سوشیل میڈیامضامین

نویں جماعت میں شادی، اکتیس برس بعد کاروبار

یہ آج سے اکتیس برس پہلے بات ہے جب رونق جہاں کی عمر 15 برس تھی اور وہ نویں جماعت کی طالبہ تھی۔ رونق جہاں کولکتہ کے علاقے ہائوڑہ کی رہنے والی تھی۔ شہر کا یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر رہائش پذیر لوگوں کی اکثریت معمولی کاروبار کرنے ہفتہ واری مارکیٹ چلایا کرتے تھے۔

محمد مصطفی علی سروری

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

یہ آج سے اکتیس برس پہلے بات ہے جب رونق جہاں کی عمر 15 برس تھی اور وہ نویں جماعت کی طالبہ تھی۔ رونق جہاں کولکتہ کے علاقے ہائوڑہ کی رہنے والی تھی۔ شہر کا یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر رہائش پذیر لوگوں کی اکثریت معمولی کاروبار کرنے ہفتہ واری مارکیٹ چلایا کرتے تھے۔ جیسا کہ غریب گھروں کی روایت رہتی ہے اسی کی پاسداری کرتے ہوئے رونق کے والدین نے بھی نویں جماعت میں زیر تعلیم اپنی بیٹی کی 1992ء میں شادی کروادی۔ رشتہ اچھا تھا، رونق کا شوہر انشورنس ایجنٹ تھا۔ یوں رونق کی تعلیم منقطع ہوگئی اور وہ اپنے شوہر کے گھر آکر نئی زندگی شروع کرنے میں مصروف ہوگئی۔

رونق کی تین اولادیں ہوگئیں لیکن وہ ہمیشہ سوچتی رہتی تھی کہ مہنگائی کے اس دور میں گھر کا سارا خرچ اٹھانے دن رات شوہر ہی محنت کرے لیکن وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ بچے چھوٹے تھے اور تعلیم بھی ایسی کوئی خاص نہیں کہ وہ نوکری کرسکے۔

رونق اپنے اطراف و اکناف کے ماحول میں دیکھتی تھی کہ لوگ محنت کرتے ہیں۔ کاروبار کرتے ہیں تو اس نے بھی سوچا کہ وہ بھی کاروبار کرے۔ اس کو خیال آیا کہ وہ ریڈی میڈ کپڑوں کی خرید و فروخت کرے۔ اس نے سوچا کہ ہفتہ واری بازار میں اپنی دوکان لگاکر وہ خواتین کے لیے Leggings بیچے لیکن معلومات کرنے پر رونق کو پتہ چلا کہ اس میں زیادہ منافع نہیں ہے۔ شروع میں رونق نے دوسری جگہ سے لیگنگس خرید کر اس کو اپنے طو ر پر بیچنا کا تجربہ کیا لیکن وہ کامیاب تجربہ ثابت نہیں ہوا۔

عالمی یومِ خواتین کے حوالے سے کولکتہ کے انگریزی اخبار ٹیلی گراف نے 8؍ مارچ 2023ء کو ایک خصوصی فیچر شائع کیا جس میں رونق جہاں کا انٹرویو شامل ہے۔ اپنے انٹرویو میں اس خاتون نے بتلایا کہ کچھ کمانے کا جذبہ تو اس کے پاس شروع سے ہی تھا۔ اس نے اپنے شوہر اور خاندان والوں سے مشورہ کیا۔ تب اس خاتون کو پتہ چلا کہ دوسرے سے کپڑے خرید کر بیچنے سے کپڑے سلوائی کرنے کا خود کا کارخانہ شروع کرنا بہتر راستہ ہے۔

اپنی شادی کے 18 برس بعد سال 2010ء میں رونق نے اپنے خوابوں کو عملی شکل دینے کی سمت قدم اٹھایا اور Sumangla لیگنگس کے نام سے چار کاریگروں کو لے کر کپڑے اپنے طور پر تیار کرنے شروع کیے۔ اپنی بات چیت کے دوران رونق نے بتلایا کہ اپنا یونٹ، اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے میرے پاس رقم نہیں تھی۔ میں نے قرضہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ کپڑوں کی تیاری کے لیے درکار مٹیریل خرید سکوں۔ خام مال خرید کر میں نے کپڑوں کی سلائی کا کام دوسروں کو دیا ۔ میرے ریڈی میڈ کپڑوں کی کوالٹی کچھ بہت اچھی نہیں تھی کیونکہ میں نے جو کپڑا خریدا تھا وہ معمولی تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ لیگنگس خرید رہے تھے ان کی شکایت تھی کہ کپڑا جلد ہی پھٹ رہا تھا۔

دو ایک مرتبہ دھونے کے بعد کپڑے ناقابل استعمال ہوجارہے تھے۔ نتیجے میں جو لوگ ایک مرتبہ کپڑے خرید رہے تھے وہ دوبارہ واپس نہیں آرہے تھے۔ کپڑے فروخت کرنے اسٹاک تو تھا مگر خریدار نہیں ۔ ایسے میں رونق نے فیصلہ کیا کہ نہیں۔ مجھے کاروباری دنیا میں رہنا ہے اور کمانا ہے تو کپڑں کا معیاری خام مال خریدنا ہوگا۔ رونق نے زائد پیسے خرچ کر کے اعلیٰ، معیاری کوالٹی کپڑا خریدا۔ جلد ہی اس کا نتیجہ بھی سامنے آیا۔ لوگ اب واپس رونق سے لیگنگس خریدنے آنے لگے۔

وقت گذرتا گیا۔ رونق اپنے شوہر کے تعاون سے اپنے کاروبار کو بڑھاتی گئی۔ اب رونق کپڑوں کا سارا یونٹ اپنی ہی نگرانی میں چلانے لگی۔ کولکتہ کے علاقہ بانکرا میں رونق کی فیکٹری میں کپڑوں کی کٹوائی، سلوائی اور پھر دوکانات تک بھیجنے کا سارا کام ایک ہی جگہ ہونے لگا۔ اخبار ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق رونق کی ورکشاپ میں آج دس لوگ کام کرتے ہیں۔

اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رونق نے اخباری نمائندے کو بتلایا کہ آج میں خود کام نہیں کرتی ہوں بلکہ سارے کاموں کی نگرانی کرتی ہوں اور بطور باس اپنا رول نبھارہی ہوں۔

Sumangla برانڈ لیگنگس کی قیمت 90 روپیوں سے لے کر 350 روپئے تک ہے۔ جو مقامی کپڑوں کی دوکانات اور بازار میں فروخت ہو رہے ہیں۔

ایک روایاتی قدامت پرست خاندان سے تعلق رکھنے والی رونق جہاں کے لیے کیا اتنا سب کر گذرنا آسان تھا اس سوال پر رونق نے بتلایا کہ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ میرا تعلق ایسے گھرانے اور ماحول سے ہے جہاں پر خواتین کو زیادہ آزادی حاصل نہیں ہے۔ حالانکہ میرے کاروباری سفر کو آسان بنانے میں میرے گھر اور خاندان والوں کا تعاون حاصل رہا لیکن میرے اطراف و اکناف کے لوگ ہمیشہ اعتراض کرتے تھے کہ عورت کو اتنی آزادی نہیں دینی چاہیے۔ عورت کا اصل مقام تو اس کا گھر ہوتا ہے۔ رونق نے اس حوالے سے کہا کہ میرا یہ کہنا تھا کہ عورت جب دوسرے سب کام کرسکتی ہے تو اپنے گھر کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کاروبار کیوں نہیں کرسکتی۔ دوسری طرف میں اپنے گھر کی ذمہ داریوں کو بھی پورا کر رہی ہوں۔

قارئین آج رونق جہاں کو اس کے کاروبار میں مدد کرنے اس کے دو لڑکے بڑا لڑکا 29 برس کا اور دوسرا لڑکا 24 سال کا اس کے ساتھ موجود ہیں۔ رونق نے اگرچہ نویں کے بعد آگے کی تعلیم جاری نہیں رکھ سکی لیکن اپنی 19 سالہ لڑکی کو کالج کی تعلیم کے لیے بھجواتے ہوئے وہ بڑی خوشی محسوس کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری سب سے پہلی خواہش یہ تھی کہ میں اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم کے اسکول سے پڑھا سکوں اور جیسے ہی مجھے کاروبار سے آمدنی ہونے لگی میں نے اپنے تینوں بچوں کو گھر کے قریبی انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ دلوایا تھا۔

عمر کے 46 برس پورے کرنے والی رونق جہاں کے اندر خود اعتمادی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ وہ اپنے مستقبل کے منصوبوں کے متعلق بتلاتی ہیں کہ میں اپنی فیکٹری میں اور بھی سیونگ مشین خریدنا چاہتی ہوں ۔ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے میں نے حال ہی میں بینک سے قرضہ لیا ہے۔ اس کی مدد سے وہ اپنے پراڈکٹس کی کوالٹی کو مزید بہتر بنانا چاہتی ہیں۔ اپنے کاروبار کی کامیابی کے متعلق رونق کا کہنا ہے کہ کاروبار میں معیاری مال کی ہی اہمیت ہے۔ تو میں اپنے کاروبار میں معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے توجہ مرکوز کر رکھی ہوں۔

رونق کے مطابق موجودہ دور میں جس طرح کے اخراجات مسائل اور ضروریات نے اپنے پائوں پسار لیے ہیں اس پس منظر میں عورتوں کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ خود مکتفی بنیں۔ بلکہ اپنی مدد آپ کرتے ہوئے خود کو عزت دینا سیکھیں تاکہ زمانے سے بھی کچھ توقع کی جاسکے۔

قارئین کولکتہ کے علاقے ہائوڑہ کی رونق جہاں نے اپنی زندگی کی جدو جہد سے ثابت کیا ہے کہ اگر خاتون چاہے تو وہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی مدد کرسکتی ہے اور اپنا خود کا کاروبار شروع کرسکتی ہے۔ کوئی چیز چھوٹی نہیں ہوتی ہے۔

خواتین کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں یہ بات مشہور کردی گئی ہے کہ یہ لوگ خرچ کرنے کے معاملے میں پیش پیش ہوتی ہیں اور انہیں اسی کام میں دلچسپی ہوتی ہے۔ لیکن رونق جہاں نے محنت کر کے ثابت کیا کہ شادی چاہے کم عمری میں کردی جائے، تعلیم سے ناطہ ٹوٹ جائے۔ ایک خاتون اگر مصمم ارادہ کرلے تو وہ آگے بڑھ سکتی ہے اور اپنی، اپنے بچوں اور گھر والوں کی مدد کرسکتی ہے۔

مسلم معاشرے میں جہاں کئی مسائل سنگین سے سنگین تر شکل اختیار کرتے جارہے ہیں اسی میں ایک مسئلہ مسلمانوں کی خراب معاشی حالات کا ہے کہ گھر میں کمانے والا ایک فرد ہوتا ہے اور اخراجات بہت زیادہ۔ ایسے میں معاشی دبائو کے سبب کئی مرد حضرات کی جانب سے انتہائی اقدام اٹھالینے کی خبریں بھی سامنے آتی ہیں۔

تاپسی اپادھیائے کا تعلق دارالحکومت دہلی سے ہے۔ ہزاروں، لاکھوں لڑکیوں کی طرح اس لڑکی نے بھی انجینئرنگ کے کورس میں داخلہ لیا اور ہزاروں انجینئرس کی طرح اس لڑکی کو بھی ملازمت نہیں ملنے کا خدشہ ہے۔ (خیر سے لڑکیوں کو انجینئرنگ کروانا کس حد تک موزوں ہے اس پر پھر کبھی بات کریں گے)

لیکن دہلی کی یہ لڑکی یہ کہہ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی رہی کہ انجینئرنگ کے بعد نوکری ڈھونڈنے کا مرحلہ آئے گا۔ اس لیے تب تک زندگی کو انجوائے کرو۔ تاپسی نے اپنی انجینئرنگ کے تیسرے سال ہی اپنی مدد آپ کرنے کا فیصلہ کیا۔

قارئین بہت ساری خواتین کو پانی پوری کھانے کا شوق ہوتا ہے یا مردوں کے مقابل خواتین پانی پوری کو کھانا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ تاپسی اپادھیائے نے لوگوں کے پانی پوری کھانے کے شوق کو مد نظر رکھ کر اسی کا کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا۔

لوگ چوری، دھوکہ، رشوت اور حرام کے پیسوں کی نمائش کر کے سماج پر اپنا رعب جمانا چاہتے ہیں اور 21 سالہ انجینئرنگ کی سال سوم کی یہ طالبہ کہتی ہے کہ ہاں میں پانی پوری بیچتی ہوں، ساتھ ہی وہ یہ بھی بتلاتی ہے کہ میں انجینئرنگ کی اسٹوڈنٹ ہوں۔ دوسرے لوگ 20 روپئے میں 6 پانی پوری فروخت کرتے ہیں۔ یہ 30 روپیوں میں 6 پانی پوری فروخت کرنے کا دعویٰ کرتی ہے کہ صاف ستھرے پانی سے صحت بخش پانی پوری کی وہ ضمانت دیتی ہے اور قارئین ایسا نہیں کہ یہ لڑکی دوسرے علاقے میں دوکان لگاکر اپنی شناخت چھپانا چاہتی ہے بلکہ کام چور نوجوانوں کو ترغیب دلاتی ہے کہ نوکری ڈھونڈنا اور نوکری کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کہ پانی پوری بیچو اور اپنے اخراجات کے لیے خود پیسے کمائو۔ تاپسی اپادھیائے کی ویب سائٹ btechpaanipuri.com پر اس کا تعارف موجود ہے۔ حال ہی میں 19؍ مارچ 2023ء کو اخبار ہندوستان ٹائمز نے Meet Btech Pani Pouri Wali, a 21 Year old entrepreneur … کی سرخی کے تحت ایک خبر بھی شائع کی تھی۔

خیر اپنے کالم میں مثالیں چیزوں کو سمجھانے کے لیے دیتا ہوں شائد کہ سمجھ آجائے۔ مسلم معاشرے میں خاص کر ہمارے گھروں کا ایک اہم مسئلہ معاشی تنگی، وسائل کا کم ہونا، اخراجات کا حد سے زیادہ ہوجانا۔ قرضوں کا بوجھ، صبح و شام کی پریشانی ہے۔ ایسے میں جہاں اخراجات کو کم کرنا، فضول خرچیوں سے بچنا بھی ضروری ہے وہیں شرعی دائرے کار میں رہتے ہوئے خواتین بھی مردوں کا ہاتھ بٹاکر گھروں کے ماحول کو پرسکون، بچوں کی زندگی کو بہتر اور بچت روزآنہ کا معمول بناسکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سبھی کے گھروں میں برکت نازل فرمائے۔ (آمین)

(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)-sarwari829@yahoo.com