خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود حکومت کا قیمتوں میں کمی سے انکار
بی جے پی کی شروع سے یہی پالیسی رہے ہے کہ وہ زبانی جمع خرچ کی عادی رہی ہے۔ مذہبی منافرت ‘ ہندو مسلم طبقہ کے درمیان مذہبی جذبات کو ابھارتے ہوئے ملک کے سارے طبقات کو ایک پلڑے میں اور دوسرے پلڑے میں مسلم طبقہ کو شامل کرتے ہوئے ووٹ حاصل کئے جائیں۔ اور یہ باور کروانا کہ بیس فیصد مسلمانوں سے اسّی فیصد ہندوؤں کو خطرہ ہوسکتا ہے اور ملک کی عوام خاص طور پر ریاست تلنگانہ کے عوام کو بے وقوف بنانا انتہائی مشکل ہے۔ اگر ایک عقلمند شخص سے یہ سوال کیا جائے کہ بیس فیصد مسلمان آیا اسی فیصد کا کچھ بگاڑسکتے ہیں تو نفسی میں جواب آئے گا۔

سلیم احمد
گزشتہ چند دنوں سے خام تیل کی قیمتوں میں ایک سو سولہ 116 ڈالر فی بیارل سے گھٹ کر 92 ڈالر فی بیرل تک کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ 8ستمبر کو 92ڈالر فی بیارل خام تیل کی بین الاقوامی بازار میں قیمت کے باوجود ہندوستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ عمل میں لایا جاتا ہے لیکن جب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی جاتی ہے تو پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں بھی کمی کیا جانا ضروری ہے ۔ لیکن مرکزی حکومت اس موضوع پر لب کشائی سے گریز کرتی ہے۔
مرکز حکومت کا دوہرا رویہ عوام کے لئے راحت کے بجائے ذہنی و جسمانی اذیت دینے کے مماثل تصور کیا جانے لگا ہے ۔ عوام دشمن فیصلوں کی وجہ سے اب حکومت پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا جارہا ہے۔
بی جے پی ریاست تلنگانہ میں اقتدار کی خواہاں ہے۔ ریاست تلنگانہ میں مرکزی وزراء کے علاوہ پارٹی کے تنظیمی عہدوں پر فائز تمام افراد مسلسل دورے کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ مرکزی وزراء کے علاوہ اہم قائدین کے دوروں کے موقع پر ایک بات یہ خاص رہی کہ ریاست میں برسراقتدار ٹی آر ایس حکومت کے اقتدار کے خاتمہ کے علاوہ بی جے پی کے ریاستی صدر بنڈی سنجے کا اب یہ تکیہ کلام بن چکا ہے 2023ء اسمبلی انتخابات کے بعد کے سی آر اور ان کے خاندان کا مستقل ٹھکانہ جیل ہی ہوگا۔ بالفرض اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو بی جے پی مرکزی وزراء کے جس تیز رفتاری سے علاقہ تلنگانہ کے دورے ہورہے ہیں آیا ان مرکزی وزراء کی جانب سے ریاست کی ترقی کے لئے کوئی ٹھوس کام انجام دیا گیا یا پھر ریاست تلنگانہ کے لئے کوئی مخصوص مرکزی اسکیم کا آغاز کیا گیا ہو جس کے ذریعہ ریاست تلنگانہ کے عوام کو مستقبل قریب میں فائدہ حاصل ہوسکتا ہے ایسا بی جے پی کے مرکزی وزراء کی جانب سے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ پھر ریاستی صدر بنڈی سنجے کس زعم میں یہ اعلان کررہے ہیں کہ تلنگانہ میں اگلی حکومت بی جے پی کی ہوگی۔ جب بی جے پی نے ریاست کی ترقی کے لئے کچھ دیا ہی نہیں ہے تو ایسی صورت میں ریاست تلنگانہ کی عوام سے مثبت اقدام کی توقع کرنا غلط ہوگا۔
بی جے پی کی شروع سے یہی پالیسی رہے ہے کہ وہ زبانی جمع خرچ کی عادی رہی ہے۔ مذہبی منافرت ‘ ہندو مسلم طبقہ کے درمیان مذہبی جذبات کو ابھارتے ہوئے ملک کے سارے طبقات کو ایک پلڑے میں اور دوسرے پلڑے میں مسلم طبقہ کو شامل کرتے ہوئے ووٹ حاصل کئے جائیں۔ اور یہ باور کروانا کہ بیس فیصد مسلمانوں سے اسّی فیصد ہندوؤں کو خطرہ ہوسکتا ہے اور ملک کی عوام خاص طور پر ریاست تلنگانہ کے عوام کو بے وقوف بنانا انتہائی مشکل ہے۔ اگر ایک عقلمند شخص سے یہ سوال کیا جائے کہ بیس فیصد مسلمان آیا اسی فیصد کا کچھ بگاڑسکتے ہیں تو نفسی میں جواب آئے گا۔
جب بی جے پی کی عاملہ کا کچھ ماہ قبل شہر میں انعقاد عمل میں آیا تھا اس وقت وزیراعظم مودی کی جانب سے ملک کے اندر پسماندہ مسلمانوں کو بی جے پی سے قریب کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ بعد ازاں بی جے پی کی جانب سے یہ ایک نئی اختراع پیدا کی گئی کہ وہ مسلمان جو بیرون ملک سے ہندوستان آئے تھے اور جن کی معاشی حالت بہتر وہ اشراف کہلاتے ہیں۔ اور وہ مسلمان طبقہ جو درمیانہ درجے کی زندگی گزارتا ہو اور اپنے مذہب پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہو حلاف بتایا گیا۔ بعد ازاں اب یہ نئی شکل پیدا کی گئی کہ وہ ’’ارجال‘‘ کہا گیا اور یہ وہ خاص قسم کے مسلمان ہیں جو مذہب اسلام قبول کرنے والے نچلی سطح کی زندگی گزاررہے ہوں اور ایسے مسلمانوں کو اوپر کے دونوں درجہ کے مسلمان آگے بڑھنے یا انہیں معاشی طورپر مستحکم ہونے نہیں دیتے اور ابھی بھی انہیں بھید بھاؤ کی نطروں سے دیکھا جاتا ہے۔ بقول بی جے پی قائدین ایسے مسلمانوں کو بی جے پی کے قریب کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اسلام سے منحرف ہوجائیں ۔
بی جے پی یہی چاہتی ہے کہ ایسے غریب اورپسماندہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے جن کی معاشی حالت انہتائی ابتر ہو اور وہ مذہب سے کوئی خاص لگاؤ بھی نہ رکھتے ہوں اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب سے انہیں لگاؤ ہو ایسے پسماندہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی مالی مدد کرتے ہوئے ورغلایا جائے کہ ان کے آباء و اجداد ہندو تھے اور تم بھی ان ہی ہندوؤں کی نسل سے ہو اور اب آپ تمام اگر ہندو مذہب اختیار کرنے کی صورت میں انہیں بی جے پی تمام فوائد پہنچائے گی جو کہ ہندوؤں کو حاصل ہوں گے اس پالیسی پر دھیرے دھیرے عمل کرنے کی کوشش جاری ہے تاکہ سابق میں اسلام اختیار کرنے والوں کو لالچ دے کر دوبارہ مرتد بنایا جائے۔
اس کے لئے ذہن سازی کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے اور سوشیل میڈیا کے علاوہ ذرائع ابلاغ کو اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کے علاوہ دیگر بی جے پی کی محاذی تنظیموں کو غریب اور پسماندہ مسلمانوںکو ورغلانے کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے اور بی جے پی اس طرح اپنے ووٹ کے فیصد میں اضافہ کی خواہاں ہے۔
اس کے برعکس بی جے پی کی پالیسی میں جاریہ سال2022ء کے بعد سے نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے کہ مسلمانوں کو بی جے پی بالکلیہ طورپر پاک و صاف کیا جارہا ہے ۔ مرکز میں مختار نقوی کو دوببارہ وزارت نہیں دی گئی اور نہ ہی انہیں نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ کے لئے امیدوار بنایا گیا۔ ملک میں سوائے اترپردیش میں ایک واحد مسلم وزیر دانش آزاد انصاری شامل ہیں اور وہ بھی اے بی وی پی تنظیم سے عرصہ دراز سے وابستہ تھے اور انہیں کونسل کے لئے منتخب کرتے ہوئے یوگی وزارت میں منسٹر آف اسٹیٹ کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ بی جے پی ایک طرف اوپر سے مسلم طبقہ کے افراد کو اپنی پارٹی سے ایک کے بعد ایک کرکے ختم کرنے کی پالیسی اختیار کرتی جارہی ہے اور دوسریجانب اس بات کی توقع بھی رکھتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے فیصد میں اضافہ کی خاطر غریب پسماندہ اور دیہی علاقوں کے مسلمانوں کو پارٹی کے قریب لایا جائے۔ کہاوت مشہور ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں سماسکتیں اور بی جے پی کا یہ ایجنڈہ بھی ہے کہ 2024ء کے انتخابات سے قبل ملک ہندو عوام کو یہ باور کروایا جائے کہ وعدے کے مطابق بابری مسجد کی شہادت کے بعد رام مندر کی تعمیر سال2023میں کردی جائے گی ۔ جو ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اس کے بعد یہ اعلان کردیا جائے گا کہ سال2024ء میں اگر بی جے پی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو ایسی صورت میں ملک کو ہندوراشٹریہ میں تبدیل کردیا جائے گا۔
اب بی جے پی سے جو کہ ببانگ دہل اپنے ایجنڈہ کو عملی جامہ پہنانے کے مقصد سے اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ عمل پیرا ہے آیا وہ ملک کے غریب پسماندہ مسلمانوں کی ترقی و بہبود کے لئے فکر مند ہے ۔ اس کے برخلاف بی جے پی اور اس کی ملحقہ تنظیمیں مسلم طبقہ کے ارتداد کی راہ ہموار کرنے میں پہل کررہی ہیں جس سے ہر مسلمان کو گمراہی او راپنے ایمان کا سودا کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔