چار مینار کی تعمیر کے 444 سال‘ ایک جا ئزہ
چار مینار اپنے افتتاح یعنی یکم مُحرم الحرام 1000 ہجر ی اپنے افتتاح سے اب تک متعدد مر تبہ عوام کے کھلا اور بند ہوا ہے ۔ تا ریخ بتا تی ہے کہ دو بہنوں نے چار مینار کے اُوپر سے چھلا نگ لگا کر اجتماعی خود کشی کی تھی ۔ جس کے بعد سے چار مینار کو عوام کے لئے بند کر دیا گیا تھا ۔ اس کے بعد طویل عر صہ تک چا ر مینار عوام کے لئے بند رہا ۔ بعد ازاں سال 2003 ء میں اس وقت کے متحدہ ریاست آندھر اپرد یش کے چیف منسٹر این چند را بابو نا ئیڈو نے اسے دو بارہ عوام کیلئے کھول دیا تھا ۔ جو آج تک بھی کُھلا ہوا ہے ۔ سال 2010 میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یو نیسکو نے چار مینار کے بشمول قلعہ گو لکنڈہ ، اور سات گنبدوں کو عا لمی ثقافتی اداروں کی فہر ست میں شامل کیا ہے ۔ چار مینار کا انگر یزی نام ’’ فور ٹاور‘‘ منتخب کیا گیا ۔

رفعت بیگم ۔ ظہیرآباد
قطب شاہی سلطنت کے پا نچویں فر ما نِ روا اور بانی شہر حیدرآباد محمد قلی قطب شاہ نے جب حیدرآباد شہر بسا یا تو اپنے پر ور دگا ر کے حضور یہ دُ عا کی کہ اے دعائوں کے سُننے والے میرے رب ! میرے شہر کو لوگوں سے تو اس طر ح آباد رکھ۔ جس طر ح در یا میں مچھلیوںکو آباد ر کھتا ہے ۔ محمد قلی قطب شاہ ایک خدا تر س اور نیک بخت با دشاہ تھا ۔ اس نے صدق دل سے یہ دُعا ما نگی اور اللہ تعالی نے اس کی دُعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور آج حیدرآباد شہر اپنے قیام سے اب تک آباد و شاد ہے ۔ بلکہ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ حیدرآباد گو یا سروں کا سمندر ہے ۔ حیدرآباد میں آج دُنیا کے ہر ملک کے لوگ ملیں گے اور یہ شہر کی خصوصیت ہے کہ جو بھی ایک مر تبہ اس شہر کو آیا بس یہیں کا ہو گیا اور اتفاق سے جو اس شہر سے نکل گیا تمام عمر ما ہی ِبے آب کی طر ح شہر کے فر اق میں تڑ پتا رہا ۔ دُنیا کے بہت کم شہروں کا نصیب ایسا ہو تا ہے کہ جو آفات سماوی اور زلزے اور دیگر آفات میں بھی آبادی کا بڑا حصہ محفوط رہتا ہے ۔
آج دنیا کے کسی بھی ملک یا کسی بھی علا قے کے لو گ حیدرآباد کا نا م لیتے ہیں تو فوری ان کے ذہین میں چار مینار کی یاد گا تر تصویر اُبھر تی ہے ۔ چار مینار اور حیدرآباد کا تعلق گو یا پھول اور خوشبو کی طر ح ، جسم و جان کی طر ح ہے ۔ امر یکہ کا تصور وائیٹ ہا ئوز کے بغیر دلی کا تصور لا ل قلعہ کے بغیراور حیدرآباد کا تصور چار مینار کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اس طر ح دنیا کی یادگار عما رتوں میں چار مینار کا شمار بھی ہو تا ہے ۔ بلکہ اگر چار مینار کو فخر حیدرآباد کہیں تو کوئی مبا لغہ نہ ہو گا ۔ ایسی شاندار عمارت کی تعمیر کے آج یکم محرم 1444 ھ کو 444 سال مکمل ہو رہے ہیں ۔ واضح رہے کہ چار مینار کی تکمیل کے بعد یکم محرم الحرام 1000 ہجری کو ہی چار مینار کا افتتاح عمل میں آیا تھا ۔حیدرآباد میں چار مینار کی تعمیر اس وقت کی گئی کہ جب شہر ی ایک خطر ناک وباء( طاعون) سے دو چار تھے۔ اس وقت یہ ایک سنگین بیماری تھی جس سے متا ثر ہو نے کے بعد لوگون کا عر صہ حیات تنگ ہو جا تا تھا۔ قطب شاہی فر مانرواں محمد قلی قطب شاہ نے جب اس متعدی مر ض / وباء کا شہر سے خا تمہ ہوا تو اس کی مسر ت میں یاد گار کے طور پر چار مینار کی تعمیر کروایا۔یہ قر ین قیاس ہے کہ محمد قلی قطب شاہ نے اپنا دارُالسلطنت کو جب گو لکنڈہ سے حیدرآباد منتقل کیا تو چار مینار کی تعمیر کا عزم کیا تھا۔ بعض مورخین کے مطابق ابتداء میں قلعہ گولکنڈہ تا چار مینار تک پہونچنے کے لئے زیر زمین ایک سُر نگ تھی ۔ قلعہ سے چار مینار کا فا صلہ تقر یباََ 8 کیلو میٹر پر مشتمل ہے ۔ اس تا ریخی عمارت کو چار مینار اس لئے کہا جا تا ہے کہ اس کے اونچے اونچے چاروں مینار ہیں ۔اس وقت یہ شہر کے وسط میں تعمیر کیا گیا تھا ۔چا ر مینار کے چاروں طر ف کچھ فاصلہ پر چار کمانیں متوازی رقبہ پر تعمیر کی گئی تھیں ۔ جسے چار مینار کے دروازے اگر کہیں تو بیجا نہ ہوگا۔چاروں طر ف سے دیکھنے پر بھی چار مینار ایک جیسا ہی نظر آتا ہے ۔ چار مینار کے وسط میں نظام شاہی حکمرانوں نے لندن سے قد آور دیواری گھڑیاں منگوا کر نصب کی ۔ تا ہم با نی شہر حیدرآباد محمد قلی قطب شاہ نے 1591 ء میں اس تا ریخی ورثہ کی حا مل عمارت کی تعمیر کی اور اپنی منا جات میں اس کے آباد رکھنے کی رب سے دُعا کی ۔ دُعا کا اثر ہے کہ آج بھی حیدرآباد نہ صر ف آباد ہے بلکہ خوشحال شہروں کی فہر ست میں حیدرآباد کا نام سر فہر ست ہے ۔ قلی قطب شاہ نے جب حیدرآباد کے نقشہ کو قطعیت دی تو چار مینار شہر کے نقشے میں مر کزی قطعہ تھا ۔اس مر کز سے چار سمتوں میں چار شاہرا ہیں مساوی طور پر نکا لی گئیں ۔
چار مینار نہ صر ف ایک تا ریخی عمارت ہے بلکہ آج بھی مختلف ممالک کے سیاح اس عمار ت کو دیکھنے کے لئے دُ نیا کے مختلف ممالک سے حیدرآباد کا رُ خ کر تے ہیں ۔ چار مینار دنیا کی واحد عمارت ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اس کا ثا نی نہیں ۔ موسی ندی کے مشر قی ساحل پر تعمیر چار مینار نے اپنے تعمیر سے اب تک ان 444 سالوں کے دوران کئی نشیب و فراز بھی دیکھے ہیں ۔ 1908 کی طغیانی ، حیدرآباد میں کر فیو، بارش کا پانی سیلاب کی شکلوں میں گھر میں گھستا ہوا منظر بھی دیکھا اور وہ منظر بھی دیکھے کے چا ر مینار کے دامن میں واقع مکہ مسجد میں نماز ادا کر نے آنے والے مُصلی بم دھما کے کا شکا ر ہو ئے تھے ۔ الغر ض یہ کہ چار مینار اپنے دامن میں کئی نشیب و فرا ز سمو ئے ہو ئے ہے ۔ امن و محبت اور بھا ئی چارگی اور مذ ہبی رواداری اور قطب شاہی سلطنت کی علامت کے طور پر آج بھی بر قرار ہے ۔ البتہ قطب شاہی دور حکومت کے بعد آصف جا ہی سلاطین اور مغل سلا طین کے دور میں چار مینار کی ایک مینار کو کچھ حصہ منہدم ہو گیا تھا۔تاہم اسے اس زمانے میں تقر یباََ60 ہزار رو پیوں کے خرچ سے مر مت کی گئی۔
چار مینار حا لیہ عر صہ تک بھی حیدرآباد کی بلند تر ین عما رتوں میں شمار ہو تا تھا ۔عا لمی سطح پر بھی چار مینار کی ایک منفر د شنا خت ہے ۔چار مینار کی تعمیر کے 444سال کی تکمیل کے مو قع پر اس تاریخی عمار ت کے متعلق ہمیں اس تا ریخی و ثقافتی ورثہ کی حا مل عمارتوں کے بارے میں جا ننا ضروری ہے ۔ چار مینار کے چاروں مینار ، چاروں میناروں کے درمیان چاروں کمانیں اور چار مینار تک پہو نچنے کے لئے کچھ فا صلہ پر چار کمانیں تعمیر کی گیئی ہیں جو مچھلی کمان ، کالی کمان ، چار مینار کمان اور سحر باطل کمان کے نام سے مشہور ہیں یہ کمانیں چار مینار کی تعمیر کے دوسرے سال یعنی 1592 ء میں فارسی طر ز تعمیر میں 60 فٹ اونچی اور 30 فٹ چو ڑا ئی پر تعمیر کی گئی ہیں ۔ جو اس بات کا مظہر تھی کہ چار مینار کی تعمیر کا منصو بہ در اصل قطب شا ہی سلطنت کے چو تھے فر ما ن ِرواں کاتھا۔ چار مینار کے طر ز تعمیر کی خصوصیت ہے یا پھر اس زمانے کی آر کیٹیکچرکی دُور اند یشی تھی کہ چار مینار 444 سال قدیم ہو نے کے بعد بھی جوان ہے۔ چار مینار ہند اسلامی طر ز تعمیر کا حسین امتزاج ہے ۔ جبکہ آج دنیا کے ما ہر ین اور معمار جب کو ئی عمارت کی تعمیر کر تے ہیں تو اس کی مد ت کار 50 تا 100 سال تک ہی دیتے ہیں ۔ آج ہم انتہا ئی ٹیکنا لوجی کے دور میں زند گی گذار رہے ہیں ۔ تعمیرات میں بھی فلک بوس عمارتیں تعمیر ہو ر ہی ہیں ۔ اگر ہم سر اٹھا کر دیکھیں تو ٹو پی نیچے گر جا ئے ۔ اور ان عما رتوں کی تعمیر کے لئے انتہا ئی عصر ی آلات استعمال کئے جا تے ہیں ۔اس کے با وجود بھی ان عما رتوں کے معمار ان عمار توں کی مد ت کار محض کچھ سال دیتے ہیں اور ان میں اکثر عمارتیں اپنی مدت کار سے بہت پہلے ہی مخدوش ہو جا تی ہیںیا پھر بو سیدہ ہو جا تی ہیں ۔ جبکہ چار مینار نہ تو مخدوش عمارت ہے اور نہ ہی بو سیدہ ہو ئی ہے ۔ اللہ تعالی اس عمارت کو نظر بد سے بچا ئے آمین ۔
چار مینار اپنے افتتاح یعنی یکم مُحرم الحرام 1000 ہجر ی اپنے افتتاح سے اب تک متعدد مر تبہ عوام کے کھلا اور بند ہوا ہے ۔ تا ریخ بتا تی ہے کہ دو بہنوں نے چار مینار کے اُوپر سے چھلا نگ لگا کر اجتماعی خود کشی کی تھی ۔ جس کے بعد سے چار مینار کو عوام کے لئے بند کر دیا گیا تھا ۔ اس کے بعد طویل عر صہ تک چا ر مینار عوام کے لئے بند رہا ۔ بعد ازاں سال 2003 ء میں اس وقت کے متحدہ ریاست آندھر اپرد یش کے چیف منسٹر این چند را بابو نا ئیڈو نے اسے دو بارہ عوام کیلئے کھول دیا تھا ۔ جو آج تک بھی کُھلا ہوا ہے ۔ سال 2010 میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یو نیسکو نے چار مینار کے بشمول قلعہ گو لکنڈہ ، اور سات گنبدوں کو عا لمی ثقافتی اداروں کی فہر ست میں شامل کیا ہے ۔ چار مینار کا انگر یزی نام ’’ فور ٹاور‘‘ منتخب کیا گیا ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہو گا کہ1960 میں چار مینار کے دامن میں بھا گیہ لکشمی کی مورتی نصب کی گئی تھی اور اب ایک مندر کی شکل اختیار کر لی ہے ۔ شہر یوں کی جا نب سے اور محکمہ آثار قد یمہ نے بھی اپنی تحقیق میں بتا یا کہ چا ر مینار کی تعمیر کے وقت اس کے دامن میںکو ئی مندر نہیں تھی ۔ تا ہم چار مینار کے دامن میں مورتی کی تنصیب ایک متنازعہ عمل ہے ۔ ہائیکورٹ آف آند ھرا پر دیش نے نو مبر 2012 ء میں اپنے ایک فیصلہ میں مندر کی حا لت کو جوں کا توں بر قرار رکھنے کی ہدایت دی تھی ۔ جس کے بعد سے مندر اب تک جوں کی توں حا لت میں بر قرار ہے ۔
چار مینار جیسی تا ریخی عمارت کا تحفظ اب حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ سال 2006 میں جب اس عمارت کے بازو سے موٹروں اور گاڑیوں کے چلن سے بلکہ آلودگی سے عمارت کو نقصان ہونے کے خد شہ سے اس وقت کے چیف منسٹر آنجہا نی ڈا کٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے چار مینار کے اطراف و اکناف کے تقر یباََ 300 میٹر کے علاقے کو پیدل را ہرو پرا جیکٹ قرار دیا اور اس کے قریب سے بڑ ی بڑی گا ڑیوں کو چلا نا ممنوع قرار دیا ۔ تاہم جنوری 2017 ء میں تلنگانہ حکومت نے چار مینار کو ما حولیا تی آلودگی سے تحفظ کے اقدامات کے طور پر اور چار مینار کو ماحولیاتی سیا حتی مقام کے طور پر شنا خت دینے کیلئے 14 ر کنی فرا نسیسی وفد سے چار مینار کے اطراف و اکناف کے علاقے کی تحقیق کروائی اور اس وفد نے 2018 میں مختلف سفارشات کے ساتھ اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی ۔
بہر حال چار مینار ایک تاریخی عمارت ہے ۔ اس کا تحفظ حکومت کے بشمول عوام کی بھی ذمہ داری ہے ۔ ر یاستی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ اس کی مر مت کی جا ئے اور اس کی شنا خت اور عظمت رفتہ کی بر قراری کے لئے اس کے یادگاری ٹکٹ جا ری کئے جا ئیں ۔ حکومت نے سنڈے فنڈے پروگرام بھی چار مینار کے دامن میں تر تیب دیا تھا ۔ لیکن کچھ دنوں سے یہ مو قوف ہے ۔ تاہم ایسے پروگرامس اور اقدامات کئے جا ئیں کہ جس سے اس عمارت کی عظمت رفتہ بر قرار رہے اور اس عمارت کی عظمت میں اضا فہ ہو ۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰