سیاستمضامین

موجودہ مشکل حالات میںملت کا لائحہ عمل

مسلم ملت کی بابت بھگوائی رویہ اور منو واد فسطائی فلسفہ تو ایسا ہی ہے جیسے گھر کے مالک کودوسرا کوئی خود اپنا تعارف دینے کی بجائے مسلم مالک مکان ہی سے اس کی تاریخ وَجغرافیہ کاحساب کتاب لینے بیٹھ جائے۔بات اتنی ہی ہوتی تو تجاہل عارفانہ سے کام لیا جاسکتا تھا یا سادہ لوح کو سمجھایا جاسکتا تھا لیکن معاملہ یہ ہے کہ ملکیت خانہ ہی خطرہ میں غرق کردی جارہی ہے ؛جینے بسنے پر ہی بس نہیں بلکہ کھلی سانس لینے پر جبر جیسی سنسکرتی کا منحوس سایہ سا محسوس ہوتا ہے۔اور جلّاد کا نیتی آیوگ یہی درشاتا ہے کہ وہ خود ہی منصف بھی بنا بیٹھا ہے اور سنوائی وَ کاروائی سے پہلے نہ صرف فیصلہ سنادینا چاہتاہے ۔

ظفر عاقل

کم و بیش ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں اس درجہ وَ نوعیت کے حالات سے ملت مرحوم کوکبھی سابقہ پڑا نہیں ہے جس سے وہ آج گزر رہی ہے۔دنیا بھر میں زور آزمائی اور کٹھنائیوں سے نکلنے کے لیے عام طور پرماضی میں زورِ بازو اور میدان انجام اور فیصلے تک پہنچادیتے تھے اور ملت توماضی میں حکمرانی کے اعتبار سے بہتر مقام پر فائز تھی۔نئے طرزکے سیاسی‘ سماجی‘ تمدنی دَور اور مملکتوںمیںزور بازو اور میدانی مبازرتی ہنر و ہتیار کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے یا کردیا گیا ہے اور اس کو اب پسندیدہ نظروں سے نہیںدیکھا جاتا ہے۔بلکہ مملوکانہ صورتحال اور مغلوبانہ طرز جو ملت کا مزاج و وَطیرہ بن چکا ہے اور جس کی باضابطہ سعی کی جارہی ہے۔موجودہ سیاسی پس منظرمیں بالخصوص نری سوڈا واٹر منفی جذباتیت اورہنر و ہتیار انجام اور نتائج کے اعتبار سے نقصان دہ ہوتے ہیں اور آخر کاراجتماعی بزدلی اور پست ہمتی پر منتج ہوتے ہیں۔ چنانچہ عمومی حالات اور تہذیب و تمدن نیز سماج و سوسائٹی اورسب سے اہم۔۔۔آفاقی اُصول و ضوابط۔۔۔ جب تک عام اجازت نہیں دیتے حکمت یہی ہے کہ نہ اس راستے پر عمل کیا جائے اور نہ ہی سر پھری(چائے کی پیالی میں طوفان والی) جذباتیت کے ہاتھوں کھلواڑ بنا جائے یا آوارہ فکر کے دستِ بے بہبود کے دامن میںملت کی باگ ڈور ڈالی جائے۔تاہم ٹہریے کہ۔۔۔ اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ دوں ہمتی ‘پستی اور بزدلی کے بچھونے کو مقدر بنا لیا جائے ۔دوسری جانب صحت و حالات(اور قوی بہ مقابلہ کمزورمومن۔۔۔کے قول تقدس) کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ذاتی اعتبار سے۔۔۔جوان بچہ بوڑھا۔۔۔ ہر آدمی وہ کام ضرور کرے جس سے صحت چست مستحکم و مضبوط بنی رہے اورسوچ وَ خیالات قوی تر اور اولوالعزمی مضبوط تر ہو یعنی چستی وَ دانائی وَتوانائی کے سارے ہی میدان سے ایک بندہ مومن و مسلم اپنی صفاتی گہری وابستگی ضروررکھے۔کیونکہ مستقبل کا بھڑکاؤ بھگوالائحہ عمل آپ کو انفرادی و اجتماعی طور پر اس سے دُو بدو کر دیگا۔
ملک کی گنگا جمنی متنوع ہمہ مذہبی و تمدنی رنگ و َ روغن پر یک رنگی بھگوائی جنون نہ صرف دستور کی حقیقی روح کے مغائیر ہے بلکہ اس کی وجہ سے ملک میں مذہبی باہمی منافرت‘تنگ نظری‘تنگ دِلی‘عدم برداشت‘تفریق و تفرقہ پسندی اور ظلم و زیادتی نیز جبر و تشدد اورانسانی ہلاکتوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے؛حتیٰ کہ بالخصوص مسلم اقلیت کے علاوہ پسماندہ اقوام پر مآب لنچنگ رک نہیں رہی ہے۔علاوہ ازیں سرکاری سطح پر نشان زد اقلیتوں کے گھر بار اور اثاثہ جات اور کھانے کمانے کے وسائل پر بلڈوزری ضرب کاری کا چلن عام ہوتا جارہا ہے۔اس غرور اور زعم غلط کی وجہ مرکز و ریاستوں میںملی انتخابی کامیابیوں کے علاوہ قانون ساز ایوانوں میں ملی مہلک اور غیر مفید اکثریت ہے ۔عوام پر طاری کیے گئے نظریاتی سحر وَجنون اوراپوزیشن سے بے اعتمادی کی فریبی فضاء ‘بکاؤ اور لفافی میڈیا کی کارکردگی اور ایجنسیوں کے غلط استعمال کے علاوہ اور بڑھ کر خاص طور پر مسلم و اسلام منافرت کی وجہ سے جس کا حصول ممکن ہوسکا ہے۔
مسلم ملت کی بابت بھگوائی رویہ اور منو واد فسطائی فلسفہ تو ایسا ہی ہے جیسے گھر کے مالک کودوسرا کوئی خود اپنا تعارف دینے کی بجائے مسلم مالک مکان ہی سے اس کی تاریخ وَجغرافیہ کاحساب کتاب لینے بیٹھ جائے۔بات اتنی ہی ہوتی تو تجاہل عارفانہ سے کام لیا جاسکتا تھا یا سادہ لوح کو سمجھایا جاسکتا تھا لیکن معاملہ یہ ہے کہ ملکیت خانہ ہی خطرہ میں غرق کردی جارہی ہے ؛جینے بسنے پر ہی بس نہیں بلکہ کھلی سانس لینے پر جبر جیسی سنسکرتی کا منحوس سایہ سا محسوس ہوتا ہے۔اور جلّاد کا نیتی آیوگ یہی درشاتا ہے کہ وہ خود ہی منصف بھی بنا بیٹھا ہے اور سنوائی وَ کاروائی سے پہلے نہ صرف فیصلہ سنادینا چاہتاہے ۔۔۔ بلکہ کام تمام کرنے کا تہیہ کر بیٹھا ہے۔دوسری جانب نقارخانے کے سارے طوطے اور طیور منہ پھیرے ‘منہ کو سی کر بھی بیٹھے ہیں کہ گر چُوں بھی کی تو خود کہیں زد میں نہ آجائیں ۔خوف وَدہشت کا یہ نرالا عالم ہمارے مہان دیش کے لیے بالکل ہی نیا ہے اور ایسی سونامی(Tsunami) اس دیس میں دوہزار سال قبل لائی گئی تھی جب بدھ مت کے متوالوں کا دیس نکالا ہوا تھا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تاریخ اب بھی اس ملک کا جغرافیہ بدلنے کی سکت رکھتی ہے؛اور مسلم و اسلام کے مقابلے میںکوئی زاعفران زار ہونے کی سکت و طاقت بھی رکھتا ہے۔اس کے برعکس وہ خود تو برباد ہوگا ہی لیکن کیاوہ دیس کو بھی بدنام وَبرباد کرکے ہی دم لے گا۔
موجودہ سیاسی اقتدار کی شتر مرغ چال چلن وَانکار کے علی الرغم۔۔۔ملک کی صورتحال انسانی برادری(داخلی اور خارجی) میںگہری تشویش کا باعث بن کر ملک کوبدنامی کے جوہڑمیں جھونک رہی ہے۔علاوہ ازیں دیس کا معاشی وَ معنوی نیز اقتصادی وَ تمدنی بربادی کا سامان بھی کررہی ہے۔حقیقی دیس پریمیوں کے لیے یہ ایک اندوہناک المیہ ‘بے چینی وَبیقراری اورتشویش کا باعث ہے۔دوپہر کے کھلے آسمانی دھوپ کی مانند اب یہ عیاں ہے کہ۔۔۔Voters کی کنبھ کرن نیند کی اصل وجہ دیس کا لفافی میڈیا ہے جو اِن حالات کے پیدا کرنے کا مددگار اور بگاڑ کا اصل مجرم ہے؛بکاؤ اور زر خرید میڈیا پر لگام کسنے اوراس کے مقصدی مقام پر واپس لانے کا آخری ہتیار صرف عدلیہ رہ گیا ہے۔چنانچہ نظام عدل کے مرد میدان بنے بغیرمیڈیا ہی نہیں بلکہ ملک بھرکی بھلائی کٹھن اور مشکل ہے؛ان نازک فیصلہ کن کوائف میںعدلیہ کو دیس بچانے یا تباہی کو راہ دینے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہی ہوگا۔
شعبہ حیات کی (بہ استثناء)تمام ہی ملّی قیادتیں جن میںیک گونہ مذہبی طبقہ وَجماعتیں اور اجتماعی ہیّتیں بھی شامل ہیں ملک کی موجودہ پیچیدہ نازک و مہلک صورتحال میں حقیقی رہنمائی وَرہبری سے عاجز سی محسوس ہوتی ہیں۔ملک کی قدیم مذہبی و ملّی و دینی تنظیم جس کی قیادتی سر پھٹول۔۔۔ سر سے شروع ہوکر تو پاؤں تک پہنچی ‘بلکہ اوّل تا آخردو پھاڑ بن چکی ہے اورشرمناک تمسخر یہ بھی کہ اس باہمی تفریق و تفرقہ اورمناقشہ و مجادلہ کو بھونڈی تاویلی دلائل سے بیوٹی پارلر پروڈکٹ بنانے کی کسرت میں جٹی ہوئی ہے۔حقِ ملت حالانکہ یہ ہے کہ ملت کی قیادتیں اپنا حق قیادت ادا کریں اور عنداللہ و النّاس بری الذمہ ہوں ۔لیکن ان کے تنظیمی علمبرداروں کے بیانات کو ملاحظہ کریں تو ان کی فکر و نظر اورپرچمِ عمل وَاکتساب میں سبزکے ساتھ( دیگر مسلم مخالف رنگوںکی) سبزی کا المناک امتزاج بوجہ علانیہ محسوس ہوتا ہے۔اور رنگوں کا یہ امتزاجی کھیل ملت کے کھلواڑ کا سبب بنے گا‘اور بن رہا ہے؛ کیونکہ سبزی وَگوشت خوری کی چاہ وَچلن سے ملت مرحوم عموماً اور ان کے آنکھ بردار اندھے متبعین کے فکر و عمل پر گہری چوٹ لگتی ہے؛ نیزدوعملی اور مفاد و مادیت پسندی۔۔۔آخری پائیدان تک پیدا کرتی ہے(قول عام ہے کہ جیسی روح ہوتی ہے ویسے فرشتے)۔
بلکہ قیادت کا یہ بحرانی فکر و عمل ملت کو شاہرہ غلط پر ہی نہیں ڈالتا ہے بلکہ ان کے افکار و خیالات‘عادت و اطوار اور ہمت و جرأت ومردانگی پر گہری مہلک چوٹ لگاتا ہے۔ملت کی قیادتوں کو شاید سنت یوسفی کی اتباع کا خوف زندہ رہتے مار دے رہا ہے۔سیاسی میدان کے سالار و سپہ سالاروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ مرد میان ومفکربن کر ملت کی رہبری و نمائندگی کرتے اور مدّمقابل کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوتے؛اس کے برعکس وہ ڈنڈوت کی ضمیر فروشی ( سر دست عملاًنہ سہی)۔۔۔کے ہول سیلر تو بن ہی چکے ہیں(حالانکہ ہاتھ جوڑ کر مورتیوں کے سامنے کھڑا ہونے کی سیکولری وہ شروع کرچکے ہیں)۔اس گھنگھور گھٹا ٹوپ میں بھی۔۔۔ ملت کو پست ہمت ہوئے بغیر یاد رکھنا چاہیے کہ تاریک تراور ہولناک حالات میں بھی خدائے قاہر وَذوالجلال کی ذات گرامی ایمان و ایقان برداروں کے ساتھ ہوتی ہے اور ہوتی رہی ہے۔چنانچہ اس عزیز و موجود ذات گرامی سے وابستگی۔۔۔ اور اُس کے کلام ہدایات اُخروی سے اخذ وَاکتساب ۔۔۔اورہادی وَرہبر و سرورخاتم الرسل کی اتباع وَ اطاعت میں سارے ہی مسائل و مشکلات و موانعات کا حل موجود ہے۔
ملتِ آفاقی کے مخمل میں چھوٹے بڑے پیوندممکن ہے کہ موقتی چمتکار کے جگنو جگمگادیں لیکن یہ کوئی مؤثروَمفید اور کامیاب وَکُلّی حل نہیں ہے؛اور نہ ہوسکتا ہے۔اور اصلاًاسی نکتہ سہل کو سمجھنے کی اشد ضرورت ایں تا آں قد کوہے۔قدرت کے عطا کردہ دو محفوظ خزینے جس ملت کی زنبیل حیات بخش میں تا روز آخر رکھ دیے گئے ہوں اور اس کے ذمہ دار اور استفادہ کنندگان غافل اور(عملاً)بیزار بیٹھے ہوں تو اس سے سوا جرم قیادت وَ شہادت(ابلاغ و گواہی) اورکیا ہوسکتا ہے۔روز محشر یقینا عیاں ہوگا کہ اس مجرمانہ فعل بد کا انجام بد تر کیاہوسکتا ہے۔چنانچہ آج نہ سہی کل سہی یا موجودہ ملت و قیادت کو نہ سہی مستقبل کے شہ پاروں کو اس کعبہ مقصود کا طواف اور منصب طواف و سعی و قیام کی طرف مائل ہونا ہی ہوگا۔اور وہ یہی کہ جس کار عظیم(دین فطرت کا ابلاغ و شہادت و قیام) کو دے کر خالق کے منتخب پیغام بر مخلوق کی جانب فائز کار کیے جاتے تھے۔۔۔اوراِسی کی جانب اِسی طرح کے پُر آشوب ماحول اور سنگین و مہلک فضا ء میں(جو اصلاًزرخیز ہوتے ہیں) ہانکے پکارے دعوت دیتے رہناہے اور اسی سے راہیں کشادہ ہوتی ہیں‘ مسائل حل ہوتے ہیں‘ اور بلندیاں و رفعت عطا ہوتی ہے۔واضح ہو کہ اجتماعی نقصان کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے اوربر بنائے حکمت گنے چنے چند ایک مہلک واقعات سے بھی مقامات رفعت و شہادت ہی عطا کرنا مقصود ہوتا ہے۔اس کے علی الرغم مقصد حیات کو بھلا کر دنیا ہی میں غرق ہو جانے سے جو مادّی وَمعنوی وَعددی نقصان نیزجان و مال اور عزت و آبرو کا بے حد وحساب خسارہ و گھاٹا مقدر ہوجاتا ہے یا کردیا جاتا ہے۔بلکہ یورش تارتارہندی کے فسانے سے جزوی طور پر ناممکن نہیں کہ ضُرِبَتْ کی ضرب کاری کا شکار ہم خود ہوجائیں۔۔۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ کعبہ کو پاسباں صنم خانہ ہندستاں سے مل جائیں۔
ذمہ داریوں (انفرادی وَاجتماعی)کو جاننے اور سمجھنے کے بعد۔۔۔} بنیادی طور پر اس کاز کے لیے کمر ہمت باندھ لینا اور اُٹھ کھڑے ہونا لازمی ہوجاتا ہے؛۔۔۔}تاکہ دونوں جہانوں کی بہترین کی بشارتیںعام کی جائیں اوربدی کے انجام بد سے آگاہ کیاجائے۔یہ نکتہ ہر کسے کی واقفیت کے لیے اہم ترین ہے کہ۔۔ماننا یا انکار کردینا دنیا اور مدعو(جس کو دعوت دی جائے)کی ذمہ داری ہے۔۔۔چنانچہ کسی کی زور زبردستی کسی کے درمیان نہ آئے (چاہے فرد ہویا کسی طرح کی بھی اجتماعیت)اور نہ ہی لالچ یا حرص و تحریص؛کیونکہ یہ نہ صرف انسانیت و اخلاقیات کے مغائر ہے بلکہ اس میں خالق کی مرضی بھی شامل نہیں ہوتی ہے۔انذار و تبشیر کے بعد۔۔۔}ایک اور اہم مستقل کام جھوٹے مدعیانِ قوت وَاقتدار کے بالمقابل اصل و حقیقی صاحب اختیار وَاقتدار کی بڑھائی واضح طور پر بیان کرنا ہوتا ہے۔چنانچہ تکبیر خداوندی ہمیشہ ہی سے دین صحیح کا شعار رہا ہے۔۔۔۔}اورچوتھے کام کا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے متعلق ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ظاہری رکھ رکھاؤ اور پہناوے نیز معیار رہن سہن بلکہ اپنے اخلاق وَنظریہ‘ سوچ وَفکر اور طرز عمل کو انتہائی پاک و صاف‘دنیاوی مفادات سے پرے بے لوث رکھنے کی سعی کرے۔ماضی میں اس راہ َپُر عظمت کے راہ گیر دنیا وی آسائشوں پر دسترس کے باوجودپاک و صاف ظاہری و معنوی زندگی کو ترجیح دی ہے۔۔۔۔}(اس کا مطلب دنیا تج دینا نہیں ہے بلکہ وہ تو رہبانیت نا مطلوب ہے)تبھی تو لہلاتی ہوئی فصل نظر نواز ہوئی ہے اور صرف برصغیر ہی میں نہیں بلکہ چار دانگ عالم اس کا خوشہ چیں رہا ہے۔۔۔۔}اس مطلوب فکر و کردار کے برعکس ہمارے موجودہ ماہ و سال و صدیوں کا موازنہ وَ تخمینہ اسی بیانیہ سے مبسوط رہا ہے کہ ملت خلقت کو بھول کر اپنے ہی دکھ درد اور مسائل و وَسائل کا رونا روتی رہی ہے؛جب کہ دنیا کی موجودہ ساری ترقیوں‘سہولتوں اور ایجادات و اختراعات پر اوروں کی کرم فرمائی اور اجارہ داری رہی ہے اور ملت غفلت کی شکار قصر صفر(Zero)میں محو خرام ہڈحرام بنی رہی ہے۔
چنانچہ(‏ قُمْ فَأَنذِرْ Oوَرَبَّكَ فَكَبِّرْOوَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ )کاتقاضہ ہے کہ ملت کی قیادتیں امت مرحوم کو ۔۔۔٭اولاً اپنے مقصد وجود کی طرف موڑیں ۔۔۔٭امت کی کردار سازی کی فکراور رہنمائی کریں۔۔۔٭ صلاحیتوں کی پرورش کے علاوہ مفید و مثبت استعمال کی طرف مائل کریں۔اس کے علاوہ۔۔۔٭فرمانروائے عالم اور اس کے اوصاف و صفات عالیہ و َکاملہ پر مکمل بھروسہ(توکل)‘ ایمان کامل اور یقین راسخ پیداوَمضبوط کرنے کی سعی مسلسل کریں تاکہ ملت جامِ استقامت سے لبریز ہو کر ماسوا سے بیزار ہوجائے۔نیز۔۔۔٭خالقِ کون ومکاں کی عطا کردہ طرز زندگی(Deen,..Way of Life)سے گہری وَاٹوٹ وابستگی کا حاصل یہ ہو کہ وہ اس پر عامل و راضی ہو کر ۔۔۔٭اس کی طرف لوگوں کو ہانکے پکارے دعوت دے اور اس میں کوئی عار یا شرم یا ندامت محسوس نہ کرے؛بلکہ فخر و انبساط محسوس کرے۔تاہم ان امور مذکورہ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ملت اپنی بنیادی ضرورتوں اوردنیوی مسائل و حالات سے تہی دست ہوجائے۔۔۔بلکہ ایک سچی اور حقیقی مخلوق کے ناطے یہ ایک مطلوب اہم لیکن مقابلتاً ثانوی (Second)درجہ کا کام ہے؛ جس کی راہیں اصلاً اول درجہ کو ادا کرنے سے کشادہ اور سہل ہوجاتی ہیں۔لیکن یہ دونوں امور و مطلوب کام صبر آزما اور تھوڑے سے مشکل ضرور ہیں لیکن دائمی حل اور نصرت سے زیادہ قربت وَچاہت وَرضائے رب سے منسلک بھی ہیں۔
فکری وَنظری اُمور کے بعد بنیادی وَعملی طور پرگاؤں محلہ اور وارڈبلاک کو بنیاد بنایا جائے تاکہ ابتدائی حقیقی مخلص اور غیر بکاؤ قیادت اُبھاری بھی جائے اور اس کی مناسب تربیت بھی ہو۔چنانچہ آگے ان ابتدائی بنیاد کے مضبوط و مستحکم بنیاد کے پتھروں پرملّی اجتماعیت کی بڑی عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے۔یاد رہے کہ اس ابتدائی Cellکی تشکیل و تربیت کے بغیر ملت کی جراحت و صحت اور بھلائی کا خواب نامکمل ہوگا۔یہی بظاہر چھوٹی اجتماعیتیں مل کر ایک مضبوط قوت نظر بھی آئیں گی اور بڑے کینوس پر پھیلائی بھی جاسکیں گی نیز اتحاد ملت کا دیرینہ خواب بھی شرمندہ تعبیر بھی ہوگا۔اس بنیادی اجتماعیت کمیٹی یا سیل کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ متعلقہ محلہ یونٹ اور بستی و گاؤں میں٭حقیقی دین وعلمی شعور کے فروغ کے لیے متحرک رہیں٭بھلائیوں کے فروغ اور برائیوںکے خاتمہ کے لیے کام کریں٭لوگ باگ کی خدمت کا بار سنبھالیں ٭امن و امان اور تحفظ ملت کو یقینی بنانے میں مددگار بنیں٭اور ناگہانی صورتحال میں متحد ہو کر مقابلہ سر انجام دینے میں معاونت کریں٭نیز پُر تشدد اور غیر آئینی طرز سے پرہیز کریں٭انسانی برادری میں میل محبت کو بڑھاوا دے کراجتماعی وطن دوست فضا کو ہموار کریں٭غلط فہمیوںکا سدّباب کرنے میں اپنا رول ادا کریں٭چنانچہ راقم سطور نے بار ہا اس کا بار پُر وَقارملت کے باشعور و باضمیر‘حساس وَغیور‘صاحب فہم وَذکا پر رکھا ہے کہ وہ اس طرح کی بنیادی اکائیوں کی تشکیل کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت کر بڑے مجرم نہ کہلائے جائیں۔اس لیے وقت کا تقاضہ ہے کہ وہ اس طرح کی پہل کرنے کی پہل کریں۔
فرد وَاجتماعیت پر لازم ہوگا کہ وہ٭ اپنے متعلقہ زون اور ایریا کی تمام آبادی سے روابط قائم کریں٭ بلا لحاظ مسلک و جماعت ملت کے تمام ہی علماء و مشائخین اور دانشور وَخطیب اور بااثر افراد وغیرہ کواس اہم بنیادی کام کا حصہ بنائیں٭تحریری مواد کتب و رسائل اور لٹریچر و پمفلٹ گھر گھر تک پہنچائیں٭خطبات جمعہ کا مؤثر استعمال ہو اور مقاصد مذکورہ کو بنیاد بناکر واعظ و تلقین کا اہتمام کیا جائے٭نیوز پیپرس میڈیااور صحافیوں کی حمایت حاصل کریں٭اصحاب ثروت کی حمایت اور توجہہ سے عملی رکاوٹیں دور کرنے کااہتمام ہو٭کوئی کام خفیہ اور ڈھکا چھپا نہ کیا جائے نیزسرکاری مشنری کی اگر غلط فہمیاں ہو تو مؤثر طریقے سے دور کریں٭اور یہ بھی بہت ہی اہم ہوگا کہ ملت کی اجتماعی تائیدی رائے مثبت و ہموار ہونیز٭سیاسی قدغنیں بھی راہ کا روڑا نہ بننے پائیں وغیرہ
آخری نکتہ یاد رہے کہ ہر ابتداء آسان نہیں ہوتی ہے ؛اوپری و ابتدائی سطح سخت اور کٹھنائیوں کی ہمجولی وَ سہیلی ہوتی ہے لیکن جہد مسلسل اور نیت خالص اخیر کار نرم میٹھے مطلوب گودے اور گوہر مقصود کو گود طالب میں ڈال ہی دیتی ہے۔السعی منّی والاتمام من اللہ ۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰