طنز و مزاحمضامین

تالے

الیاس احمد انصاری شاداب

تالے ( قفل ) کی ہماری زندگی میں بڑی اہمیت و افادیت ہے ،جب بھی کوئی چیز حفاظت سے رکھنی ہو یا اسے چوروں کی نظر ِ بد سے بچانا ہوتو تالے محافظ بن کر ہمارے کام آ تے ہیں۔تالے ہر دور میں رائج رہے ہیں۔ ہر زمانے میں ہونے والی ترقی نے ان کی بناوٹ اور شکلوں میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں ۔قدیم تالوں کو دیکھ کر ہم بے اختیار ہنس پڑتے ہیں کیوں کہ ان کی بناوٹ عجیب و غریب قسم کی معلوم ہوتی ہے ۔ بہر حال آ دمی تالے کو خود سے اتنا ہی قریب رکھتا ہے جتنا اپنے سالے کو، حالانکہ تالے تالے ہوتے ہیں اور سالے سالے ۔
اعلیٰ قسم کے اور اچھی کمپنی کے تالے ہمیں نقصان سے بچاتے ہیں ،مفید ِ مطلب ثابت ہوتے ہیں جبکہ عام قسم کے تالے کسی بھی قسم کی چابی سے کھل جاتے ہیں جیسے سیدھے سادے لوگ بہت جلد کھل جاتے ہیں ۔وہ ایسی باتوں کو جنھیں پوشیدہ رکھنا ضروری ہوتا ہے ، اپنی سادگی کے سبب اگل دیتے ہیں ۔
تالوں کی وجہ سے کئی لوگ ڈانٹ پھٹکار سے بچ جاتے ہیں ۔ ہم بھی اس قسم کے تجربات سے گزر چکے ہیں ۔ایک بار جب ہم اپنے ماتحت کلرک پر برسنے لگے تو اس کے ایک ہی جملے نے ہمارے منھ پر تالا ڈال دیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ اگر صاحب آ فس نہیں آ ئے تھے تو ان کے گھر جاکر کام مکمل کر لیا ہوتا ۔ا س نے جواب دیا : ’ جناب میں گیا تھا مگر ان کے گھر پر تالا پڑا ہوا تھا۔ ‘ صاحب کے گھر پڑے تالے نے اسے چھٹی دلوادی ۔
کبھی تالے حیرانی کا سبب بن جاتے ہیں اور ہمیں عجیب و غریب صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ ایک مرتبہ جب ہم اپنے آ فس سے گھر جانے کے لیے سائیکل کے پاس آ ئے اوراس کی چابی نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالاتو چابی ندارد ۔پریشانی کے عالم میں ساری جیبیں کئی بار ٹٹول ڈالیں اور انجام سوچ کرپسینہ پسینہ ہوگئے۔اسی اضطرابی حالت میں اضطراری طور پر چابی ڈھونڈنے کا عمل دہرانا شروع کیا ۔ چابی کی اس تلاش نے ہمیں گویا تگنی کا ناچ نچاکر رکھ دیا۔ چابی نہ ملی تو سائیکل کو خود پر سوار کر کے گھسیٹتے ہوئے چابی بنانے والے کی دکان تک لے گئے اور تالا کھلوایا ۔ زندگی میں بھی نہ جانے کتنے دروازے ہم پر بند ہیں جنھیں کھلوانے کے لیے ہم اپنے آپ کو گھسیٹتے رہتے ہیں ۔
بعض اوقات تالے کی موجودگی و عدم موجودگی یکساں ہوتی ہے جیسے بعض اداروں میں منتظمین کا ہونا نا ہونا برابر ہوتا ہے ۔ ایک بار ہم کسی کام سے بازار گئے اور کام سے فارغ ہوکر واپس سائیکل کے پاس آ ئے تو دیکھاکہ سائیکل بحفاظت کھڑی ہے ،تالا کھلا ہو ا ہے کیوں کہ ہم تالے سے چابی نکالنا بھول گئے تھے ۔
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے مر غیوں کی تجارت شروع کردی تھی ۔ایک مضبوط قسم کے بڑے سے ڈربے میں بیس پچیس مرغیوں کی پر ورش کر نے لگے ۔اتفاق سے وہ موسم سردیوں کا گویا چوریوں کا موسم تھا۔ راتوں میں جب غضب کی سردی پڑرہی ہو چور سر گرم ہوجایا کرتے تھے ۔ ہم نے ڈربے پر ایک عمدہ قسم کا تالا ڈال دیا ۔ایک صبح آ نگن میں آ ئے تو دیکھا کہ مرغیوں کا ڈربا تالے سمیت غائب ہے ۔
بعض لوگ تالے کھولنے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں ۔ان کے پاس طرح طرح کی چابیاں ہو ا کرتی ہیں جن سے مضبوط تالے بھی ان کے سامنے اس طرح کھل جاتے ہیں جیسے سی بی آ ئی افسروں کے نفسیاتی حربوں کے آ گے شاطرشاطر مجرموں کے دل و زبان کے تالے کھل جاتے ہیں۔
زمانہ قدیم ہی سے تالوں اور انسانوںکا ساتھ رہا ہے۔ ہم تالوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور اکثر وہ اس کی لاج رکھ لیتے ہیں ۔ اسی لیے آ جکل بینکوں میں بھی لاکرس کی سہولت مہیا کی گئی ہے البتہ بابری مسجد کا تالا کھلنا بڑا برا ثابت ہوا،اس کے کھلتے ہی فتنہ و فساد کا دروازہ کھل گیا۔اسی طرح عقل پر پڑے تالے بھی نقصان دہ ہوتے ہیں ان کی چابی حاصل کر نے کے لیے بھی عقل استعمال کرنی پڑتی ہے۔ مگر جناب آخر کتنی چابیاں حاصل کریں ، یہاں تو بے شمار لوگوں کی عقلوں پر یہی تالے جھول رہے ہیں اور لوگ جو واقعتا عقل بند ہیں یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ان کی عقل پر کوئی بندش ہے۔ انھیں فخر ہے تو بس اس بات پر کہ وہ عقلمند ہیں ۔
جب زبانوں میں یہاں سونے کے تالے پڑگئے
دودھیا چہرے تھے جتنے وہ بھی کالے پڑگئے
ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے
اپنے جینے کا انداز نرالا ہے
لبِ اظہار پہ تالے ہیں، زباں بندی ہے
فکرِ آزاد پہ اس دور میں پابندی ہے
٭٭٭