سیاستمضامین

’’سنہرا تلنگانہ‘‘

’’سنہرا تلنگانہ‘‘ ہمارے وزیراعلیٰ کا جملہ ہے یا یہ صرف کانوں کو خوش کرنے جیسی ٹی آر ایس پارٹی کی ایک ادا ہے یا پھر اس میں کوئی حقیقت بھی پوشیدہ ہے ؟یہ سوال تلنگانہ کے لاکھوں باشندوں کے ذہنوں پر چھایاہوا ہے۔

محمد اسمٰعیل واجد
9866702650

’’سنہرا تلنگانہ‘‘ ہمارے وزیراعلیٰ کا جملہ ہے یا یہ صرف کانوں کو خوش کرنے جیسی ٹی آر ایس پارٹی کی ایک ادا ہے یا پھر اس میں کوئی حقیقت بھی پوشیدہ ہے ؟یہ سوال تلنگانہ کے لاکھوں باشندوں کے ذہنوں پر چھایاہوا ہے۔ اگر کوئی سنہرا تلنگانہ کی زمینی حقیقت کا ذاتی طور پر معائنہ کرلے تو بھی وہ دوسروں تک اپنی حقیقت پسندی کو ثابت کرنے میں شاید ناکام ہوجائے …

اس لئے مقولہ مشہور ہے کہ جھوٹ کو اتنی بار بولو کہ سچ اس کے سامنے شرمندہ ہوجائے ایسا ہی کچھ حال ہماری تلنگانہ حکومت کا چل رہا ہے، تلنگانہ کی زمینی حقیقت کو دیکھیں تو دور دور تک کہیں کوئی سنہرا پن دکھائی نہیں دیتا پھر بھی ہمارے وزیراعلیٰ کے لہجے میں یہ تاثیر ہے کہ وہ جس چیز کو چاہیں سنہرا کردیں …ان کی شاید یہی وہ طاقت ہے جس کے بل پر وہ قدیم محاورہ ’’پہلے گھر میں چراغ پھر …‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی جماعت ٹی آر ایس کو قومی جماعت میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی تیار کررہے ہیں ۔

ہمارے وزیراعلیٰ کا شمار ایک کٹر مذہبی شخصیت کے طور پر ہوتا ہے، وہ کوئی بھی نیا کام مندر میں خصوصی پوجا کے بعد ہی شروع کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ چند دن قبل انہوں نے یادادری مندر میں پوجا کی اور قومی سیاسی جماعت کی تشکیل سے متعلق صلاح و مشورہ بھی کیا… دوسرے معنوں میں شاید یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارے وزیراعلیٰ، اب سارے ہندوستان کو سنہرے خواب یعنی ’’ سنہرا ہندوستان‘‘ بنانے کا خواب دکھانے کی تیاری مکمل کرچکے ہیں ۔ وزیراعلیٰ کی اس جدوجہد پر مشہور شاعر مظفر وارثی کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎

صرف رنگوں سے بھی رس نہیں ٹپکا کرتا
کاغذی پھول پہ تتلی نہیں آیا کرتی

شاید یہ شعر ہمارا تجزیہ بعد میں غلط بھی ثابت ہو، چونکہ جب ہمارے وزیر اعلیٰ نے قومی سیاست میں داخلہ کی تیاری زور و شور سے جاری رکھی ہے تو شاید اس میں ان کی دوراندیشی بھی ہو چونکہ چند دن قبل اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ وزیراعلیٰ نے ریاست کی مالی بحران کی صورتحال کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی قومی سیاست میں سرگرم رول ادا کرنے کی غرض سے چارٹرڈ طیارہ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر 80 کروڑ روپئے کے مصارف آئیں گے یہ طیارہ بارہ نشستوں والا ہوگا اس طیارے سے ہمارے وزیراعلیٰ کو اپنی قومی جماعت کی ملک بھر میں تشہیر کرنے اور مختلف جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کرتے ہوئے بے حد آسانیاں ہوں گی ۔ کہا یہ بھی جارہا ہے کہ ٹی آر ایس پارٹی قیادت نے چارٹرڈ طیارے کی قیمت 80 کروڑ روپئے پارٹی قائدین سے بطور عطیات وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

سیاسی گلیاروں میں یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ ٹی آر ایس قائدین عطیات دینے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ وزیراعلیٰ کی نظر میں اپنا اعلیٰ مقام بناپائیں… پارٹی کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر چارٹرڈ فلائیٹ خرید لیاجاتا ہے تو ٹی آر ایس کو ذاتی فلائٹ رکھنے والی پارٹی کا اعزاز حاصل ہوجائے گا، ان حالات پر مشہور شاعرہ ذکیہ غزل کا یہ شعر یاد آتا ہے ۔

وہ کھڑے ہیں کسی کے کاندھے پر
شوق کتنا ہے قد بڑھانے کا

یقیناً ٹی آر ایس پارٹی ہو یا کوئی اور سیاسی جماعت اسے اقتدار کی کرسی تک پہنچانے میں عوام کا ہی بڑا ہاتھ ہوتا ہے… موٹے الفاظ میں کہا جائے تو وہ عوام کے کاندھے پر چڑھ کر ہی اقتدار کی کرسی پر پہنچتے ہیں اور عوام بھی اقتدار کی مسند ایسے ہی نہیں سونپتی باشعور عوام کسی بھی سیاسی جماعت کے اندازِ کارکردگی پر بھر پور نظر رکھتے ہیں، موجودہ اقتدار پر فائز ٹی آر ایس پارٹی کا اندازِ کارکردگی چاہے وہ اضلاع ہو یا شہر میں بھی قابل تعریف نہیں پایا گیا، چاہے وہ نظم ونسق کا معاملہ ہو، لااینڈ آرڈر کی صورتحال ہو، اقلیتی اسکیمات کے معاملے میں سست روی کا مظاہرہ ہو، شہر میں ٹریفک جام کے مسائل، بے انتہا ضروری شاہراوں پر ماسٹر پلان کی نشاندہی اورپھر اس کا زیر التواء ہوجانا یعنی ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا جانا، اُردو اکیڈیمی کی جانب سے اُردو کے کاز کے لئے چلائی جانے والی اسکیمات کا اعلان کرکے ادیب شعرأ، مدیران سے درخواستیں طلب کرکے انہیں نہ صرف ٹھنڈے بستے کے حوالے کیا جائے بلکہ اُردو اکیڈیمی کی جانب سے اخبارات میں پریس نوٹ شائع ہوتا ہے اوربعد میں معلوم ہوتا ہے یہ تو محض اعلان تھا صرف اعلان یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ حکومت تلنگانہ نے محکمہ اقلیتی بہبود کو بستر مرگ پر ڈال دیا ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت کا حال ایک قدیم محاورہ’’ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کُل سیدھی‘‘ کی طرح ہوکررہ گیا ہے۔ عوام پریشان حال ہیں اور وزیراعلیٰ قومی سیاست میں داخلہ کیلئے پرتول رہے ہیں ۔

موجودہ حکومت کا سب سے ناکارہ ادارہ اگر کسی کو کہا جائے تو وہ محکمہ بلدیہ ہے ،وزیراعلیٰ یا ان کے کیبنٹ منسٹرس تو شہر کو لیکر بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، اس شہر کو یوروپی شہروں کے مماثل بنانے کے سنہرے خواب دن میں ہی دکھائے جاتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ شہر حیدرآباد خاص طور پر پرانا شہر حکومت کی محکمہ بلدیہ کی …انتہا ناانصافیوں کا شکار ہے یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ یہاں چراغ تلے اندھیرا ہے جگہ جگہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پرانے شہر کا مقدر بن گئے ہیں، ابُلتے موریوں سے سڑکوں پر بہتا گندہ پانی پرانے شہر کی پہچان بن گئی، شہر میں جگہ جگہ کچہرے کے ڈھیر جن سے تعفن اُٹھتا ہے اور متعدی بیماریاں پھیلتی ہیں، محکمہ بلدیہ کی لاپرواہیوں نے شہر کو کوڑے دان میں تبدیل کردیا ہے…

عوام حکومت کی اس کارکردگی سے مایوس ہیں، وہ بے بس لاچار ہیں، ان کا تو یہ حال ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں ؟ چونکہ محکمہ بلدیہ میں ان کی کوئی داد رسائی نہیں ہوتی اور بلدیہ کے اعلیٰ عہدیدار بھی ٹال مٹول کا رویہ اپناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہر سال ’’ کچہرے سے پاک شہر‘‘ کیلئے جو خصوصی ریٹنگ دی جاتی ہے، اس میں شہر حیدرآباد کا نام نہیں ہے جبکہ تلنگانہ کے 16 میونسپلٹی کو یہ انعام حاصل ہوا ہے جسے ’’سوچ سرکشا‘ کے نام سے دیا جاتا ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ جس شہر کو یوروپی شہروں کے مماثل ترقی دینے کے سنہرے خواب دکھاتے ہیں وہ شہر ’’ کچہرے سے پاک شہر ‘‘ کا ایوارڈ تک نہیں لے سکتا… یہ شہریوں کیلئے بھی اور حکومت کے لئے بھی شرم کی بات ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مئیر حیدرآباد حال ہی میں منعقدہ بلدیہ کے جنرل باڈی اجلاس میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئی تھیں کہ ’’ یہ شہر دیکھ کر مجھے بھی شرم آرہی ہے‘‘ اب اس سے بڑی اور مثال کیا ہوگی کہ شہر کی مئیر صاحبہ ہی محکمہ بلدیہ کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگئیں۔

اس حکومت کی عادت ہے کہ وہ اپنی خامیوں کی پردہ پوشی کرتی ہے اور چھوٹی سی کامیابی کو بھی بڑا کرکے بتاتی ہے جیسے کہ حال ہی میں عالمی یوم سیاحت تقاریب کے ضمن میں دہلی میں منعقدہ تقریب میں تلنگانہ کو سیاحت سے متعلق چار زمروں میں ایوارڈس سے نوازا گیا ، ریاستی وزیر سیاحت نے تقریب میں یہ ایوارڈ حاصل کئے۔ ان میں بیسٹ گولف کورس ، بیسٹ ریلوے اسٹیشن، سکندرآباد ریلوے اسٹیشن اور بیسٹ میڈیکل ٹورازم اور ریاست میں جامع سیاحتی ترقی کا ایوارڈ شامل ہے تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت چھوٹی سی چھوٹی کامیابی کا ڈھنڈورا خوب پیٹتی ہے اور ناکامیوں کی پردہ پوشی کیوں؟ جبکہ حکومت تقریباً محاذوں پر نا کام ثابت ہورہی ہے اور وزیر اعلیٰ کبھی قومی قائدین سے ملاقاتوں کیلئے دوسری ریاستوں کا دورہ کررہے ہیں اور اب تو انہوں نے اپنی قومی جماعت کا نام بھی تجویز کرلیا ہے اور خبر ہے کہ اپنے ذاتی چارٹرڈ طیارے کی بھی خریدی کرلی ہے… اس پر وہ قدیم محاورہ پھر یاد آرہا ہے ’’پہلے گھر میں چراغ جلاؤ پھر ….‘‘ یہ ضروری نہیں کہ انہیں لاکھ جتن کے باوجود قومی سیاست میں کامیابی حاصل ہو۔
٭٭٭