سیاستمضامین

مسـلمان ہـوشـیـار بــاش!!او۔بی۔سی‘ دلتوںاور مسلمانوں میں تصادم کی سازش ممکن

برہمنوں‘ پنڈتوںاور اعلیٰ ذات کے طبقوں نے تمام تر ذاتوں اور طبقات کو ابتداء میں ویش ‘ کھتری اور شودر تین ذاتوں میں بانٹ دیا تھا۔ دستور ہند نے انہیں آزادی کے بعد 1956ء میں 600 ذاتوں اور قبائل میں تقسیم کرڈالا اور پنڈتوں نے انہیں 600 سے 6ہزار قبائل اور دلتوں میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اس سے اعلیٰ ذاتوں کے 10فیصد لوگ ہمیشہ کے لئے برتر و اعلیٰ نسل کے باوقار ہندوستانی بن گئے۔ ہر عہدے ‘ ہر صنعت‘ ہر تجارت کے معزز پیشے پر ان کا قبضہ ہوگیا۔ ہندوستان کے 125کروڑ سے زائد دیسی آپس میں بٹ گئے۔ مگر ڈھائی فیصد برہمن اور 7.5 فیصد اعلیٰ ذات کے لوگ مزید متحد اور اعلیٰ مرتبہ و مقام کے حامل ہوگئے۔

سلیم مقصود

آر۔ایس۔ایس۔ رواں سال اپنے قیام کے 100 سال کی تکمیل کا جشن اپنی سازش کے اپنا آقاؤں کے وطن برطانیہ میں ناکام ہونے کے بعد ہندوستان میں منارہی تھی کہ اس کے لئے اچانک برطانیہ‘ امریکہ ‘ کینیڈا کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں ایک بار پھر ایمرجنسی جیسی صورتحال پیدا ہوگئی اور اسے 47سال بعد دوبارہ مسلمانوں کی شدید ضرورت لاحق ہوگئی۔ ایمرجنسی کے وقت جب اندراگاندھی کی حکومت نے واجپائی‘ اڈوانی‘ سدرشن وغیرہ تمام بی جے پی اور آر ایس ایس کے قائدین کو جیلوں میں بند کردیا تھا اور ان کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی اس وقت ان کا کوئی مددگار نہیں تھا ایسے وقت ان کے ساتھ قید مسلم علماء اور مسلم قائدین سے انہوں نے مصالحت کا طریقہ اختیار کیا تھا۔ بڑے پیمانے پر مسلم رہنماؤں اور علماء کے ساتھ بھائی چارگی کے دعوے کئے جارہے تھے۔ بعض مسلم عالموں ‘ سیاست دانوں اور بعض مذہبی جماعت کے قائدین نے عوام کو یہ خوشخبری بھی سنادی تھی کہ آرایس ایس اور بی جے پی کے نیتاؤں میں بڑی خوشگوار تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں اب وہ مسلمانوں اور ان کے دین کے خلاف نہیں ہیں۔
مسلمان اپنی کمزوریوں ‘ غلطیوں اور غلط فہمیوں کے بارے میں ساری دنیا میں مشہور ہیں ایمرجنسی کے بعد منعقدہ عام انتخابات میں بی جے پی کا ساتھ دینے کے بعد اس کا ثبوت مل گیا۔ بعض مسلم جماعتوں اور مذہبی اور سماجی حلقوں نے یہ اعلان تک کردیا کہ مسلمانوں کو نام نہاد سیکولر جماعتوں کے بجائے بی جے پی اور آر ایس ایس کے نمائندوں کو ووٹ دینا چاہیئے۔ جیسے ہی بی جے پی کی قسمت بدلنے لگی‘ آر ایس ایس کی مکاریاں نمایاں ہونے لگیں۔ کتے کی ٹیڑھی دم 100 سال بعد بھی سیدھی نہیں ہوتی اب جبکہ آر ایس ایس کے قیام کے 100 سال مکمل ہورہے ہیں‘ یہ محاورہ سچ ثابت ہورہا ہے۔ آر ایس ایس کی دم تو ٹیڑھی ہوگئی مگر مسلمانوں کی حماقتوں‘ بے وقوفیوں اور غلطیوں کا سلسلہ آج تک جاری رہا۔ ایمرجنسی میں آر ایس ایس کو یہ سخت ہیبت ہوچکی تھی کہ اس کے ہاتھ سے 60 فیصد او بی سی اور 10 فیصد سے زائد ایس ٹی اور ایس سی غلام نکل جائیں گے۔ اسے روکنے کے لئے آئینی تحفظات کے ساتھ ساتھ منڈل کمیشن کے ذریعہ ان میں مزید نفرتیں اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئے مزید ناکارہ اور بے اثر تحفظات کا اعلان کردیا گیا ۔ حالانکہ دستور میں ایس ٹی اور ایس سی کو جو سہولتیں دی گئی تھیں ان پر کوئی مکمل عمل آوری انجام نہیں دی گئی۔ منڈل کمیشن کی سہولتوں سے پسماندہ اور پچھڑے قبائل کو فائدہ پہنچنے کے بجائے ان میں بے شمار تنازعات پیدا ہوگئے اور بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے تحفظات کی کئی دعویدار ذاتیں پیدا کردیں۔ برہمنوں‘ پنڈتوںاور اعلیٰ ذات کے طبقوں نے تمام تر ذاتوں اور طبقات کو ابتداء میں ویش ‘ کھتری اور شودر تین ذاتوں میں بانٹ دیا تھا۔ دستور ہند نے انہیں آزادی کے بعد 1956ء میں 600 ذاتوں اور قبائل میں تقسیم کرڈالا اور پنڈتوں نے انہیں 600 سے 6ہزار قبائل اور دلتوں میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اس سے اعلیٰ ذاتوں کے 10فیصد لوگ ہمیشہ کے لئے برتر و اعلیٰ نسل کے باوقار ہندوستانی بن گئے۔ ہر عہدے ‘ ہر صنعت‘ ہر تجارت کے معزز پیشے پر ان کا قبضہ ہوگیا۔ ہندوستان کے 125کروڑ سے زائد دیسی آپس میں بٹ گئے۔ مگر ڈھائی فیصد برہمن اور 7.5 فیصد اعلیٰ ذات کے لوگ مزید متحد اور اعلیٰ مرتبہ و مقام کے حامل ہوگئے۔
اس بارے میں مسلمانوں کے موقف کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک دلت قائد نے اپنی تقریر میں کہا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق برہمنوں اور اعلیٰ ذات کی جملہ 10فیصد آبادی کے مقابلے میں مسلمانوں کی جملہ تعداد15 فیصد پائی گئی ہے مگر ان 15 فیصد مسلمانوں پر 10 فیصد برہمن اور اعلیٰ ذات کے لوگ حاوی ہوگئے ۔ 15فیصد مسلمان 10 فیصد ہندوؤں سے ڈرتے رہے۔ یو پی ریاست میں برہمن 10فیصد پائے جاتے ہیں جب کہ سارے ہندوستان میں ان کی جملہ تعداد5.2فیصد ہے ۔ ان سے زائد تعداد سکھوں کی جو غالباً 3فیصد ہیں۔ مگر برہمن اور اعلیٰ ذات کے لوگ ان سے خوفزدہ رہتے ہیں۔
آر ایس ایس نے ایک لاکھ سے زائد او۔بی۔ سی اور دلت نوجوانوں اور بوڑھوں کو 1925ء سے 2022ء تک تقریباً 100 سال کے عرصے میں مسلمانوں کے خلاف خطرناک ذہنی اور جسمانی تربیت دی اور ایک لاکھ سے زیادہ مسلم کش فسادات میں دہشت گردوں کے طورپر استعمال کیا۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بی جے پی کے بعض قائدین نے جب یہ کہا کہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنادیا جائے گا ۔ انہیں ووٹ دینے کا کوئی حق نہیں رہے گا۔ ان کے رہن سہن کے مقامات بھی سب سے الگ ہوں گے کیوں کہ ان کا تعلق ہندوستان سے نہیں ہے۔ ان کی یہ پاگل پن کی باتیں سن کر دلتوں کے ایک بہت ہی دانشمند قائد اور ہندوتوا کے سناتن دھرم کے دشمن وامن مشرم نے کہا کہ مسلمانوں کا ڈی این اے ہندوستان کے رہنے والوں سے تعلق رکھتا ہے ۔ یہ ہندوستانی نسلوں ہی کی اولاد ہیں کیوں کہ ایک بہت بڑی تعداد میں کسی غیر قوم کا ہندوستان منتقل ہوجانا تاریخ سے یا خون کی کسی شناخت سے ثابت نہیں ہے۔ ان کے اس بیان سے آر ایس ایس کے نظریہ کی منطقی تردید ہوگئی۔ ان کا بیان سنتے ہی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے یہ تسلیم کرلیا کہ ’’ مسلمانوں کا اور ہمارا ڈی این اے ایک ہی ہے‘‘ انہوں نے یہ بات دراصل اس لئے کہی کہ مسلمان اگر ہندوستانی نژاد ہیں تو برہمنوں کا بھی ہندوستانی نسل کا ہونا ثابت نہیں کیا جاسکتا اور اس کے علاوہ 60 فیصد سے زائد او۔بی۔سی میں مسلمان بھی شامل ہیں اور ایس ٹی اور ایس ۔سی بھی ہندوستان کے باشندے ہیں۔ اگر ان کا اور مسلمانوں کا تعلق برہمنوں سے نہیں ہے ت و برہمن کس طرح ہندوستان کے باشندے تسلیم کئے جاسکتے ہیں۔ اب او۔بی۔سی ‘ ایس۔سی اور ایس۔ٹی ذاتوں کو پتہ چل چکا ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں اور برہمنوں سے ان کا کوئی مذہبی اور نسلی تعلق نہیں ہے۔ ہندوؤں کے دیوی‘ دیوتا اور اوتار بالکل الگ ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں اور مندروں سے ایس۔ٹی‘ ایس۔سی اور او۔بی۔سی کا کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ اب یہ لوگ اس بات کا مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ ہندوستان کے جتنے بھی بڑے منادر ہیں وہ جین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں کی ملکیت ہیں۔ برہمنوں‘ غیر آدی واسی سنگھٹنوں کو انہیں یہ عبادت گاہیں حوالے کرنی ہوں گی۔ منوسمرتی کے 12بڑے قوانین اور امبیڈکر کے 22 اصولوں میں سے 11 اصول فی الحال سناتن دھرم کے عقائد کے بالکل خلاف ہیں ۔ شیو‘ وشنو‘ اِندر ‘ سب بھگوانوں اور ان کے اوتاروں کو غیر برہمنوں اور غیر ذات والے لوگوں نے مسترد کردیا ہے۔ اب انہیں ہندو یا ہندوتوا کے ماننے والے نہیں کہا جاسکتا۔
برہمنوں اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے لئے اب خود ان کی اور ان کے مذہبی عقائد کی بقاء کا مسئلہ پیدا ہوچکا ہے۔ اس لئے یہ مسلمانوں ‘ آدی واسیوں‘ اچھوتوں ‘ قبائیلیوں اور او۔بی۔سی میں شدید منافرت پیدا کریں گے۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے ضروری ہوچکا ہے کہ وہ غیر جانبداری کا خطرناک موقف اختیار نہ کریں اور نہ ہی ایمرجنسی کی غلطیوں کا اعادہ کریں۔ بعض مسلمان قائدین‘ مشاہرین‘ نام نہاد مفکرین اور علمائے کرام حالات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے آر۔ایس۔ایس اور ہندوتوا کے حامیوں کی خوشامد پر اتر آئے ہیں۔ آر۔ایس۔ایس کے زوال کے اس دور میں اس کے سربراہ موہن بھگوت نے 22 ستمبر 2022ء کو نئی دہلی میں مسلمان مشاہرین کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات کی اور اس ملاقات میں ذبیحہ گاؤ ‘ کفر اور جہاد کے موضوعات پر کھل کر بات چیت کی۔ 75منٹ کے اس اجلاس میں ہندو مسلم اتحاد و مذہبی رواداری پر زور دیا گیا۔ اس اجلاس میں مسلمانوں کی نمائندگی دہلی کے سابق گورنر نجیب جنگ ‘ سابق چیف الیکشن کمیشن ایس ۔وائی۔ قریشی ‘ علی گڑھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ضمیرالدین شاہ ‘ راشٹریہ لوک دل کے نائب صدر شاہد صدیقی اور مشہور مسلم تاجر سعید شیروانی نے کی ۔ اس سے قبل 21اور 24اگست کو دہلی کے سابق گورنر نجیب جنگ کی قیادت میں مسلم دانش مندوں سے بھاگوت نے پہلی بار ملاقات کی تھی۔ ان ملاقاتوں کے باوجود بھی دین اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا سلسلہ اس لئے جاری رکھا گیا تاکہ مسلمان بعض ریاستوں کے انتخابات میں خوف زدہ رہیں۔