ملک میں اکثریت پسند سیاست کا ظہور‘ ہندوستانی مسلمان تذبذب میں

رام پنیانی
پچھلے کچھ سالوں سے ملک میں ایک طرف ہندوستانی مسلمانوں پر مظالم بڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف کچھ مسلم رہنما اور دانشور آر ایس ایس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آر ایس ایس ان کے ساتھ بات چیت کرے۔ کیا امت مسلمہ تذبذب کا شکار ہے؟ کیا وہ نہیں جانتی کہ کیا کرنا ہے؟
تقسیم ہند نے مسلمانوں کو شدید مشکلات میں ڈال دیا تھا۔ پاکستان کا قیام بہت سے پیچیدہ عوامل کا نتیجہ تھا، جس میں برطانوی حکمرانوں کی طرف سے مسلم اور ہندو فرقہ پرست عناصر کے مکمل تعاون سے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کا بڑا کردار تھا۔ پاکستان کے قیام کا مطالبہ بنیادی طور پر مسلمانوں کے اشرافیہ طبقے کی طرف سے تھا لیکن کچھ دوسرے طبقوں کو بھی الگ ملک کا خیال پرکشش معلوم ہوا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان بننے والے حصے بنیادی طور پر مسلم اکثریتی علاقے تھے، لیکن تقریباً اتنے ہی مسلمان ان علاقوں میں رہتے تھے جتنے ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے کا رجعتی قدم انہیں پسند نہیں آیا۔ وہ نہ تو پاک سرزمین پر رہنے کے خواہش مند تھے اور نہ ہی وہاں گئے۔ بعد ازاں مشرقی پاکستان ایک نیا ملک بن گیا یعنی بنگلہ دیش۔ اس سے یہ خیال ختم ہو گیا کہ مذہب کسی قوم کی بنیاد ہو سکتا ہے۔
جو مسلمان ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں، ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ جب ان کے لیے ایک الگ ملک بنایا گیا تھا تو وہ وہاں کیوں نہیں گئے اور یہ بھی کہ وہ پاکستان کے وفادار بھی تھے۔ ملک کی تقسیم کے بعد مسلم فرقہ پرست طاقتیں بہت کمزور ہوگئیں، لیکن اس کے باوجود وہ وقتاً فوقتاً ہندو فرقہ پرستوں کو آگ لگانے کے بہانے دیتی رہیں۔ آہستہ آہستہ اکثریت پسند کا غلبہ ہونے لگا اور 1996 میں وہ ملک میں اقتدار میں آنے میں کامیاب ہو گئی۔ پچھلے نو سالوں سے یہ قوتیں ہمارے ملک پر حکومت کر رہی ہیں۔
فرقہ وارانہ طاقتوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ایک نتیجہ اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ تھا، جس کے نتیجے میں اقلیتیں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی تھیں اور اپنے علاقوں تک محدود تھیں۔ ان محلوں کے گرد نفرت کی چاردیواری بنا دی گئی ہے۔ اس کے اندر رہنے والوں کے خلاف دھمکیاں یا تشدد عام اور قابل قبول ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے مکانوں پر چڑھتے بلڈوزور کچھ لوگوں کو تالیاں بجانے کی معقول وجہ لگتی ہیں۔ مسلم کمیونٹی پہلے ہی معاشی اور سماجی طور پر کمزور تھی۔ پسماندگی اور عدم تحفظ نے اس کی حالت مزید خراب کر دی ہے۔
ماضی میں اس ملک پر حکومت کرنے والی جماعت کو مسلمانوں کی بہتری کے لیے مثبت قدم نہ اٹھانے کے الزام سے بری نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ یہ جماعت جب بھی مسلمانوں کی بہتری کی بات کرتی تھی، فوراً اس پر خوشامد کی سیاست کرنے کا الزام لگا دیا جاتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر کوئی خوشنودی ہوئی ہے تو وہ مسلم کمیونٹی کے بنیاد پرست، قدامت پسند طبقوں کے سامنے جھکنے کی صورت میں ہوئی ہے۔ جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کی حالت مزید ابتر ہوگئی ہے۔ سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی حالت زار پر کافی روشنی ڈالی تھی لیکن ریاست نے ان طبقات کے لیے کچھ نہیں کیا کیونکہ کچھ بھی کرنے کا مطلب خوشامد اور ووٹ بینک کی سیاست کے الزامات کو دعوت دینا ہوتا تھا۔
اس مسئلہ کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد، اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ایک سادہ سا ریمارک کیا کہ ملک کے وسائل پر سب سے پہلا حق محروم طبقات (بشمول مسلمان) کا ہے۔ اس کے فوراً بعد شاکھائوں اور گوڈی میڈیا کے وسیع نیٹ ورک نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ ایسا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ جیسے منموہن سنگھ ملک کی ایک ایک پائی مسلمانوں کو دینا چاہتے ہیں۔ ان کی وضاحت کسی نے نہ سنی۔
انہوں نے بار بار کہا کہ ‘وسائل پر پہلا حق’ کا مطلب ان تمام پروگراموں کے لیے فنڈز مہیا کرنا ہے جو درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، دیگر پسماندہ طبقات، خواتین، بچوں اور اقلیتوں کی بہتری کے لیے چلائے جا رہے ہیں۔ ہندو قوم پرست سیاست اس قدر خوفناک اور اس کی پروپیگنڈہ مشینری اتنی طاقتور اور خطرناک ہو چکی تھی کہ سیکولرسٹ کانگریس بھی کم از کم رسمی طور پر اقلیتوں (مسلمانوں اور عیسائیوں) کے جائز حقوق کی بات تک نہیں کر سکتی تھی۔
آج مسلمانوں کا ایک حصہ کمیونٹی کی بنیاد پرست اور کٹر قیادت کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ مسلمانوں کی قیادت زیادہ تر مولانا ٹائپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو کنویں کے مینڈک سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ قیادت معاشرے کے اندر سے اصلاحات نہیں آنے دے رہی۔ مسلم رہنما جو ’’اعتدال پسند‘‘ اور سیکولر جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ان کا اپنی کمیونٹی میں محدود اثر و رسوخ ہے۔ تشدد اور نفرت کی سیاست سے عام مسلمان بری طرح ڈرے ہوئے ہیں۔ ان کے آباء و اجداد کی جانب سے مبینہ طور پر ہندوئوں پر ظلم کرنے کے لیے انہیں قصوروار ٹھہرایا جارہاہے۔
اس کے علاوہ امریکہ اور دیگر سامراجی طاقتوں کی طرف سے خام تیل کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوششیں اسامہ بن لادن جیسے عناصر کے ظہور کا باعث بنی ہیں اور اس نے مغربی میڈیا کو ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح گڑھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اسلامی دہشت گردی کے اس تصور نے لاتعداد نوجوان مسلمانوں کے کیریئر کو تباہ کر دیا ہے۔ محسن شیخ نامی آئی ٹی ورکر مارا گیا۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کے لیے مسلمانوں اور صرف مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے رجحان نے ہر مسلمان کو مجرم کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
جہاں سیکولر جمہوریت پر یقین رکھنے والے مسلم کمیونٹی کے کچھ رہنما سمجھداری کی بات کر رہے ہیں، وہیں مسلمانوں کی اکثریت قدامت پسند رہنماؤں کے زیر اثر ہے۔ کچھ ترقی پسند مسلم خواتین نے تین طلاق، برقعہ اور تعدد ازدواج وغیرہ کے خلاف آواز اٹھائی۔ لیکن انہیں ہندو اکثریت پسند سیاست سے زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل ہوئی۔ اس سیاست کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا واحد مقصد مسلم خواتین کی بھلائی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہی طاقتوں نے ایسے حالات پیدا کیے جس کی وجہ سے مسلم خواتین کو شاہین باغ جیسی تحریکیں منظم کرنی پڑیں تاکہ انہیں اپنے حقوق مل سکیں اور انہیں حراستی کیمپوں میں دن نہ گزارنے پڑیں۔
سیکولر پارٹیوں کی نااہلی کی وجہ سے مسلمانوں کا ایک طبقہ سنگھ-بی جے پی میں شامل ہو سکتا ہے۔ سنگھ مسلمانوں کے ایک طبقے، خاص طور پر پسماندہ، بوہرہ اور صوفیاء کو جیتنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ آر ایس ایس کے پرچارک اندریش کمار کی رہنمائی میں راشٹریہ مسلم منچ مسلمانوں کو ہندو راشٹر کی سیاست سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حال ہی میں نریندر مودی مسلمانوں کے سب سے خوشحال طبقہ بوہروں کی ایک کانفرنس میں پہنچے جہاں انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے درمیان آئے ہیں۔ ایک طرف مونو مانیسر جیسے لوگ مسلمانوں کو زندہ جلا رہے ہیں اور دوسری طرف آر ایس ایس کے سربراہ ایس وائی قریشی اور دیگر ممتاز مسلمان وفد کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ یہ کمال صرف کئی منہ والی آر ایس ایس جیسی تنظیم ہی کر سکتی ہے۔
مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ کس سمت جانا ہے؟ سب سے پہلے انہیں سمجھنا چاہیے کہ دوسری پارٹیوں کی اپنی کمزوریاں ہو سکتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ‘ہندو راشٹر’ بنانے کی بات نہیں کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان سیاسی قوتوں کا ساتھ دینا بہتر ہوگا جو اپنے ظالموں کے سامنے جھکنے کے بجائے آئین ہند میں درج اقدار کی پابند ہوں۔ ایسی طاقتوں اور ایسی جماعتوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ مولانا آزاد اور مہاتما گاندھی کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰