سیاستمضامین

حسّاس و خفیہ امر یکی دستاو یزات

ٹرمپ کے بعد بائیڈن بھی غیر ذمے دار پائے گئے

مسعود ابدالی

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار چھوڑتے وقت انتہائی حساس اور خفیہ دستاویزات اپنے ساتھ گھر لے گئے تھے۔ جب امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے فلوریڈا میں اُن کی پُرتعیش رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تو اہم دستاویزات کے بکسوں کے بکسے وہاں پائے گئے۔ ان میں جوہری ہتھیاروں سے متعلق کاغذات بھی تھے۔ اب معلوم ہوا کہ صدر بائیڈن بھی اس معاملے میں خاصے غیر ذمہ دار ہیں اور مقفل تہہ خانوں میں رکھی جانے والی بعض خفیہ دستاویزات اُن کے آفس، گھر اور ذاستی لائبریری میں تھیں۔ یہی نہیں بلکہ ابتدائی چھان پھٹک پر انکشاف ہوا کہ اپنی نائب صدارت کے دوران بھی موصؤف کچھ دستاویزات مخزن سے لے گئے تھے۔ بائیڈن صاحب جنوری 2017ء میں نائب صدارت سے سبک دوش ہوئے تھے، یعنی گزشتہ 6 سال سے یہ خفیہ دستاویزات ”غیرقانونی“ طور پر ان کی تحویل میں تھیں۔
امریکہ کے جاسوسی ایکٹ مجریہ 1917 کے تحت حساس مواد بلااجازت اپنے پاس رکھنا، اس کی تصویر لینا، اہم معلومات کی نقل بنانا اور امریکی دفاع سے متعلق معلومات کو کسی دوسرے ملک کے فائدے کے لیے استعمال کرنا سنگین جرم ہے جس کی کم ازکم سزا دس سال قید ہے۔
امریکی صدر کو بربنائے عہدہ تمام دستاویزات تک رسائی حاصل ہے اور وہ خفیہ یا کلاسیفائیڈ مواد سمیت تمام فائلیں اور دستاویز مطالعے اور مشاہدے کے لیے اپنے ساتھ گھر لے جاسکتے ہیں، لیکن قانون کے تحت خفیہ دستاویزات کو ٓمحفوظات یا Archive سے باہر لے جانے سے پہلے ان کا مکمل اندراج ضروری ہے۔
امریکی صحافیوں کی تنظیمیں اور آزادیِ اظہار رائے کی انجمنیں اس قانوں کو پسند نہیں کرتیں، ان کا خیال ہے کہ اس دفعہ کا سہارا لے کر کئی صحافیوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ گزشتہ 105 سال کے دوران جاسوسی ایکٹ کے تحت 1000 افراد کو سزا ہوچکی ہے۔ اسی بناپر 1920ء میں ایک ترمیم کے ذریعے ایک خاص مدت کے بعد خفیہ معلومات کو مشتہر کرنے کی ہدایت کی گئی، لیکن یہ صدر کے صوابدیدی اختیار سے مشروط ہے۔ صدر اوباما نے اس قانون کے تحت 8 اور ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 صحافیوں پر فردِ جرم عائد کی۔
گزشتہ ہفتے جب یہ خبر سامنے آئی کہ بعض انتہائی حساس سرکاری دستاویزات بلا اندراج قومی محفوظات (National Archive)سے نکال کر صدر بائیڈن کے دفتر لے جائی گئی ہیں تو 5 جنوری کو قصر مرمریں نے تصدیق کی کہ نہ صرف دفتر بلکہ کچھ فائلیں ان کے نجی گھر میں بھی ہیں جو ریاست ڈیلاوئیر (Delaware)کے شہر ولمگٹن (Wilmington) میں واقع ہے۔ فائلوں سے بھرے بکسے ان کے گھر کے گیراج سے برآمد ہوئے، جس کا مطلب تھا کہ یہ دستاویزات زیر مطالعہ نہیں تھیں اور انھیں فوری طور پر مخزنِ محفوظات بھیجنا ضروری تھا۔
اسی دوران 9 جنوری کو امریکی ٹیلی ویژن CBSنے انکشاف کیا کہ 10 دستاویزات جن پر ”حددرجہ خفیہ“ درج ہے جامعہ پنسلوانیا کے ایک مرکزِ دانش یا تھنک ٹینک پین بائیڈن سینٹر فار ڈپلومیسی اینڈ گلوبل انگیجمنٹ (Penn Biden Center for Diplomacy and Engagement)میں ہیں۔ امریکی دارالحکومت میں جناب بائیڈن کے نام سے موسوم یہ مرکزِ دانش 2018ء میں قائم ہوا جہاں جناب بائیڈن کا ذاتی دفتر بھی تھا۔اس انکشاف پر قصرِ مرمریں کے وکیل رچرڈ ساؤبر نے کہا کہ جب صدر بائیڈن 2 نومبر 2022 ءکو یہ دفتر خالی کررہے تھے تب ان کے ذاتی عملے کی نظر کچھ خفیہ فائلوں پر پڑی۔ فوری طور پر قومی محفوظات کو اس بارے میں مطلع کیا گیا اور دوسرے ہی دن یہ دستاویزات محفوظات کا عملہ آکر لے گیا۔شاید یہ دس دستاویزات اٹھانے سے رہ گئیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جو دستاویزات جنوری 2017ء میں نائب صدارت کی میعاد ختم ہونے کے بعد قومی محفوظات میں بھیجی جانی تھیں وہ چار سال تک ایک مرکزِ دانش میں کیا کررہی تھیں؟
تادمِ تحریر جو دستاویزات صدر بائیڈن کے پاس سے برآمد ہوئیں انھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
٭چند دستاویزات صدر بائیڈن کے واشنگٹن دفتر سے برآمد ہوئیں جو مرکزِ دانش میں تھا۔
٭ایک بڑا پلندہ جناب بائیڈن کے گھر میں گیراج سے برآمد ہوا۔
٭6 کاغذات گیراج سے متصل ایک کیمرے میں موجود پائے گئے۔
فاضل وکیل رچرڈ سائوبر نے تصدیق کی کہ ان کے ساتھیوں کو ذاتی اور سیاسی کاغذات کے علاوہ کچھ ریکارڈز ملے جن پر کلاسیفائیڈ ہونے کی مہریں ہیں۔ یہ کاغذات نائب صدارت کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دستاویزات جناب بائیڈن چھٹیوں کے دوران مطالعے کی غرض سے گھر لے گئے تھے۔ مسٹر رچرڈ ساؤبر کا کہنا تھا کہ گھر سے کسی قسم کے حساس کاغذات برآمد نہیں ہوئے ہیں۔ غیر حساس کا مطلب ہے کہ تزویراتی ہتھیاروں یا جوہری پروگرام سے متعلق کوئی فائل وہاں نہ تھی۔ انھوں نے کہا کہ امریکی محکمہ انصاف کو اس بارے میں فوری طور پر مطلع کردیا گیا اور صدر بائیڈن متعلقہ اہلکاروں سے مکمل تعاون کررہے ہیں۔
12 جنوری کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بائیڈن نے اس واقعے کا صدر ٹرمپ کی ”واردات“ سے موازنہ کیا۔ صدر بائیڈن نے سابق صدر کانام لیے بغیر کہا کہ ہم نے چھاپے کا انتظار کیے بغیر خود ہی تمام تفصیلات محکمہ انصاف کو بتادیں۔
صدر ٖٹرمپ کے ساتھ معاملہ ذرا مختلف تھا، اور حساس دستاویزات کی بازیابی کے لیے عدالت سے اجازت لے کر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے 11 اگست 2022ء کو سابق صدر کے پُرتعیش گالف کورس اور سیاحتی مرکز مارالاگو پر چھاپہ مارا۔ تلاشی کے دوران 20 بکسوں پر مشتمل خفیہ دستاویزات کے 11 سیٹ برآمد ہوئے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق چھاپے میں تین سو سے زیادہ خفیہ یا کلاسیفائیڈ دستاویزات برآمد کی گئیں جن میں سی آئی اے، نیشنل سیکورٹی اور ایف بی آئی کا ریکارڈ شامل ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق کچھ فائلیں جوہری ہتھیاروں سے متعلق بھی تھیں۔ برآمد کیے جانے والے کچھ ڈبوں پر ”ٹاپ سیکریٹ“، ”سیکریٹ“ اور ”کانفیڈینشل“ لکھا ہوا تھا۔ بعض مواد پر ”پوٹینشل پریذیڈینشل سیکریٹ“، ”متفرق خفیہ دستاویزات“ درج تھا۔
اس کے مقابلے میں صدر بائیڈن کی تحویل میں پایا جانے والا مواد حساسیت کے اعتبار سے معمولی نوعیت کا تھا جسے صدر کے عملے نے خود اہلکاروں کے حوالے کیا۔ لیکن ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جناب ٹرمپ کی رہائش گاہ سے برآمد ہونے والے کاغذات صرف ایک سال سے ان کے پاس تھے جن کے بارے میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ سبک دوشی کے بعد وہ قومی محفوظات سے یہ دستاویزات اٹھوانے کی (زبانی) درخواست کرچکے ہیں۔
صدر بائیڈن کی تحویل میں پائی جانے والی دستاویزات کو کھنگالنے اور کسی ممکنہ بے ضابطگی کا جائزہ لینے کے لیے جناب رابرٹ ہُر، خصوصی وکیل (Special Counsel) مقرر کیے گئے ہیں، جن کا تقرر امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ (Merrick Garland) نے کیا ہے۔ جنوبی کوریا نژاد ہُر کو سابق صدر ٹرمپ نے وفاقی عدالت کی میری لینڈ رجسٹری کے لیے وکیلِ سرکار نامزد کیا تھا۔ پچاس سالہ ہُر امریکی وکلا برادری اور محکمہ انصاف میں موقر سمجھے جاتے ہیں۔ امریکی اٹارنی جنرل کی ہدایت پر ایف بی آئی بھی پین بائیڈن سینٹر سے ملنے والی خفیہ دستاویزات کی تحقیقات میں شامل ہے۔ شبہ کی صورت میں ایوانِ صدر کے رہائشی حصوں اور جوبائیڈن کے دوسرے گھروں پر چھاپے خارج از امکان نہیں۔
صدر بائیڈن کے مخالفین اس معاملے پر تحقیقات کے حوالے سے اٹارنی جنرل کے اقدامات پر مطمئن نہیں۔ کانگریس کی نگران یا Oversightکمیٹی کے سربراہ اور ریپبلکن پارٹی کے رہنما جیمز کومر(James Comer)نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن کے معاملے میں محکمہ انصاف کی غیر جانب داری مبہم ہے جس سے تحقیقات کی شفافیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ قدامت پسند رکنِ کانگریس کا کہنا تھا کہ امریکی محکمہ انصاف، عدل کا دہرا معیار رکھتا ہے، اس محکمے کا ریپبلکن پارٹی کے مقابلے میں ڈیموکریٹس کے ساتھ رویہ بہت مختلف ہے جس کی واضح مثال اس ایک جیسے معاملے پر سابق صدر اور موجودہ صدر سے مختلف سلوک ہے۔ ان کا اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ ہلکے سے شک پر سابق صدر ٹرمپ کی رہائش گاہ پر ایف بی آئی کا دستہ بھیج دیا گیا جبکہ صدر بائیڈن کے معاملے میں کئی جگہوں پر دستاویزات کی موجودگی کے بعد بھی وفاقی ایجنٹوں کو متحرک نہیں کیا گیا۔
جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت ایک سنگین جرم ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ محکمہ انصاف کے مقرر کردہ خصوصی وکیل ہُر کس نتیجے پر پہنچتے ہیں، لیکن اس دستاویز کی خبر عام ہوتے ہی صدر بائیڈن کا وہ جملہ ذرائع ابلاغ پر باربار دہرایا جارہا ہے جو انھوں نے اپنے پیشرو کے قبضے سے حساس دستاویزات کی برآمدگی پر کہا تھا ”کوئی اتنا غیر ذمہ دار کیسے ہوسکتا ہے؟“