سیاستمضامین

ریاستِ تلنگانہ میں ریوینیو ریکارڈس میں من مانی دھاندلیاں”‘ تبدیلیاں‘ غیر قانونی منتقلی روز کا معمول بن گئے ہیں

ریاستِ تلنگانہ میں ریوینیو ریکارڈس میں من مانی دھاندلیاں”‘ تبدیلیاں‘ غیر قانونی منتقلی روز کا معمول بن گئے ہیں
دھرنی پورٹل کی وجہ سے لاونی اور سرکاری اراضیات کوپرائیوٹ پٹہ اراضی بنادیاجارہا ہے۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد ۔

حقیقی مالکینِ دیہی اراضیات آج کل ایک نئی مصیبت کے شکار ہورہے ہیں اور ا نہیں پٹہ کی منتقلی کے عمل میں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہمیں کئی ایک ایسی شکایتیں موصول ہوئی ہیں جن میں حقیقی مالکینِ اراضی کو پٹہ کی منتقلی اور پاس بک کی اجرائی یا وراثت کے عمل میں بے حد دشواریاں درپیش آرہی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ ان کی اراضیات کی منتقلی کے عمل میں فی ایکڑ کئی لاکھ روپیوں کے مطالبات کئے جارہے ہیں۔ پٹواری‘ ریوینیو انسپکٹر (گِرداور) ڈپٹی تحصیلدار اور آر۔ڈی۔او سب کے سب اس مجرمانہ عمل میں شامل ہیں اور جب تک کہ مطلوبہ رقم ادا نہیں کی جاتی یا ان کے مقرر کئے ہوئے شخص کے حق میں ایک قطعۂ اراضی کا معاہدۂ بیع نہیں کیا جاتا پٹوں کی منتقلی نہیں ہوتی اور پٹہ کی اجرائی کے بعد اس قطعۂ اراضی کی منتقلی کا عمل ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی پٹہ پاس بک جاری کی جاتی ہے۔ گویا ہر پٹہ کی منتقلی کے عمل میں لاکھوں روپیہ نقد یا اراضی کی شکل میں دینا پڑتا ہے اور اس کے بعد رقم کی بندربانٹ ان راشی عہدیداروں میں ہوجاتی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مالکینِ اراضی کو اپنے مقصد کے حصول کے لئے رشوت دینے کی عادت سی پڑگئی ہے جب کہ پٹہ کی منتقلی ان کا قانونی حق ہے۔ اس سے قبل بارہا لکھا جاچکا ہے کہ اگرپٹہ کی منتقلی اور پاس بک کی اجرائی کی درخواست پیش کی گئی ہو اور متعلقہ عہدیدار کسی نہ کسی بہانے سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں تاخیر کررہے ہیں تو ضرورت مند ہائیکورٹ سے بذریعہ درخواست رجوع ہوکر پٹہ کی منتقلی کے احکامات حاصل کرسکتے ہیںکیوں کہ پٹہ کی اجرائی ایک قانونی فرض ہے۔
ایک اور مثال سامنے آئی جس میں دادا کے نام 40 ایکر اراضی کا پٹہ تھا۔ آج اس اراضی کی قیمت پانچ کروڑ روپیہ فی ایکر ہے۔ دادا کے دو بیٹے تھے۔ کوئی بیٹی نہیں تھی۔ یہ دونوں بیٹے ‘ باہر ممالک میں ملازمت کرتے تھے۔ کچھ دنوں بعد ان میں سے ایک کا انتقال ہوگیا۔ اب ورثاء میں ایک بیٹا اور متوفی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی باقی رہے۔ لہٰذا وطن واپسی کے بعد ایک بیٹے اور دو پوتے اور ایک پوتی نے 40ایکر اراضی کے پٹہ کی منتقلی کی درخواست دی۔ درخواست پیش کرنے کی تاریخ تک 40ایکر اراضی کا پٹہ دادا ہی کے نام پر تھا۔ کوئی بھی (P.T) نہیں تھا کیوں کہ یہ زرخرید اراضی تھی۔ قابض کے کالم میں بھی پٹہ دار کا ہی نام تھا‘ ہر چیز صاف ستھری تھی ۔ لیکن تحصیلدار نے کہا کہ آپ سیول کورٹ جا کر (SUCCESSION CERTIFICATE) حاصل کریں اور پھر اس کے بعد ہی درخواست دیں۔ اس کے علاوہ تحصیلدار نے کہا کہ اگر آپ ہماری پہچان کے کسی شخص کے نام معاہدہ بیع کردیں تویہ کام آج ہی ہوسکتا ہے اور آپ کو ساری رقم مل سکتی ہے۔ لیکن ان افراد نے عدالت سے رجوع ہوکر وراثتی سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا اور اس عمل میں مزید چھ ماہ لگ گئے۔ اب یہ تمام افراد پٹہ کی منتقلی اور پاس بک کی اجرائی کی درخواست کے ساتھ دوبارہ پیش ہوئے۔ ان افراد کی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب تحصیلدار اور اس کے حواریوں نے کہا کہ فی ایکر 50 لاکھ روپیہ ادا کرنا ہوگا اس کے بعد ہی پٹہ پاس بک جاری کی جائے گی ۔ مقامی لوگوں نے ان کو مجبورکیا کہ آپ کو یہ کام کرنا ہے کیوں کہ جو گروپ جس کی تحصیلدار نے نشاندہی کی ہے بے حد خطرناک ہے اور وہ قتل بھی کرواسکتے ہیں۔ ان لوگوں کا خوفزدہ ہوجانا ایک لازمی امر تھا لہٰذا ان لوگوں نے اسی بات میں عافیت سمجھی کہ اراضی کا ایک بہت بڑا حصہ ان لوگوں کے نام کردیا جس کی رجسٹری تحصیلدار نے کی اور مابقی اراضی انہی کے پسندیدہ افراد کو فروخت کرکے واپس آنا پڑا۔
اگر ان لوگوں نے تھوڑی سی ہمت کی ہوتی اور جملہ ریکارڈ کے ساتھ کسی ایڈوکیٹ کے ذریعہ ہائیکورٹ میں رٹ درخواست پیش کی ہوتی تو یقینی طور پر ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق پٹہ پاس بک جاری ہوجاتی اور اتنا بڑا نقصان برداشت نہ کرنا پڑتا۔
عوام الناس اور خصوصاً زرعی ا راضیات کے مالکین کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ اگر ان کی آبائی اراضیات آج تک ان کے دادا پردادا کے نام پر ہوں تو انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر قبضہ نہ بھی ہو تو کوئی بات نہیں۔ ناجائز قابضین کو ہٹایا جاسکتا ہے اور انصاف دلوایا جاسکتا ہے۔
آبائی اراضیات میں اگر اب تک پٹہ دار کالم میں بزرگوں کا نام ہی آرہا ہے تو سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ازخود متعلقہ سیول عدالت میں (Succession) کا مقدمہ دائر کیا جائے۔ عدالت اخباری اشتہار جاری کرنے کاحکم صادر کرے گی اور ایک تاریخ مقرر کی جائے گی ۔ اگر تاریخِ مقررہ پر کوئی دعویدار حاضر نہ ہو تو یکطرفہ حکم جاری کیا جائے گا اور حلفیہ بیان لے کر وراثتی سرٹیفکیٹ جاری کردیا جائے گا۔ بعد ازاں اس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر متعلقہ تحصیلدار کے روبرو پٹہ کی منتقلی کی درخواست پیش کریں اور اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور آپ ریوینیو عہدیداروں کی دھاندلیوں اور رشوت طلبی سے محفوظ رہیں گے۔ اگر تحصیلدار کوئی اعتراض کرے یا رشوت طلب کرے تو ایک جانب رٹ درخواست پیش کریں اور دوسری جانب ڈائرکٹر جنرل اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ سے شکایت کریں۔ اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
آج کل ریوینیو ڈپارٹمنٹ میں رشوت ستانی عروج پر ہے ۔ ریوینیو ڈیویژنل آفیسرس کروڑوں روپیوں کی رشوت کی ادائیگی اور زبردست سیاسی تعلقات کی بنیاد پر شہر کے اطراف کے ریوینیو ڈیویژنس پر تبادلہ کیا جارہا ہے اور یہ ظاہر سی بات ہے‘ اس بھاری رقم کی وصولی وہ رشوت کے حصول ہی سے کریں گے۔ اس سے پہلے یہ بات کہی جارہی ہے اور آج بھی دوبارہ کہی جارہی ہے کہ ریوینیو ڈیویژن کورٹ اور جوائنٹ کلکٹر کورٹ میں مقدمات کی سماعت ہوتی ہے اور فیصلہ اس طرح صادر کیا جاتا ہے کہ جس فریق کے حق میں فیصلہ کرنا ہو اس کے ایڈوکیٹ سے کہا جاتا ہے کہ آپ ان خطوط پر فیصلہ لکھ کر لائیں ‘ ہم فیصلہ کو ٹائپ کرکے اپنی مہر کے ساتھ صادر کردیں گے۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ان معاملات میں کتنے کروڑوں روپیوں کی ہیرپھیر ہوتی ہوگی جب کہ اراضیات کی قیمت کئی کروڑ روپیہ فی ایکر ہے۔
آج کل اخباروں میں خبریں شائع ہورہی ہیں اورٹیلی ویژن چینلس بھی اس معاملہ میں خاموش نہیں کہ کس طرح مہیشورم ریوینیو منڈل کی ایک خاتون تحصیلدار نے سرکاری اراضیات کو خانگی پٹہ اراضی کے زمرے میں لاکر پٹہ پاس بک جاری کردی اور فوری ایک بہت بڑی بلڈر لابی کے ہاتھوں فرضی مالکین سے اس قیمتی اراضی کو فروخت بھی کروادیا۔ حکومت کی اراضی کو خانگی اراضی کے زمرے میں لے آنا اور وہ بھی ایک خاتون آفسر کے ہاتھوں اور اس پر بھی نہ تو آج تک اس مجرم عہدیدار کی گرفتاری ہوئی اور نہ ہی کوئی سرکاری محکمہ جات کی جانب سے پیشرفت ہوئی۔ صرف اس بدعنوان عہدیدار کا تبادلہ کچھ ہی آگے آمنگل تحصیلدار کی حیثیت سے کردیا۔ اس خاتون عہدیدار اور دیگر عہدیداروں کے خلاف مقدمہ تو درج ہوا اور وہ بھی کریمنل کورٹ کے احکام پر ۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے بدعنوان عہدیدار حکومت اور اقتدار کی راہداریوں میں کتنا اثر و رسوح رکھتے ہیں کہ ان کو ناقابلِ ضمانت جرم میں آج تک گرفتار تک نہیںکیا گیا۔ اصولی طور پر اس خاتون عہدیدار کے خلاف اینٹی کرپشن محکمہ کو کارروائی کرنا چاہیے تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا جس کی وجہ سیاسی مداخلت ہوسکتی ہے۔
دور درازدیہی علاقوں میں اراضیات کے پلاٹس کے خریداروں کو ہم بروقت آگاہ کردینا چاہتے ہیںکہ وہ مکمل تحقیقات کے بعد ہی پلاٹس کی خریدی کریں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خریدی ہوئی اراضی لاونی پٹہ اراضی یا حکومتی اراضی نکل آئے اور آپ شدید نقصان کے متحمل ہوں۔ لہٰذا ہر ایسے اقدام سے قبل قانونی رائے ضرور حاصل کریں اور خود کو ایک ممکنہ نقصان سے محفوظ کرلیں۔
حکومتِ تلنگانہ نے تحصیلداروں کو رجسٹریشن کے اختیارات دے کر ایک غیر دانشمندانہ اقدام کیا ہے اور صدیوں سے رائج رجسٹری کے نظام کو پامال کیا ہے۔ اس اقدام سے تحصیلداروں اور ریوینیو عہدیداروں کی بدعنوانیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ عہدیدار رئیل اسٹیٹ لابی جس کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے‘ کے تابع اور فرماں بردار بن گئے ہیں اور ان کے اشاروں پر ہی ایسے سارے غیر قانونی اقدامات کررہے ہیں ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت تلنگانہ اس بارے میں بالکل خاموش ہے اور شائد خاموش ہی رہے گی کیوں کہ ایسے بدعنوان عہدیدار حکومت کے ہی پسندیدیدہ کارندے ہیں۔ ریاست میں ریوینیو انتظام بکھر رہاہے اور بدعنوان عہدیداروں کو اپنی جوابدہی کا خوف نہیں۔ ایسی فاش غلطی پر متذکرہ خاتون عہدیدار کو ایک جنبش قلم سے دستورِ ہند کے آرٹیکل 311کے تحت ملازمت سے برطرف کردینا چاہیے تھا کیوں کہ بادی النظر میں اس نے ایک مجرمانہ عمل کیا تھا۔ لیکن حکومت ایسا کیوں نہ کرسکی۔ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
جائیداد کی اولاد کے حق میں تقسیم۔ ہبہ میمورنڈم بہترین طریقہ
سوال:- میرا ایک زرخرید مکان معہ کھلی اراضی موازی(1100) مربع گز حیدرآباد شہر کے نواح میں واقع ہے اور یہاں زمین کی قیمت ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ ہے۔ یعنی ساری جائیداد کی قیمت بارہ کروڑروپیہ ہے۔ میرے تین بیٹے ہیں۔ مجھے صرف ایک بیٹی ہے لیکن اس کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔ اس غرض سے میں اپنی ساری جائیداد چار حصوں میں تقسیم کردینا چاہتا ہوں۔ زمین اور مکان سب ملا کر ایک اسکوائر ‘ یعنی مربع شکل کی ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ دونوں جانب بڑی سڑکیں ہیں جن میں اگر دوکانیں کھولی جائیں تو بہت فائدہ مند اسکیم ہوگی۔ لڑکی عمر35 سال ہوگئی ہے۔ اس کی بہت فکر لاحق ہے۔
لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے تین بیٹے یہ بات نہیں چاہتے کہ ان کی بہن کو اس جائیداد میں کچھ حصہ ملے ۔ وہ اپنی بہن کو کچھ بھی دینا نہیں چاہتے ۔ تینوں باہر ممالک میں رہتے ہیں اور میں بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا ہوں۔ تینوں بیٹوں نے اپنے لیے علاحدہ مکانات تعمیر کرلئے ہیں اور وہ الگ رہتے ہیں۔ مجھے ان سے کسی بھی نیکی کی امید نہیں کیوں کہ وہ بے حد خودغرض ہیں اور اپنی بیویوں اور سسرال کی مار میں ہیں۔ میری بیٹی گریجویٹ اور بی ۔ایڈ پاس ہے اور وہ گھر کے ایک حصہ میں ٹیوشن کرتی ہے۔ دس بارہ لڑکے پڑھنے آتے ہیں ۔ ایک صاحبزادہ کے خسر اور سالے صاحب نے رائے پیش کی کہ اگر میں اپنی اراضی معہ مکان پر ایک کمرشیل اور ریسیڈینشل کامپلکس تعمیر کروں تو مستقل لاکھوں روپیہ کی آمدنی ہوجائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں دونوں بھائی بھی یہی خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنی جائیداد ان تینوں بیٹوں کے نام پر رجسٹری کردوں تو بہتر رہے گا ۔ میں نے پوچھا میری بیٹی کا کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ آپ فکر مت کیجئے۔ سب کچھ ٹھیک ہوگا۔
مجھے ان حضرات اور اپنے بیٹوں کی نیت اچھی معلوم نہیں ہوتی اور وہ سب مل کر میری بیٹی کو محروم کرناچاہتے ہیں۔
میں آپ سے اس ضمن میں رائے کا طلب گار ہوں اور آپ کے مشورہ کے مطابق عمل کروں گا۔
X-Y-Z سابق ہیڈ ماسٹر حیدرآباد
جواب:- اگر آپ ان لوگوں کی بات مان لیں گے تو آپ اور آپ کی ناکتخدا بیٹی گھر سے نکال دیئے جائیں گے۔ ان لوگوں کی نیت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی۔ آپ ان کو اچھا سبق سکھاسکتے ہیں۔ ان بدنیت بیٹوں کو سبق سکھانے کیلئے اپنی نصف جائیداد اپنی بیٹی کے نام ہبہ کردیجئے اور مکان کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ کا قبضہ بیٹی کو دے دیجئے۔ اس بات کی اطلاع اپنے بیٹوں اور ان کے سسرال میں بھی پہنچ جانی چاہیے۔ اگر ہوسکے تو لڑکی کی شادی کی کوشش کیجئے۔ لڑکی کی عمر اتنی زیادہ نہیں ہوئی کہ شادی نہ ہوسکے ‘ آپ اولین فرصت میں لڑکی کی شادی کی کوشش کیجئے۔