مضامین

ٹریفک میں پھنس جانا، اذیت سے کم نہیں !

شہر حیدرآباد و سکندرآباد میں ٹریفک ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ صبح اور شام کے اوقات میں ٹریفک کا مختلف سڑکوں پر جام ہوجانا معمول بن چکا ہے …

ایم جواد

شہر حیدرآباد و سکندرآباد میں ٹریفک ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ صبح اور شام کے اوقات میں ٹریفک کا مختلف سڑکوں پر جام ہوجانا معمول بن چکا ہے … دفاتر ، کاروباری اداروں کو جانے والے افراد اجتماعی سواری یا انفرادی سواری کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔ دو پہیوں والی گاڑیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ، ایک سے ایک مہنگی گاڑیاں نوجوانوں کے استعمال میں ہیں۔

کاروں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔ پہلے صرف رئیس طبقہ ہی کار کا استعمال کرتا تھا ، آج متوسط طبقے کے بیشتر افراد کے پاس کار ہے ، بینک لون کی سہولت اور آسان اقساط پر کار کی قیمت کی ادائیگی نے شہریوں کو کار کا مالک بنادیا ہے ۔ کئی ایسے گھرانے ہیں جہاں ہر فرد کے لیے ایک کار ہے ، اکثر صاحب خانہ خود کار چلالیتے ہیں ۔ بعض گھرانوں میں ڈرائیور کا تقرر کیا جاتا ہے جو صبح سے لے کر شام تک صاحب خانہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہے ۔

صبح9بجے تا 11بجے اور شام 5بجے تا7بجے کے اوقات مصروف ترین سمجھے جاتے ہیں ۔ ان اوقات میں ٹریفک کا اژدھام ہوتا ہے اور جگہ جگہ ٹریفک جام نظر آتی ہے ۔ صبح سات اور آٹھ بجے کے دوران اسکول اور کالج بسوں کا سڑکوں پر راج ہوتا ہے ۔ بیشتر اسکولس و کالج کے انتظامیہ طلباء کی سہولت کے لیے خود بسوں کا بندوبست کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے صبح کے اوقات میں بھی ٹریفک جام نظر آتی رہی ہے ۔ شہر کی بعض سڑکیں ایسی ہیں جہاں تیز رفتار ی کے ساتھ گاڑی چلانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ دھیمی رفتار سے آگے بڑھنا پڑتا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ گاڑیاں رینگتے ہوئے گزررہی ہیں ۔ آہستہ آہستہ آگے بڑھنے میں اکثر گاڑیاں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں جس کی وجہ سے گاڑی مالکین میں بحث و تکرار بھی ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں مار پیٹ کی نوبت بھی آجاتی ہے ۔

کبھی کبھی بات پولیس اسٹیشن تک پہنچ جاتی ہے ۔ ٹریفک عملہ بھی ٹریفک کو کنٹرول کرنے سے قاصر نظر آتا ہے ۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی بھی ٹریفک جام ہونے کا ایک سبب ہے حالانکہ ٹریفک کا عملہ چالانات کے ذریعہ شہر میں ٹریفک شعور اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام ہے کیونکہ لوگ چالان کی رقم ادا کرکے دوبارہ وہی غلطی دہراتے ہیں ۔ وہ ٹریفک قوانین کی پابندی کو اہمیت نہیں دیتے ، فلائی اوور س اور فٹ اوور بریج ٹریفک مسائل کو حل کرنے میں کسی حد تک معاون ہوسکتے ہیں لیکن اکثر فلائی اوورس پر ٹریفک جام کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔حکومت مختلف مقامات پر فلائی اوورس کی تعمیر کا منصوبہ رکھتی ہے لیکن بڑھتی ہوئی ٹریفک کے تناظر میں فلائی اوورس بھی ناکافی ثابت ہوں گے ۔

شہر حیدرآباد میں عوامی ٹرانسپورٹ آر ٹی سی بسوں کا استعمال زیادہ ہے جو شہر کی سڑکوں پر دن رات دوڑتی رہتی ہیں۔ شہر کی تنگ سڑکوں پر مخالف سمت سے دو تین بسیںایک ساتھ آجائیں تو ٹریفک جام ہوجاتی ہے ۔ شہر کے بیشتر حصوں میں ہمیشہ ٹریفک جام رہتی ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ چارمینار سے مدینہ بلڈنگ کا سفر ایک گھنٹے میں تکمیل پاتا…افضل گنج ، عثمان گنج، معظم جاہی مارکٹ ، عابڈس ، کوٹھی ، ترپ بازار ، بشیر باغ ، جکڑ پلی ، نارائن گوڑہ ، مشیر آباد ، نامپلی ، لکڑی کا پل، خیریت آباد ، پنجہ گٹہ، مہدی پٹنم ، حبشی گوڑہ ، راشٹر پتی روڈ، رانی گنج ، سکندرآباد، ملک پیٹ ، چادر گھاٹ پل، نیاپل پر ہمیشہ ٹریفک جام ہوتی ہے ۔

منگل ہاٹ ، کاروان ، جھرہ وغیرہ میں بھی ٹریفک بہاو ٔ میں وقتاً فوقتاًدشواری محسوس ہوتی ہے ۔ بیگم بازار، چھتری ناکہ ، فیل خانہ ، دارالسلام کے علاقے میں بھی ٹریفک جام کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ شہر کے بیشتر مقامات پر سڑکوں کو کشادہ بھی کیا جاچکا ہے لیکن اس کے باوجود ٹریفک مسائل برقرار ہیں ۔ ناہموار سڑکیں ، سڑکوں کے اطراف تعمیراتی اشیاء کا بکھرا ہوا رہنا بھی ٹریفک بہاؤ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔کئی سڑکیں ایسی ہیں جہاں تعمیراتی کام کو ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ کھودے ہوئے گڑھے کے پاس خطرے کا بورڈ مہینوں آویزاں ہوتا ہے جس سے ٹریفک کے گزرنے پر دشواری پیش آتی ہے ۔ شہر میں کھلی سڑکوں کا تصور ہی محال ہوچکاہے۔

جن مقامات پر ٹریفک جام ہوجاتی ہے وہاں ہارن مسلسل بجتے رہتے ہیں ، کانوں کو ناگوار محسوس ہونے والا شور ذہنی تناؤ میں اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔ اگر انسان مسلسل تناؤ میں رہے تو اس کا ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہونا یقینی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گھنٹوں سڑکوں پر کار چلانے والے فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوجاتے ہیں ۔وہ قدم قدم پر ٹریفک جام ہونے سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہورہے ہیں ۔ ان کا غصہ بے قابو ہورہا ہے جس کے کئی نقصانات سامنے آرہے ہیں ۔ گاڑی چلانے والوں کا عام تاثر یہ ہے کہ ٹریفک میں پھنس جانا کسی اذیت سے کم نہیں ہے ۔ نہ گاڑی آگے جاسکتی ہے نہ ہی اسے پیچھے موڑا جاسکتا ہے، بے بسی کا عالم ہوتا ہے۔

ایسے میں ٹریفک بہاؤ میں رکاوٹ دور ہونے کا انتظار ہی کیا جاسکتا ہے ۔ ایک وقت کی بات ہو تو کوئی برداشت بھی کرلے ، ٹریفک جام ہونا یہاں روز کا معمول ہے جو سب سے بڑا سردرد ہے ۔ انفرادی سواری کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال ٹریفک قوانین پر عمل آوری ، آگے بڑھنے میں عجلت پسندی کی بجائے دوسروں کو راستہ دینے کی عادت کو اپنا کر ٹریفک بہاؤ کو ایک حد تک بہتر بنایا جاسکتاہے ۔ شہریوں میں ٹریفک شعور کو بیدار کرنے کے لیے محکمہ ٔ ٹریفک پولیس محض چالانات پر انحصار کرنے کی بجائے اس کو چاہیے کہ ٹریفک قوانین سے عوام کوواقف کروانے کے لیے باقاعدگی کے ساتھ کلاسس کا اہتمام کرے۔
٭٭٭