سیاستمضامین

’’سقوط حیدرآباد اور نظام سابع کی رواداری ‘‘

مملکت آصفیہ کا دور عظیم الشان بھی اور بہتر دور بھی تھا۔حضور نظام کے دور میں مساوات، عدل وانصاف کا جونظام دورحاضر کے بہت راسے بہتر جمہوری طرز حکومت کے مقابلے میں آج بھی نظیر کے طورپر پیش کیاجاسکتاہے۔ خانوادہ آصفیہ کی رواداری ،بے تعصبی ضرب المثل رہی جس کے بہی خواہ ہی نہیں دشمن بھی معترف ہیں۔ دولت آصفیہ میں معاش کے تقریباً تمام ذرائع ہندوئوں کے ہاتھ میں رہے۔ زراعت وتجارت اور حکومت کے اعمال بھی تقریباً ہندئوں کے ہاتھ میں تھے ۔مسلمانوں نے صرف سرکاری ملازمت پر ہی اکتفا وقناعت کی جب کہ مسلمانوں کے لیے کوئی سیول عہدہ موروثی نہیں تھا جب کہ دیہی عہدوں پر ہندوئوں کو مورثی طورپر برقرار رکھاگیا۔

قاضی سراج الدین رضوی
(صدر مظہر ملت اکیڈیمی )

ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروانے کے دوسرے ہی سال ۱۹۴۸ء میں پولیس ایکشن کے ظلم و زیادتیوں کے عروج کے بعد مملکت اسلامیہ حیدرآباد دکن پر ہندوسانی فوج کا قبضہ ہوگیا۔جس کی وجہ سے ملک اور حیدرآباد کے چاروں طرف خون ،قتل ،غارت گری ،تباہی و بربادی کے بھیانک مناظر دیکھے گئے ۔جب کہ مملکت آصفیہ اپنے عظیم الشان دور سے گزر رہی تھی ۔دنیا کے بیشتر ممالک میں مذاہب ،تمدن ،اور اقوام کے ہاں جمہوری طرز حکومت کی کوئی پائیداری نہ کوئی ضمانت تھی ۔لیکن حیدرآباد کی شاہی حکومت میں جہاں مختلف مذاہب ،فکر ونظر ،تہذیب وتمدن کے اقوام رہا کرتے تھے۔جس کی وجہہ دوسو سالہ نظام حکومت میں کہیں اور کسی قسم پر استحکام دیکھنے کو نہیں ملا ۔
لیکن ۱۳ سپٹمبر ۱۹۴۸ کی صبح صادق شہر حیدرآباد میں شر انگیزوں نے اس خبر کوعام کردیا کہ ریاست حیدرآباد پر حملہ کردیاگیا جس کی وجہ سے حیدرآباد شہر کی تمام فضائیں بوجھل بوجھل سی نظر آنے لگی۔ اس موقع پر اعلیٰ حضرت نظام سرکار نے عوام سے خطاب کیا اور وہیں پیدا شدہ نازک حالات میں اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ ان دنوں شریمتی سروجنی نائیڈو جو اس وقت اترپردیش کی گورنر تھیں ملٹری کے اچانک داخل ہونے پرشدید ردعمل کااظہار کیا اور یہ منظر اپنے آنکھوں سے دیکھ نہ سکی اور اشکبارہوگئیں اور کہاکہ ’’حضور نظام ایک ایسے بادشاہ ہیں جن کی محبت ،اخوت ،رواداری اور بلالحاظ مذہب وملت افراد کی دور کے بناء یہاں کے عوام کے دلوںمیں ان کے تعلق واخلاص ومحبت کے جذبات بڑے جوش وخروش کے ساتھ موجزن ہیں ۔‘‘
آزادی ہند کے بعد دیسی ریاستوں کے انضمام کامسئلہ ملک کے لیے ایک کٹھن آزمائش اختیارکرچکاتھا کیوں کہ انگریزوں کے جانبردارانہ اقتدار نے ہند کی آزادی کے ساتھ دیسی ریاستوں کو اپنی مرضی پرچھوڑدیا…جوں ہی ملک کی آزادی کااعلان عام ہوا تو حکومت ہند کی جانب سے یہ دبائوڈالاگیاکہ دیسی ریاستوں کو حکومت ہند میں شامل کیاجائے گا، جو شامل ہونے کے لیے رضامند تھے انہوں نے شمولیت اختیار کی جن میں جوناگڑھ، بھوپال اور دیگرریاستیں شامل تھیں ۔وہیں ریاست کشمیر کے ساتھ بہت ساری ریاستوں نے بھی اپنی وحدت کو ختم کرکے انڈین یونین میں شرکت کرلی جب کہ ریاست حیدرآباد خود مختار رہناچاہتاتھی۔
اپنوں کی غداری ،غیروں کی سازش کی وجہ سے حضور نظام کو ریاست حیدرآباد سے مستعفی ہونا پڑا اور پولیس ایکشن کے نام پرحکومت ہند نے فوجی کاروائی کرتے ہوئے حیدرآباد پرقبضہ کیا۔ ایسے وقت پنڈت جواہر لال کی رپورٹ بتاتی ہے کہ کس طرح ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس موقع پر وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرونے مولانا ابوالکلام آزاد کے مشورے پر تحقیقات کے لیے پنڈت سندر لال اور قاضی عبدالغفار کو حیدرآباد بھیجا۔ وزیرداخلہ سردار پٹیل نے سندر لال جی کی الم انگیز رپورٹ کو حاصل کیا اوراسے برفداں کے حوالے کردیا۔ رپورٹ میںلکھاگیا کہ ’’میں نے جن جن مقامات کے دورے کیے وہاں دیکھاکہ مسلمانوں کی لاشیں باولیوں سے بھری ہوئی ہیں’’اُودگیر ندی میں انسانی خون اور پانی ایک ہوکرکئی دن تک بہتا رہا۔ اور ان درندہ صفت انسانوں کے ہاتھوں جو تباہی وبربادی ہوئی اس کی وجہ سے بیوائوں، یتیموں اور اجڑی ہوئی بستیاں ہی بستیاں نظر آئیں اوریہ تباہی اس طرح ہوئی کہ ہندوستانی فوج آگے بڑھ جاتی اوراس کے پیچھے غنڈہ گردی عناصرہوتے جوحملہ کرتے جاتے۔ حملہ آوروں نے پہلے مردوں کوقتل کیا اور بعدمیں عورتوں کی عزت وآبرو سے کھیلا اور ان کے ہاں موجود زیوارات،نقدی ،جانور ،جائیدادیں ،غرض کہ مال ومتاع کولوٹ مار وکھسوٹ کیا،یہاں تک کہ چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں دیکھی گئیں۔
مملکت آصفیہ کا دور عظیم الشان بھی اور بہتر دور بھی تھا۔حضور نظام کے دور میں مساوات، عدل وانصاف کا جونظام دورحاضر کے بہت راسے بہتر جمہوری طرز حکومت کے مقابلے میں آج بھی نظیر کے طورپر پیش کیاجاسکتاہے۔ خانوادہ آصفیہ کی رواداری ،بے تعصبی ضرب المثل رہی جس کے بہی خواہ ہی نہیں دشمن بھی معترف ہیں۔ دولت آصفیہ میں معاش کے تقریباً تمام ذرائع ہندوئوں کے ہاتھ میں رہے۔ زراعت وتجارت اور حکومت کے اعمال بھی تقریباً ہندئوں کے ہاتھ میں تھے ۔مسلمانوں نے صرف سرکاری ملازمت پر ہی اکتفا وقناعت کی جب کہ مسلمانوں کے لیے کوئی سیول عہدہ موروثی نہیں تھا جب کہ دیہی عہدوں پر ہندوئوں کو مورثی طورپر برقرار رکھاگیا۔ حیدرآباد میں عالیہ سے انکم ٹیکس یا سیلس ٹیک نہیں لیاجاتا تھا اوراس کا فائدہ سب سے زیادہ ہندوئوں کو ہوا کیو ںکہ کروڑوں روپئے سیٹھ ساہوکار اور آمدنی کے بڑے ذرائع ہندوئوں کے پاس موجودتھے۔ مذہبی رواداری کا یہ عالم تھا کہ ہندو رعایا کے مذہبی جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے حکمراں طبقہ کو گائے کی قربانی سے منع کیاگیا۔ سرکاری عمارت کے پہلو میں تعمیر کے وقت اگر کوئی چھوٹی سی مندر بھی راہ میں آجائے تو نمایاں بدنمائی کے باوجود اسے وہاں سے ہٹایا نہیں جاتاتھا چنانچہ ہائی کورٹ کی عالیشان وپرشکوہ عمارت کو دونوں پہلو میں چھوٹی سی دیویوںکو نہ صرف قائم کیاگیا بلکہ اس کی سرکاری طورپر توسیع کی گئی جب کہ ہندو مذہب کے لحاظ سے مقررہ رسم کے ذریعہ مندر کو دوسری جگہ منتقل کیاجاسکتا تھا ،اقتدار اور حکمران کے زرین اصولوں اور رواداری کے خاطر ایسا نہیں کیاگیا ۔حضور نظام نے اپنی رواداری کی مثال قائم کی کہ مساجد سے زیادہ منادر کی تعمیر کی اجازت دی جاتی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ صرف تین سال کے اندر392مندر اور193مساجد تعمیر کیے گئے جبکہ آج کے جمہوری دور وسیکولر دور میں کتنے ہی مساجد کومسمار کیاگیا جس کا سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔ مسلمان جنہوں نے دکن میں700سال سے زائد حکمران طبقہ کی حیثیت سے رہے۔ ان کی رواداری کے پیش نظر تمام مراعات پرکوئی اعتراض وتنقید نہیں کیاگیا کیوں کہ مسلمانوں نے دکن کی ہندوعالیہ کو کبھی اور کسی قیمت پرالگ نہیں سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ دکن میں مسلمان اور ہندو حقیقی معنوں میں میل میلاپ اور بھائی چارگی کیساتھ زندگی بسرکرتے رہے۔ کسی ہندو کومسلمان سے اور کسی مسلمان کوہندو سے کوئی تکلیف ونفرت کبھی اور کسی صورت میں نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ عیدین وتہواروں میں آنا وجانا اور شرکت کرنا،تحفہ وتحائف کا لینا ودینا اس وقت بھی عام تھا اور آج بھی عام وخاص ہے۔ لیکن کچھ برسوں سے فرقہ پرست عناصر اس جمہوری ملک کی سالمیت، یکجہتی،فرقہ وارانہ، ہم آہنگی،میل میلاپ کو زہرآلود کرنے کیلئے مختلف طریقہ کار وبہانے ڈھونڈڈھونڈکر ملک کی فضاء کومکدر کرنے سازش میں شب وروز سرگرم ہیں۔ لیکن ان کی یہ سرگرمی ملک کی موجودہ قومی یکجہتی وسالمیت کے تناظر میں کبھی پائیدار ومضبوط نہیں ہوسکے گی۔
ملک کی شیرازہ بندی، جمہوریت وسالمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت کا یہ اعلان کہ اس ملک کوقومی یکجہتی کے دھارے میں لے جانے کے بجائے’’لبریشن ڈے‘‘ کے طورپرمنانے کااعلان کیاگیا ہے جو ملک کی سالمیت،قومی یکجہتی کونقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اس کے برعکس مسلمانان ہند کا یہ فیصلہ کہ یہ ملک ہمیشہ سے قومی یکجہتی وسالمیت کا دلدادہ رہا ہے اگر لبریشن ڈے منایاجائے گا توسالمیت ویکجہتی کونقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ اس کے لئے مسلمانان ہند کا یہ فیصلہ خود ملک کے لیے اہمیت کاحامل ہے اور اس کونئی نسل سے واقف کروانے کے لیے چاروں طرف قومی یکجہتی کی آوازایں بلند کرنا ضروری ہے۔ ایسے میں طلباء ونوجوانوں اور عامتہ الناس سے دردمندانہ اپیل کی گئی کہ وہ ’’قومی یکجہتی‘‘ کے طورپر اس یوم کومنائیں تاکہ ماضی میں جس طرح کا خواب اعلیٰ حضرت میرعثمان علی خان اور ان کے خانوادوں نے دیکھاتھا وہ شرمندہ تعبیر ہوسکے اور وہیں انہوں نے سلطنت آصفیہ کے قیام کے بعداپنے ماتحین کے ذریعہ سلطنت آصفیہ اور سقوط حیدرآباد میںعالیشان طورپر آن وشان وبان ،شوکت کے ساتھ رواداری کے حسین مناظر کوقائم کرکے بتایااوراس کی مثال قائم کی جس کے لیے آج اتنے برس گذر جانے کے بعدبھی حیدرآبادی روایات قدیم زندہ وتابندہ ہے۔ ہم ان کے اس خواب وعزایم کو زندہ جاوید رکھنے کے آگے آگے ہیں اور نئی نسل سے خواہش کی جاتی ہے کہ وہ بھی چاروں سے آگے آئیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰