سیاستمضامین

بلقیس بانو کیس:مجرمین کی رہائی کے پیچھے مجرم کون؟

سید سرفراز احمد (بھینسہ)

جب مجرموں کو پھول مالا پہنا کر استقبال کیا جاتا ہے انصاف کے منتظر معصوموں کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہو تو اس ملک کی عدلیہ اور قانون پر سوال ضرور اٹھتے ہیں کیونکہ یہ جمہوریت کا وہ مضبوط ستون ہے جوانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنےکا آخری دروازہ ہے اگر یہاں سے بھی انصاف کو تابدان میں رکھ کر انصاف کے منتظر رعایا کو نا انصافی کی مالائیں پہنائی جاتی ہیں تو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ مضبوط ستون بھی بوسیدہ حالت میں کروٹیں بدل رہا ہے کب منہدم ہوجائے یا زمین بوس ہوجائے اسکا کوئی بھروسہ نہیں اسی درودیوار سےناانصافی ملک کے مسلمانوں کے حق میں ایک ایسا لفظ بن چکا ہے جو بار بار دستک دیتا رہتا ہے بلکہ یہ لفظ ان کیلئے بھی عام ہوچکا ہے جو حق پرستی کا ساتھ دیتے ہوں بھلے ہی انکا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو یہ نا انصافی کبھی شاہ بانو کے روپ میں آتی ہے تو کبھی بلقیس بانو بنکر کبھی گوری لنکیش کے روپ میں آتی ہے تو کبھی سنجیو بھٹ بنکر اسی طرح اگر ناموں کوایک ایک کرکے گنا جائے تو ایک طویل لامتناہی فہرست تیار ہوجائے گی ۔
ملک میں جب کبھی بھی منظم انداز میں فسادات ہوئے ہر بار صرف اور صرف مسلمانوں کی بلی چڑھائی گئی قتل و غارت گری کا کھیل کھیلا گیا مسلم خواتین کی عزتوں کو تار تار کیا گیا جسکا وحشیانہ ماڈل 2002 کے گجرات فسادات کا ہے جسکو درندگی میں صف اول میں رکھا جاسکتا ہے اور نہ کبھی فراموش کیا جاسکتا اسی طرح 2013 کا مظفرنگر فسادات جو گجرات کی طرز پر مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی اور 2020 دہلی فسادات جسمیں منظم انداز میں مسلم بستیوں کو اجاڑا گیا مسلمانوں کی املاک کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا ہر بار فسادات میں مسلمانوں کی معیشت کو تباہ کردیا گیا ان تمام فسادات میں نشانہ پر اور حاشیہ پر صرف مسلمان ہی تھا ایک تو یہ کہ مسلمانوں کے لہو سے ہر بار زمین سرخ کی گئی لیکن دوسرے یہ کہ ان ہی معصوم مسلمانوں پر نا انصافی کی شکل میں ظلم کی بجلیاں گرائی جاتی ہیں جو کریدے ہوئے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ۔
15؍اگسٹ 2022 کا دن تاریخ کے اوراق میں دوسری بار ضرور درج کیا جانا چاہیئے کیونکہ پہلے سے یہ دن بھارت کی آزادی کی نسبت سے اہم ہے دوسرا اس دن کی اہمیت اسلیئے بڑھ گئی کیونکہ گجرات فسادات کے درندہ صفت حیوان نما مجرمین کو گجرات حکومت نےآزاد کردیا اسی دن جب ایک طرف پورابھارت آزادی کی 75 ویں سالگرہ منارہا تھا تو دوسری طرف ملک کے وزیر اعظم لال قلعہ کی فصیل سے خواتین کی طاقت اور عزت کا درس دے رہے تھے اسی کے چند گھنٹوں بعد گجرات فسادات کے اصل گیارہ مجرمین کی رہائی عمل میں آتی ہے جو بھارت کےلئے ایک بدنما اور شرمندہ کرنے والا فیصلہ ہے یہ فیصلہ در اصل انصاف کا قتل کرنے کے مترادف ہے کیونکہ دیش کا ہر شہری اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ گجرات فسادات میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا گیا راقم الحروف خود کم سنی میں جب اخبار کی سرخیاں ہر روز پڑھا کرتا تھا تو دل پر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور ماتھے پر شکن کا سایہ منڈلاتے رہتا تھا اگر کبھی ان وحشت ناک مناظر کا خیال آتا ہے تو تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ‘دل و دماغ جذبات سے مغلوب ہوجاتے ہیں ۔ قارئین اکرام یہ وہی بلقیس بانو ہے جو پانچ ماہ کے حمل سے تھی جسکا بچہ شکم مادر میں اپنی نصف عمر سے زائد تکمیل کرچکا تھا جسکی ماں کچھ ماہ بعد اس ننھے معصوم کو اپنی آغوش میں پال پوس کر بڑا کرنے والی تھی لیکن اس ماں کو کیا علم کہ اسکی کوک کو کسی نے اجاڑنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے نہ صرف کوکھ کو بلکہ ان درندوں نے اس خاتون کے ساتھ زنا اور اجتماعی زنا بالجبر کرتے ہیں اور اس خاتون کی تین سالہ بیٹی کو اس سے چھین کر اسکی ہی ماں کے آنکھوں کے سامنے قتل کردیا جاتا ہے اور ماں کو ہی چشم دید گواہ بنادیا جاتا ہے یہی نہیں بلکہ اسکے خاندان کے سات افراد کا بھی قتل کردیا جاتا ہے تو کیا ایسے قاتل اور ایسے مجرمین کو معاف کیا جاسکتا ہے؟ہرگز نہیں بلکہ ایسے مجرمین کو تو حکومت اور عدالت پھانسی کا پھندا پہنا کر ہی بلقیس بانو سے انصاف کرسکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ان گیارہ سفاک مجرمین میں سے صرف ایک نے معافی کی درخواست دائر کی تھی اسی ایک کے معافی نامہ کی آڑ میں گیارہ مجرمین کو رہا کردیا جاتا ہے اس سے بڑا شرمناک فیصلہ اور کیا ہوسکتا ہے حالانکہ ممبی کی سی بی آئی عدالت نے 2008 میں ان گیارہ مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جسے ممبی ہائی کورٹ نے بھی برقرار بھی رکھا تھا جبکہ ماہرین قانون کے مطابق عمر قید کی سزا کا مطلب آخری سانس تک سزا کاٹنی پڑتی ہے جبکہ ایک ایسے سنگین جرم کے مجرمین کی رہائی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تب سوال یہ ہیکہ آخر ان مجرمین کو کونسی عمر قید کی سزا دی گئی تھی؟ آپکو یاد دلانا چاہتا ہوں دہلی میں جب نربھیا کی اجتماعی عصمت ریزی کی جاتی ہے تو ان خاطیوں کو پھانسی کی سزا دی جاسکتی ہے جو نربھیا سے بھی بدترین سفاکانہ سلوک بلقیس کے ساتھ پیش آیا تو ایسے وحشی نما انسانوں کو کیوں سماج میں کھلا چھوڑا جارہا ہے؟کیا ایسے خاطیوں کو کھلے عام آزاد کرنے سے سماج میں خوف و وحشت نہیں پھیلے گی ؟اگر اسطرح سے جانبدار فیصلے آئیں گے تو کیاعدلیہ عوام کا اعتماد حاصل کر پائے گی؟ ان مجرمین کی رہائی کے بعد ایک بات تو واضح ہوچکی ہیکہ مجرمین کی اپنی رہائی کی خواہش سے بھی ذیادہ گجرات حکومت کی خوشامدی نظر آئی اگر گجرات حکومت نا چاہتی تو یہ رہائی بھی نہیں ہوتی ۔
بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی اچانک رہائی ہونا ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے اول یہ کہ گجرات کے ریاستی اتخابات ہونے والے ہیں بی جے پی اپنی گدی کو برقرار رکھنے کیلئے بلقیس بانو کا گھر اجاڑ کر اپنی گندی سیاست کا گھر بسانا چاہتی ہے کیونکہ گجرات میں بی جے پی زوال پذیر کی سمت آگے بڑھ رہی ہے ایسے میں ہندو طبقہ کے رائے دہندوں کو اپنی جانب پر کشش بنانے کیلئے ان مجرمین کا سہارا لے رہی ہے تاکہ تخت کی راہ ہموار ہوجائے دوم یہ کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنا اور نسل کشی کرنے والوں کے معاونین بننا ہندوراشٹر کے منشاء کا اہم حصہ ہے جو ہمکو اس کیس میں گجرات حکومت کی جانب سے بھر پور نظر آرہا ہے چونکہ آر ایس ایس کے نظریہ میں نہ سیکولرزم کا نام شامل ہے نہ جمہوریت کا تو بھلا یہ کیسے جمہوریت اور قانون پر عمل کرسکتے ہیں سوم یہ کہ اگر ایسے مجرمین کو معافی کے سایہ میں آزاد کردیا جائے تو جرائم میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہوتا جائے گا ۔
تعجب اور حیرانی تو اس بات کی ہورہی ہیکہ کس طرح خواتین ان مجرمین کی پیشانی پر تلک لگاکر منہ میٹھا کرتے ہوئے انکی رہائی کا استقبال کررہی ہیںکیا ان خواتین کو بلقیس بانو پر گزرنے والی تکلیف اور درد کا احساس نہیں ہے؟کیا انھوں بلقیس کی جگہ اپنے آپ کو رکھکر ایک لمحہ بھی سوچا ہے؟ اور جو حکومت خواتین کے تحفظ کا نعرہ بلند کرنے والی خواتین کو عزت بخشنے کا دعوی کرنے والی اب ایسی حکومت کے منہ پر قفل کیوں لگ گیا ہے؟کیا وہ اپنی خاموشی کے زریعہ مجرمین کا تعاون کرنا چاہتی ہے یا پھر درد اور کرب میں لپٹی ہوئی بلقیس کو جیتے جی مارنا چاہتی ہے ‘ کیونکہ وہ خود کو اب غیر محفوظ بھی سمجھ رہی ہے بلکہ اس رہائی نے بلقیس کے ساتھ بیس سال قبل پیش آنے والے حادثہ کی یادیں بھی تازہ کردی ہے اب تو وہ بھی مجرم بن چکے ہیں جنھوں نے ان مجرمین کو آزاد کردکھایا بلقیس کیس کے معاملہ میں عدالت عظمیٰ کو فوری مداخلت کرتے ہوئے مجرمین کو نربھیا کے مجرمین کی طرز پر پھانسی کی سزا تک پہنچانا چاہیئے تب ہی بلقیس بانو سے انصاف کے پیمانے کو مکمل کیا جاسکتا ہے اور عوام کا بھی عدلیہ پر اعتماد بحال کیا جاسکتا ہےبلکہ جمہوریت جو آمریت کی سمت گامزن ہے اس کی بھی لاج کچھ حد تک باقی رہ جائے گی اور تمام بھارتی شہریوں کو بلقیس کے انصاف کیلئے بیک وقت متحدہ آواز بلند کرنا چاہیئے ورنہ کل کوئی بھی بلقیس کی جگہ انصاف کیلئے ایسے ہی آہ بکا کرتے رہ جائے گا۔