سیاستمضامین

یوکرین کی جنگ ۔۔۔خوفناک جوہری حادثے کا خطرہ

مسعود ابدالی

روس یوکرین خونریزی سے ساری دنیا متاثر ہے۔ توانائی کی قیمتیں آسمان پر ہیں، اور سب سے بڑھ کر عالمِ تمام، خاص طور سے بحر روم کے ساحلوں پر آباد دنیا اناج کے معاملے میں اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہے۔ مشرقی یوکرین کو ”روٹی کی چنگیری“ کہا جاتا ہے۔ ویسے تو ساری دنیا یوکرینی مکئی، گندم، بارلی اور خوردنی تیل سے مستفید ہوتی ہے، لیکن لبنان، شام، ترکی اور مصر اپنی ضرورت کی 40سے 55فیصد گندم اور مکئی یوکرین سے خریدتے ہیں۔ یمن کا 60 فیصد دارومدار یوکرینی گندم پر ہے۔ ترک صدر اردوان کی کوششوں سے دنیا کو یوکرینی غلے کی فراہمی بحال ہوگئی ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اناج سے لدے 16 جہاز ترک بحریہ کی حفاظت میں یوکرینی بندرگاہ اوڈیسا سے روانہ ہوئے، اور ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ ٹن سے زیادہ غلہ دنیا کے مختلف ممالک کو پہنچ چکا ہے۔ خیال ہے کہ اگلے ماہ بحر اسود کے راستے روسی غلے کی فراہمی بھی شروع ہوجائے گی۔
جنگ ایک نامراد مشق ہے جس کا ہر پہلو نقصان دہ ہے، لیکن یوکرینی جنگ نے ایک خوفناک جوہری حادثے کا خطرہ پیدا کردیا ہے۔ آج ہم اسی موضوع پر بات کریں گے۔
جنگ کے آغاز پر ہی روس نے اپنی سرحد سے متصل مشرقی یوکرین میں زاپوریژیا کے جوہری پاور پلانٹ پر قبضہ کرلیا تھا جو زاپوریژیا صوبے کے شہر اینرہودار (Enerhodar) میں دریائے دنیپر (Dniper) کے کنارے واقع ہے۔ سوویت دور کا یہ پلانٹ 1986ء میں مکمل ہوا تھا جس میں 6 جوہری ری ایکٹر نصب ہیں اور پلانٹ میں بجلی پیدا کرنے کی مجموعی گنجائش 5700 میکاواٹس (MW)ہے۔ یہ یورپ کی سب سے بڑی جوہری تنصیب ہے، جبکہ گنجائش کے اعتبار سے اس کا شمار دنیا کی دس بڑی جوہری تنصیبات میں ہوتا ہے۔ جوہری پلانٹ کے قریب واقع تھرمل پلانٹ (پن بجلی گھر) بھی روس کے قبضے میں ہے۔
جوہری تنصیبات کے قریب یوکرینی اور روسی افواج کے درمیاں خوفناک لڑائی ہوئی اور میزائیل لگنے سے پلانٹ کی ایک عمارت میں آگ لگ گئی۔ وہ تو خیریت رہی کہ نشانہ بننے والی عمارت پلانٹ سے باہر نئے انجینئروں کی تربیت گاہ تھی اور اس سے ری ایکٹر یا دوسری حساس تنصیبات متاثر نہیں ہوئیں۔ لیکن روس کے ایک اور حملے میں پلانٹ کا ویلڈنگ سیکشن نشانہ بنا، اور ساتھ ہی باہر گھاس کو آگ لگ گئی۔ حملے میں آگ بجھانے کے آلات تباہ ہوگئے اس لیے گھاس پر لگی آگ بجھانے میں کئی دن لگے۔ اس دوران اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ کہیں اس آگ کے شعلے پلانٹ کی عمارت تک نہ پہنچ جائیں، لیکن ایسا نہیں ہوا اور آگ بجھا دی گئی۔ یوکرینی عملے کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ پلانٹ پر براہِ راست گولہ باری کے نتیجے میں ایک ری ایکٹر کو نقصان پہنچا۔ لیکن تابکاری مواد کے اخراج کی کوئی رپورٹ نہیں۔
اس انکشاف پر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA)نے شدید تشویش کا اظہار کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آئی اے ای اے کے سربراہ ڈاکٹر رفائیل گروسی نے کہا کہ صورتِ حال نہایت خطرناک اور نازک ہے۔ انھوں نے روس اور یوکرین سے مطالبہ کیا کہ ایجنسی کے ماہرین کو پلانٹ کے معائنے کی اجازت دی جائے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریس نے خبردار کیا کہ معاملہ صرف دو ملکوں کے درمیان نہیں بلکہ علاقے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تکنیکی سطح کے فوری معاہدے کی ضرورت ہے۔ پلانٹ پر قبضے کے فوراً بعد صدر پیوٹن نے کہا تھا کہ روس اقوامِ متحدہ کے حکام کو زاپوریژیا جوہری پلانٹ تک رسائی کے حوالے سے ضروری معلومات و معاونت فراہم کرنے کو تیار ہے، لیکن اس میں ماہرین کے دورے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔
زاپوریژیا پر قبضے کے بعد اس کی ملکیت روسی جوہری ادارے روس ایٹم (ROSATOM) کے حوالے کردی گئی، تاہم انتظامی تبدیلی سے گریز کیا گیا، یعنی اس کا تیکنیکی انتظام و انصرام اب بھی یوکرینی مہندسین و ماہرین کے ہاتھ میں ہے، اور یہاں سے پیدا ہونے والی بجلی بدستور یوکرینی صارفین کو فراہم کی جارہی ہے۔
پلانٹ کے قریب جھڑپیں اب بھی جاری ہیں اور کل ہی روسی گولہ باری سے پلانٹ کے قریب چار شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جوہری تنصیبات کی تعمیر کے وقت حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ان کی بیرونی دیواریں اور چھت ایک خاص حد تک بیرونی دبائو جھیل سکیں، لیکن بم اور میزائیل کے اثرات کو برداشت کرنا ممکن نہیں۔ کسی بھی ری ایکٹر پر براہِ راست گولہ لگنے کی صورت میں نہ صرف تابکاری مواد کا خارج یا لیک ہونا یقینی ہے، بلکہ ضرب سے ہائیڈروجن یا جوہری دھماکہ بھی خارج از امکان نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر کوئی راکٹ یا گولہ براہِ راست کسی ری ایکٹر پر گرا تو اس کے نتیجے میں جنم لینے والی تابکاری سے یوکرین، روس اور بیلارُس سمیت سارا یورپ متاثر ہوگا۔ روسی ماہر طبیعیات آندرے اوزہارووسکی نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ری ایکٹر کی تباہی تابکار سیزیم 137(Caesium-137) کے اخراج کا سبب بنے گی۔ سیزیم 137 انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے جس کی معمولی سی مقدار بھی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ تابکاری زراعت کے لیے بھی مضر ہے اور اس کے اثر سے زرعی زمین طویل مدت کے لیے بنجر ہوسکتی ہے۔ لطیف ہونے کی بنا پر سیزیم 137ہوا کے دوش پر طویل فاصلے تک سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ہوا کی سمت اور رفتار اسے بہت دور تک پھیلا سکتی ہے۔ معاملہ صرف ری ایکٹر کا نہیں۔ یہاں بڑی مقدار میں جوہری کچرے (Nuclear Waste)کے ذخائر بھی ہیں۔ اگر یہ ذخائر بم یا میزائیل کا نشانہ بنے تو یہاں محفوظ کیا گیا ٹنوں تابکاری مواد بڑی مصیبت کا سبب بن سکتا ہے۔
روس اور یوکرین دونوں کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہے۔ صدر پیوٹن کہہ چکے ہیں کہ جوہری پلانٹ پر حملہ خودکشی ہوگا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ عظیم الشان تنصیبات میدانِ جنگ کے بیچوں بیچ واقع ہیں، لہٰذا کسی بھی وقت کوئی حادثہ ہوسکتا ہے۔ اس علاقے پر روس یا یوکرین کسی کی گرفت مضبوط نہیں۔ یہاں قابض روسیوں کو کچھ فاصلے پر مورچہ زن یوکرینی فوج کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے جو پلانٹ کا قبضہ چھڑانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ عمارت کے اندر یوکرینی ماہرین تعینات ہیں، اس لیے یوکرین کی جانب سے پلانٹ پر براہِ راست گولہ باری کا امکان نہیں، لیکن جنگ کے دوران دوستانہ گولیاں (Friendly fire)بھی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں سے اس علاقے میں شدید گولہ باری ہورہی ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، اب تک روس نے پلانٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کی تقسیم میں کوئی خلل نہیں ڈالا اور یوکرینی صارفین کو بجلی کی فراہمی جاری ہے۔ بجلی کی تقسیم کا سارا نظام Energy Company of Ukraineے ہاتھ میں ہے، لیکن اب روس اپنے جوہری ماہرین کو یوکرینی کارکنوں کی نگرانی کے لیے بھیج رہا ہے۔ روس کے نائب وزیراعظم مراد خسروی نے کہا ہے کہ زاپوریژیا پلانٹ روس کی ملکیت ہے چنانچہ یہاں سے فروخت ہونے والی بجلی کی قیمت ”روس ایٹم“ کو ملنی چاہیے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ 56 سالہ مراد خسروی تاتار مسلمان ہیں۔ بدھ 17 اگست کو یوکرین کے قبضہ کیے ہوئے علاقے کے دورے پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جناب مراد خسروی نے کہا کہ اگر ای سی یو نے بجلی کی قیمت روس ایٹم کو ادا نہ کی تو زاپوریژیا پلانٹ کو روسی برقی توانائی کے نظام (GRID)سے جوڑ دیا جائے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پلانٹ کو روسی گرڈ سے منسلک کرنا اتنا آسان نہیں اور اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ یوکرین کو مطلوب بجلی کا 20 فیصد زاپوریژیا پلانٹ فراہم کرتا ہے، چناچہ مراد صاحب کی اس دھمکی سے یوکرینی وزارتِ توانائی فکرمند ہوگئی ہے۔
پلانٹ کی حفاظت اور تابکار مواد کے معاملے پر دونوں ملکوں کی سنجیدگی اور اخلاص اپنی جگہ، لیکن اصل مسئلہ اعتماد کا فقدان ہے۔ صدر زیلنسکی کا خیال ہے کہ روس پلانٹ پر قبضے کو یوکرین کے خلاف دبائو کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یوکرینیوں کے اس خدشے کو جناب مراد صاحب کے بیان سے تقویت ملی ہے۔ دوسری طرف کریملن کو ڈر ہے کہ پلانٹ کے معائنے کے لیے ہونے والی فائر بندی کے دوران یوکرین اپنی صفیں منظم کرکے علاقے پر روسی قبضہ ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ ماسکو کو اندازہ ہے کہ آئی اے ای اے کے زیادہ تر ماہرین امریکی اور یورپین ہیں اور وہ حفاظتی اقدامات کی سفارش کرتے وقت انصاف سےکام نہیں لیں گے۔
جمعرات 18 اگست کو مغربی یوکرین کے شہر لویف (Lviv) میں ترک صدر اردوان، صدر ولادی میر زیلنسکی اور اقوام متحدہ کے معتمدِ عام گوٹریس کے درمیاں سہ فریقی بات چیت میں یوکرینی صدر نے کہا کہ ان کا ملک خوفناک جوہری حادثے کے امکان کو صفر کرنے کے لیے مخلص و پُرعزم ہے لیکن انھیں روسیوں کی نیت پر بھروسا نہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری پلانٹ کا محاصرہ ختم کرانے کے لیے کریملن پر دبائو ڈالے۔ ان کا کہنا تھا کہ پلانٹ کے گرد و نواح کو روس نے فوجی چھائونی میں تبدیل کردیا ہے اور وہاں گولہ بارود کا انبار نظر آرہا ہے۔ صدر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ وہ آئی اے ای اے کے دورے کا خیر مقدم کریں گے لیکن حتمی فیصلہ عالمی ایجنسی کی جانب سے ”تفصیلات“ ملنے کے بعد کیا جائے گا۔ یوکرینی صدر نے حالات کی ذمہ داری ماسکو کے سر دھرتے ہوئے خبردار کیا کہ روس دنیا کے بدترین جوہری حادثے کا سبب بن سکتا ہے جو چرنوبل سے بڑا ہوگا۔ (سلسلہ صفحہ۶)
آپ کو یاد ہوگا یوکرینی دارالحکومت کیف (Kyiv) کے شمال میں چرنوبل جوہری پلانٹ بدترین حادثے کا شکار ہوا تھا جس میں سو افراد موقع پر ہی ہلاک ہوئے اور تابکاری اثرات کا مکمل خاتمہ اب تک نہیں ہوپایا۔ یہ واقعہ 1986ء کا ہے جب یوکرین سوویت یونین کا حصہ تھا۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل نے پیشکش کی ہے کہ وہ فریقین کے اعتماد کے لیے معائنہ کاروں کی ٹیم کی قیادت خود کرنے کو تیار ہیں، لیکن روس اب تک اس معاملے پر مطمئن نہیں۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکراں سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے روسی صدر نے عالمی معائنہ کاروں کے دورے پر اصولی رضامندی ظاہر کی، لیکن وہ اس کے ”عسکری بندوبست“ پر ضمانتیں چاہتے ہیں۔
یوکرین اور روس دونوں غلہ کارواں کے لیے کی جانے والی غیر جانب دارانہ جانچ پڑتال اور حفاظتی اقدامات کی طرح زاپوریژیا پلانٹ کے حفاظتی بندوبست کے لیے بھی صدر اردوان کی ثالثی کے خواہش مند ہیں۔ صدر پیوٹن کہہ چکے ہیں کہ ترکی کو اس معاملے میں قیادت کرنی چاہیے۔ ترک صدر پر جناب زیلنسکی کو بھی اعتماد ہے۔ روسی میڈیا کے مطابق صدر اردوان، جوہری توانائی کے ترک ماہرین سے مشورہ کررہے ہیں جس کے بعد وہ آئی اے ای اے کی قیادت سے بات کریں گے، اس گفتگو کے نتیجے میں اگر کوئی قابلِ عمل تجویز سامنے آئی تو وہ روسی صدر کو اعتماد میں لیں گے۔ امریکہ نے پلانٹ کے اردگرد ایک غیر عسکری زون قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس پر روسی وزارتِ خارجہ نے تبصرہ کرنے سے بھی انکار کردیا، لیکن اب کہا جارہا ہے کہ صدر پیوٹن جوہری معائنہ کاروں کی حفاظت کے لیے پلانٹ کے قریب ترک امن دستے تعینات کرنے پر رضامند دکھائی دے رہے ہیں۔