانسری ۔لڑکیوں کو چاہیے کہ حکومت کے اس خوش آیند اقدام پر دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرے کہ انہیں پیدا ہو نے کاتو موقع دے دیا،اب پیدائش سے موت تک کے جو مراحل عظمٰی ہیں ،ان کا تو خدا ہی محافظ ہے ۔

لڑکی پیدا ہوتی ہے توبیشتر باپ نفرت سے دیکھتےہیں ،بڑی ہوتی ہے تو سماج کے خونخوار افراد اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے در پے ہو جاتے ہیں ،اور اگر جوانی عفت مآب ہو تو پھر اس کی چادر عصمت کو پارہ پارہ کرنے کی سوچتے ہیں ،پہلے پہلے رضا و رغبت سے اپنا الّو سیدھا کر نے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی ٹوٹنے نہ پائے ۔اگر شیطان تنہا مراد کو نہیں پہنچتا تو پھر اجتماعی طورپر یہ کار نحس انجام دیا جاتا ہے ،اکیلی جان اور گروہ ابلیس ،کہاں مُہرِ حق سلامت رہتی ہے اور اگر اندیشہ ہائے دور و دراز نے سر ابھارا توشانے سے سر اتار لیاجاتا ہے ،البتہ دوسرے دن اخبار میں ایک خبر شائع ہوتی ہے کہ ’’ایک دوشیزہ کا اجتماعی زنا بالجبر‘‘،جسے کچھ لوگ عبرت سے بھی پڑھ لیا کرتے ہیںاور جو یہ پھول ،خار وحشت سے بچ گے تو شادی کا مرحلہ درپیش ہے ۔

دنیامیں شادی یوں ہی کہاں ہو تی ہے ۔اس کے لئے جہیز چاہیے ،مال و زر چاہیے۔کپڑا لتا چاہیے، ہاتھ اورگلے کے لیے سونا چاہیے ، پائوں میں چاندی چاہیے۔جہیز کے بغیر تو شادی ان دانشوروں کے ہاں بھی نہیں ہو تی جو دو دو گھنٹے محض جہیز کی لعنت پر جوشیلی تقریر کیاکرتے ہیں اور جن کے ہاں اخلاص کم اور الفاظ زیادہ ہو تے ہیں ۔اگر اخلاص ہو تا تو اعلا ن کر تے کہ میں فلاں ابن فلاں بن فلاں اپنے انجینئر لڑکے کی شادی بغیر رسم و رواج کے دیندار لڑکی سے کرنا چاہتا ہوں ،شائقین رجوع ہوں ۔یہ حوصلہ تو ان میں بھی نہیں جن کے بچے ’’پان فروش ‘‘ہیں ۔

شادی میں علاوہ ازیں دعوتیں چاہیے تاکہ ڈکارلے کر لوگ دل کھول کر کھلانے والے کی برائی کر سکیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مطلوب اشیا آئیں تو کہاں سے آئیں ۔گھر ،مکان ،ملگی ،کھیت ،جائیداد ، زیور ،زمین بیچ کر اگر شادی کربھی دی گئی تو شوہر کاظلم و ستم تو مستقل ایک نا قابل تسخیر عنوان ہے ؟کسی نے مزید جہیز کے لیے اس کے نازک بدن پر کیروسین چھڑک کر آگ لگا دی تو کسی نے راتوں رات ذبح کر ڈالا۔ کسی نے اس عفت مآب کو چکلوں میں لا بٹھایا تو کسی نے چلتے چلتے کسی زن گیر کو بیچ کر چلتا بنا۔اب اسے مدتوں ہوس کے پیاسوںکواپنے کاسۂ عفت سے آبِ شباب پلانا ہے اور خودخون کے آنسو پینا ہے ۔

آدمی سیدھا ملا تو بچے ٹیڑھے ہوئے ۔ماں بن گئی تو اولاد کا ستم جھیلنا ہے ۔حلقوم پر خنجر رکھ کر لڑکا اپنی ماں سے شراب کے لئے پیسے طلب کر تاہے اور نہ دینے پر زد و کوب بھی کر تاہے،لعنت ہے ایسی اولاد پر !یہ ایک پامال فقرہ ہے جو ضعف جمہوریت کا آئینہ دار ہے ۔ بوڑھی ہوگئی تو اولاد مرنے کی دعا مانگتی ہے بلکہ دوا کرنے سے تک گریز نہیں کرتی۔بڑھیا کے گلے میں اگر کچھ زیور ہے تو پھر شہر کے اوباشوں کی کوئی کمی نہیں جو اس کے گلے میں دو ایک تولاسونا رہنے بھی دیں تاکہ کفن دفن کے کام آسکیں ۔

یہ اوباش کچھ ایسی مشاقی سے خواتین کے گلے سے زیور کھینچتے ہیں کہ سنار کی گھٹوائی ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے ،بعض وقت تو شہ رگ تک کٹ جاتی ہے اور ضعیف عورت خدا کو پیاری ہو جاتی ہے ۔یہ سونا ہی تو ہے جو ہمیشہ کی نیند سلانے میں معاون و مدد گار ثابت ہو تا ہے ،لیکن اس کے با وصف لوگ سونے سے بے انتہا پیار بھی کر تے ہیں اور ہمیں ان کے پیار پر غصہ آتا ہے ۔تھانے میں رپٹ کیا لکھوائی جائے ،احوال تھانا سے کون خبر دارنہیں ۔اگر بڑھیا اپنی موت آپ مر گئی تو اہل خانہ خوش ہیں کہ نظر توڑ تھی، رخصت ہوئی ۔عورت کی پیدائش سے لے کر موت تک کا یہ ایک افسانہ ہے جسے آنکھیں بے حسی سے پڑھتی ہیں او ر دل ہے کہ ان رستے زخموں کو محسوس تک نہیں کرتا ۔

٭٭٭