طنز و مزاحمضامین

خبر تحیر ’’فلم ‘‘سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی …

حمید عادل

ٹالی ووڈکی فلم ’’آر آر آر‘‘نے پوری دنیا میں دھوم مچائی ہے ، عین ممکن ہے کہ بالی ووڈ کے فلم ساز اور ہدایت کار فلم کے نام کی تقلید کرتے ہوئے ’’ ایس ایس ایس ‘‘ ،’’ وی وی وی ‘‘ یا ’’ جی جی جی‘‘ جیسی فلمیں میدان میں اتاریں…کیوں کہ بالی ووڈ کے پاس نقل کے سوا فی الحال کچھ رہا نہیں ہے …مذکورہ فلم کے نغمے ’’ناٹو ناٹو ‘‘ نے اس سال کے 2023ء کی تقریب میں آسکر ایوارڈ جیتا ہے ،اس طرح’’ آر آرآر‘‘ ہندوستان کے لیے آسکر جیتنے والی پہلی فیچر فلم بن گئی ہے… اِس گیت نے اپنی زبردست کوریوگرافی اور موسیقی پر مبنی داستان گوئی سے دھوم مچا رکھی ہے۔ ’ناٹو ناٹو‘ نے Taylor Swift کے کیرولینا تک کو پچھاڑ دیا ہے۔ ’’ ناٹو ناٹو‘‘ کی غیر معمولی کامیابی سے متاثر ہوکر کچھ عجب نہیں کہ دُھن کے پکے بلکہ دُھن کے چور ’’ کاٹو ، کاٹو‘‘ اور ’’ باٹو، باٹو‘‘ جیسی طرزپر کام شروع کردیں تاکہ 2024ء کی آسکر فلم ایوارڈ کی تقریب میں ان کے نغمے دھوم مچا سکیں… ’’ناٹو ناٹو‘‘ کی دھن پر ہزاروں لوگوں نے رقص کیا ہے، پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامرکی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں وہ ایک شادی تقریب میں’’ آر آر آر‘‘ گانے پر رقص کرتی نظر آرہی ہیں،جس سے پتا چلتا ہے فن اور موسیقی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی…
پچھلے چند سالوں سے یوں محسوس ہورہا ہے کہ بالی ووڈ میں کہانی لکھنے والوں کا قحط پڑا ہو ا ہے ، فلم کی کہانی یا تو ہوتی ہی نہیں اورہوتی ہے تو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے یا پھرکسی ہٹ فلم کی کہانی چرائی جاتی ہے۔ایک وقت تھا ہندی بلکہ اردوفلمی شائقین تفریح کے سامان کے علاوہ تھیٹر سے بہت کچھ لے کر نکلا کرتے تھے … بلکہ یہ کہیں تو بیجا نہ ہوگا کہ فلمی شائقین فلم ساز اور ہدایت کا ر کے کچھ اس طرح قرض دار ہوجایا کرتے تھے کہ دو چار روپیوں کے عوض وہ ہزاروں مالیت کی شئے پالیتے…فلم کے ہر شعبے یعنی کہانی، نغمے ، موسیقی اور کامیڈی پر بھرپور توجہ دی جاتی ،فلم بنانے والوں کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ فلمی شائقین تھیٹر سے نکل بھی جائیں تو فلم ان کے دل و دماغ پر چھائی رہے…فلم میں رشتوں کو بڑی خاص اہمیت دی جاتی تھی، لیکن آج کی فلموں میں نہ وہ خاندانی پس منظر رہا،نہ رشتوں کی اہمیت کو پیش کیا جاتا ہے…البتہ جنوبی ہند کی فلموں میں رشتوںکی اہمیت کو آج بھی اجاگر کیا جاتا ہے ، ماں ، باپ ، بھائی ، بہن اور دیگر رشتوں کو اس خوبی سے پیش کیا جاتا ہے کہ فلمی شائقین کے دلوں میں ان رشتوںکے لیے احترام خود بخود پیدا ہوجاتا ۔
ہر فلم میں کامیڈین ہوا کرتے تھے یہ فلم کے ہیرو تو نہیں ہوتے لیکن ہیرو سے کچھ کم بھی نہیں ہوتے تھے … جو وقتاً فوقتاً اپنی حرکتوں اور مکالموں کے ذریعے فلمی شائقین کے دل و دماغ کوتازگی بخشا کرتے تھے … محمود،مقری، جانی واکر ، پینٹل، راجندر ناتھ ایسے کچھ نام ہیں جنہیں پردہ سیمیں پردیکھتے ہی شائقین فلم کے چہرے کھل اٹھتے تھے …اب وہ کردار منظر سے غائب ہوچکے ہیں… نہ وہ موسیقی رہی ، نہ شاعری اور نہ ہی گلوکار… یہ سارا کام دل سے ہوتا اور دل میں اتر جاتا…آج کے فلمی نغموں میں محض چیخ و پکار اور شور شرابے کے کچھ نہیں ہوتا …ایسا بھی نہیں ہے کہ شاعری اب لوگوں سے برداشت نہیں ہورہی ہے ،جب بھی سریلے اور سجیلے نغمے بنے ہیں ،مقبول ہوئے ہیں ۔
فلم کی کہانی پر خاص دھیان دیا جاتاتھا،فلمی شائقین جب فلم دیکھتے تو وہ خود کو اس کہانی کے ایک کردارکے طور پر محسوس کرتے …ان کرداروں کی خوشی میں خوش ہوتے اور ان کے غم میںغمگین ہوتے … نازک دل حضرات تو فلم دیکھتے ہوئے رونا شروع کردیتے،کچھ اپنی سسکیوں کو قابو کرجاتے تو کچھ بے قابو ہوجاتے اور انہیں روتا دیکھ کر دیگر حضرات جو بڑی مشکل سے ضبط کیے بیٹھے ہیں، بے ساختہ رو پڑتے….فلم دیکھتے ہوئے رونا تو آج بھی آتا ہے لیکن اس بات پر نہیں کہ فلم کی کہانی میں ہمیں اپنا درد نظر آگیا بلکہ اس لیے کہ ہم نے اس فلم کو دیکھنے کی حماقت کیوں کی؟
فلم کے ہٹ ہونے کا معیار فلم کا سلور جوبلی، گولڈ جوبلی یا پھر ڈائمنڈجوبلی ہونا گردانا جاتاتھا…لیکن آج فلم کا معیار کاروباریا بزنس پر منحصر ہے …اب کوئی فلم 25ہفتے 50ہفتے یا 75ہفتے نہیں چلتی،البتہ چند ہی ہفتوں میں کروڑوں کا کاروبار ضرور کرلیتی ہے … ماضی کی فلم کے ہٹ ہونے اور موجودہ فلم کے ہٹ ہونے میں ہمیں وہی فرق نظر آتا ہے جو دیسی مرغ اور بوائلر میں ہے… …لیکن جس طرح ضیافتوں میں اسی چکن کا چلن ہے، ٹھیک اسی طرح فلمیں بھی وہی دیکھی بلکہ کھائی جارہی ہیں، جن میں کوئی ذائقہ نہیں…. حالیہ دنوں میں تشدد سے بھرپور دو کوڑی کی فلمیں کروڑوں کا کاروبار کرچکی ہیں…فلم کا ویلن اسٹین گن لے کر بے خوف و خطر نکل پڑتا ہے اورکھلے عام گولیوں کی بوچھار کردیتا ہے ، بیش قیمت کاروں کے علاوہ ہیلی کاپٹرکا تک استعمال ہوتا ہے لیکن دور دور تک پولیس کا پتا نہیں ہوتا…ایسا لگتا ہے کہ وہ پہلے پولیس کو نیند کی گولیاں کھلاتا ہے او رپھر ببانگ دہل نکل پڑتا ہے … جیسے ویلن نہ ہوا سوپر ہیرو ہوا …ادھر ہیرو صاحب کی قیامت خیزیاں بھی کچھ کم نہیں ہوتیں ، جو زمین پر اپنا پیر پٹخ کر ویلن کے ما تحتوں کوہوا میں اڑانے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں …وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے ویلن کے ساتھی کی ٹانگیں پکڑتے ہیں ، ہوا میں اسے گھماتے ہیں اور ویلن کے دوسرے ساتھی کومحض ٹھوکر سے ہوا میں اڑاتے ہیں اور جو آدمی ان کے ہاتھوں میں ہے اسے لاٹھی کی طرح گھماکر ، ہوا میں اڑرہے آدمی پر دے مارتے ہیں …یعنی وہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں، کبھی کبھی تو موصوف بنا تیر کے تین چار شکار کرلیتے ہیں …ہیرو عموماًکوئی لحیم شحیم آدمی نہیں ہوتا ،لیکن بلا کا طاقتور ہوتا ہے،سرحد پر کھڑا کردیا جائے تو ایک اکیلا دشمن فوج پر بھاری پڑ جائے … غضب کی انرجی ہوتی ہے اس کے ہاتھوں پیروں میں،کبھی اپنا پیر زمین پر مارتا ہے تو زمین پر دو تین فٹ گہرا گڑھا بن جاتا ہے تو کبھی زمین سے پانی کا فوارہ جاری ہوجاتا ہے …وہ لوگ جو بوریل کی کھدائی کے لیے ہزاروں روپئے خرچ کرتے ہیں، ایسے کئی فلمی ہیرو کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں …جس سے ان کا پیسہ اور وقت دونوں بچیں گے ….زمین سے پانی نکالنے کی خدمات کے معاوضے کا تعین پیر پٹخنے کی شدت پر منحصر ہوگا… بورویل پر یاد آیا، ایک فلمی ہیرو جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے ’’ یہ ڈھائی کلو کا ہاتھ جب آدمی پر پڑتا ہے تو آدمی اٹھتا نہیں اٹھ جاتا ہے ‘‘ اسی ہاتھ کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ہینڈ پمپ اس قدر آسانی سے اکھاڑا تھا کہ اتنی آسانی سے ہم مسکے سے بال بھی نہیں نکال سکتے … اکیلا ہیرو ، کبھی ویلن کے آدمیوں سے فٹ بال کی طرح کھیلتا ہے تو کبھی انہیںکپڑے کی طرح دھوتا ہے …یہ ناقابل یقین اور فریبی نظارے دیکھ کر شائقین فلم بے قابو ہوجاتے ہیں ، تالیوں سے سارا تھیٹر گونج اٹھتا ہے ،’’نکلتی ہیں دعائیں ان کے منہ سے ٹھمریاں ہو کر‘‘ کے مصداق نکلتی ہیں تعریفیں ان کے منہ سے ’’ سیٹیاں‘‘ ہو کر‘‘…سادہ لوح فلمی شائقین (جن میں ہم خود بھی شامل ہیں)یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ کیا اس قبیل کی لڑائی ممکن ہے ؟کیا کوئی شخص سینکڑوں آدمیوں کو اس طرح دھو سکتا ہے ؟سب سے حیرت انگیز بات تو یہ ہوتی ہے کہ ویلن کے شرپسند عناصرکی جانب سے داغی جانے والی گولیاں ہیرو پر قطعی اثر نہیں کرتیں لیکن جب ہیرو کسی کو نشانہ بنانا چاہتا ہے تو پھر اس کی ایک گولی سے ویلن کے کئی ایک آدمی ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔فلمی لڑائی تو وہ تھی جو ’’ ڈشم، ڈشم‘‘ کی آوازوں کے ساتھ لڑی جاتی تھی اور ایسی ہی جھوٹ موٹ کی لڑائی ہم بچپن میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ڈشم ڈشم کی آواز کے ساتھ خوب لڑا کرتے تھے …
توند کا ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن ایک فلمی اداکار جن کی توند ان سے چار قدم آگے تھی،ہدایت کار نے ان کی توند سے تک کام لیا…جب وہ غنڈوں کی دھلائی کرنے پرآمادہ ہوتے تو اپنی توند کے محض جھٹکوں کے ذریعے غنڈوں کو ڈھیر کردیاکرتے تھے۔ماضی میں جب فلم کے کسی کردار کو گولی لگتی اور وہ لہولہان ہوکرتڑپنے لگتا توشائقین فلم تاڑ لیتے کہ یہ سب اداکاری ہے …خون کیا ہوتا لال رنگ ہوتا…جس کی وجہ سے وہ اس خونخور منظر کے منفی اثرات سے محفوظ رہ جاتے لیکن آج فلم کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے فلم ساز اورہدایت کار اس حد تک جارہے ہیں کہ فلم کا سارا خون خرابہ حقیقی محسوس ہو، چنانچہ لہو نما سرخ لکویڈ کا استعمال ہورہاہے ، جو شائقین فلم کولرزا جاتا ہے …تعجب تو اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ایسی مار دھاڑ والی فلمیں جن سے کچھ حاصل بھی نہیں ہوتا،فلمی شائقین خوب پسند کررہے ہیں اور سنسر بورڈ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے … پچھلے دنوں ملک میں سفاکانہ قتل کی ایسی ایسی وارداتیں انجام دی گئیں کہ ان سے متعلق پڑھ کر یا سن کر ہی کلیجہ معہ آنتیں منہ کو آتا ہے …یقینا یہ سارے قتل فلمی انداز میںکیے گئے تھے…آخر اس کا ذمے دار کون ہے ؟
ماضی کی صاف ستھری فلموں کی تیاری کے پیچھے ٹیم ورک ہوا کرتا،ایک جنوں ہوا کرتا اور یہی جنوں فلم کو کامیابی کی بلندیوں تک پہنچا یا کرتا تھا …
فلموں میںایک زنانہ کردار ہوا کرتا تھا ،جو ویمپ کہلاتا، ویمپس کو بنیادی طور پر کیبرے ڈانسر اور ویلن کی گرل فرینڈ کے طور پر دکھایا جاتا … ہندی سنیما میں ویمپس کا کردار 1930 اور 1940 کی دہائی میں متعارف کیا گیا اور 1990 کی دہائی کے آخر تک یہ کردار زندہ رہا…پھر فلم ساز اور ہدایت کار حضرات کو خیال آیا کہ ویمپ پر کیوں زائد رقم خرچ کی جائے، یہ کام تو ہیروئن سے بھی لیا جاسکتا ہے چنانچہ آج محترمہ ہیروئن صاحبہ اتنی بولڈ ہوگئی ہیں کہ ماضی کی ویمپ تک شرما جائیں …عورت،حیا اوراداکا پیکر ہوا کرتی ہے… اکبر الہ آبادی کہہ گئے :
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
لیکن حیا والی کوئی بات اب فلمی ہیروئن میں نظر نہیں آتی ،عریانیت ہی کو بجلی گراناتصور کیا جارہا ہے …لگے ہاتھوںآرزو لکھنوی کا بھی خیال ملاحظہ فرمائیں:
نگاہیں اس قدر قاتل کہ اف اف
ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ
اب فلمی ہیروئن کے پاس نہ وہ نگاہیں رہیں اور نہ ہی وہ ادائیں…جو ہے تو بس بے حیائی ہے …
۰۰۰٭٭٭۰۰۰