طنز و مزاحمضامین

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا …

ہم آج اضطراب کا اس لیے بھی شکار ہیں کیوں کہ ہمیں خود سے زیادہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی فکر ہوا کرتی ہے …کسی پڑوسی کے گھرمیں چالیس انچ کا ایل ای ڈی ہے تو ہمیں اپنا 32انچ کا ٹی وی کانٹا بن کر چبھنے لگتا ہے ،کسی رشتے دار نے کار خرید لی تو ہم خود بخود بے کار ہوجاتے ہیں ،کسی دوست نے ذاتی گھر بنا لیا توہمیں لگتا ہے کسی نے ہمیں بے گھر کردیا ہے …

حمید عادل

فی زمانہ ہرکوئی دیوانہ وار دوڑ رہا ہے …اس دوڑ میںکچھ دیوانوںکو یہ تک پتا نہیں کہ وہ کیوں دوڑ رہے ہیںاور ان کی منزل کیا ہے؟ زمانہ قیامت کی ایسی چال چل گیاجو قیامت کی نشانیوں کی سمت اشارہ کر تی ہے …
کتنی عجیب بات ہے ، بات بھی کچھ عجیب ہے کہ آج ہمارے پاس سب کچھ ہے ، لیکن ہمیںسکون میسر نہیں ہے …کلمحدودآمدنی ، محدود ذرائع تھے لیکن اطمینان تھا … ہائے ! وہ بھی کیا دن تھے کہ جواری کی سوکھی روٹی تک مزہ دیتی تھی اور آج ہمہ اقسام کی ڈشس اڑانے کے باوجود ہمارے ہوش اڑے اڑے سے ہوتے ہیں …بچپن میں دو پیسے ، تین پیسے ،پانچ پیسے اوردس پیسے بھی کوئی ہتھیلی پر رکھ دیتا توہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا بلکہ ہمارا خود ٹھکانہ نہ ہوتا، ہوا میں اڑتے پھرتے اور آج کے بچوں کے ہاتھ میں دس ہزار بھی رکھ دو تو ان کے چہرے پر وہ خوشی نظر نہیں آتی …
ہم آج اضطراب کا اس لیے بھی شکار ہیں کیوں کہ ہمیں خود سے زیادہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی فکر ہوا کرتی ہے …کسی پڑوسی کے گھرمیں چالیس انچ کا ایل ای ڈی ہے تو ہمیں اپنا 32انچ کا ٹی وی کانٹا بن کر چبھنے لگتا ہے ،کسی رشتے دار نے کار خرید لی تو ہم خود بخود بے کار ہوجاتے ہیں ،کسی دوست نے ذاتی گھر بنا لیا توہمیں لگتا ہے کسی نے ہمیں بے گھر کردیا ہے …
وہ حیدرآباد جس کے گلی کوچوں میں کھیل کود کر ہم بڑے ہوئے، جس کی ہواؤں میں ہمارے معصوم قہقہے اور سسکیاں بسی ہوئی ہیں اور جس کے شب و روز خوشبوبن کرآج بھی ہماری سانسوں میں سمائے ہوئے ہیں ، ہم ایسے پیارے شہر کو بھلا کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب فضائی آلودگی تھی اور نہ ہی ذہنی آلودگی۔ اس قدر مہنگائی نہ تھی چنانچہ حرکت میں بھی برکت تھی،آج حرکت تو ہے لیکن برکت اٹھ چکی ہے۔ گھر کے باہر بے ہنگم ٹریفک کا راج تھا او رنہ ہی گھر میں مسائل کا اژدھام۔لوگوں کے دلوں میں محبتیں تھیں، جب کہ آج آپسی خلوص ، ایثار، محبت، شرافت ،ہمدردی جیسے پاکیزہ جذبات پھیکے پڑتے جارہے ہیں۔ کسی کے ہاں کوئی تقریب ہوتی تو شادی سے ہفتہ دو ہفتے قبل ہی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا اور مہمانوں کی آمد پر جو خوشی میزبانوں کے چہروں پرنظر آتی، اس کا راست تعلق دل سے ہوا کرتا تھا۔یہ خلوص محض شادی بیاہ یا کسی خاص تقریب تک ہی محدود نہ ہوتا بلکہ عام دنوں میں بھی مہمان کی آمد میزبان کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہوا کرتی تھی۔آج کل توگھروں میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جیسے ختم ہوکر رہ گیا ہے کیونکہ ہم میزبان بننے کو تیار نہیں،یاپھر مہمان نوازی پر مفاد پرستی حاوی ہوکر رہ گئی ہے۔ چنانچہ شادی بیاہ یا کسی تقریب کے موقع پر عموماًمیزبان ان ہی حضرات کی خوب خاطر مدارت کرتے دکھائی دیتے ہیں جن سے ان کا خاطر خواہ مطلب وابستہ ہو۔اگر ان کا کوئی قریبی رشتے دار جیسے بھائی ، بہن اگر ان کی حیثیت کا نہ ہو تو پھر اسے بڑے سلیقے سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بیشتر مہمان بھی اب وہ مہمان نہیں رہے جو دل سے میزبان پر قربان ہوا کرتے تھے۔
بچوں کے اب وہ کھیل کود رہے ،نہ وہ شرارتیں رہیں،قصہ مختصر یہ کہ آج کے بچے، بچپن سے محروم ہوگئے ہیں … اب کوئی ماں آ چڑی آ کہہ کر اپنے بچے کو بہلاتی ہے اور نہ ہی کوئی چڑیا ہمارے گھر آنے کو راضی ہے …وہ ماضی کی چڑیا بھلا کیسے ہمارے گھر آئے گی جہاں سل فون اور انٹر نیٹ کی زہریلی شعاعیں اس کا راستہ روکے کھڑی ہیں…اب تو وہ گھر بھی نہیں رہے جس میں آنگن ہوا کرتا تھا،آنگن میں ہمہ اقسام کے پودے اور درخت ہوتے اورجن پر دن بھر چڑیوں کا بسیرا ہوتا، دن میں تتلیوں اورسرشام جگنوؤں کی آمد ہوتی…یہ سب کچھ اب خواب سا معلوم ہوتا ہے … آج ہم سب دستر خوان یا ڈائننگ ٹیبل پر ہوتے ہیں ،لیکن سب سے بے نیازکھانے کی بجائے موبائل ’’چاٹنے‘‘ میں مصروف ہوتے ہیں…. مطلب ، چاٹنگ کر رہے ہوتے ہیں ، اس شخص سے جو کہیں دور بیٹھا ہوتا ہے یا پھر سوشیل میڈیا کے طوفان میں گھرے ہوتے ہیں …آس پاس کی اب ہمیں کوئی فکر نہیں ،اپنوں سے ہمیں اب کوئی سروکار نہیں … اب تو سال دو سال کا بچہ موبائل فون ہاتھ میں آجائے تو وہ اس مقام تک بآسانی پہنچ جاتا ہے جہاں اس کے مطلب کی ویڈیو یا تصویر چھپی ہوتی ہے …بچے کی اس حرکت پر ہم پھولے نہیں سماتے اور دوست احباب میںاس بات کی شان بگھارے بغیر ہمیں چین نصیب نہیں ہوتا۔
سوشیل میڈیا کے مثبت سے زیادہ منفی اثرات کا ہم بڑی تیزی سے شکار ہوتے جارہے ہیں …بلیک میلرس کے لیے یہ گویا ہتھیار بن چکا ہے ،کئی معصوم زندگیاں عزت لٹنے کے باوجود عزت بچانے کی کوشش میں مزیدبے عزت ہورہی ہیں .. . سوشل میڈیا ایک ایسا پلٹ فارم ہے جہاں ہر روز سینکڑوں ویڈیوز عوام کو اپنی جانب راغب کرلیتی ہیں ، ایسی ہی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی کے ساتھ وائرل ہوئی ہے… ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ چار لڑکیاں فلمی انداز میں ایک لڑکی کی گھونسوں اور لاتوں کے ذریعے دھلائی کر رہی ہیں ، لڑکی کے ساتھ موجودہ لڑکا، لڑائی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہاہے لیکن ویڈیو میں اس کی حیثیت تھالی کے بینگن سے زیادہ نظر نہیں آرہی ہے ،وہ کبھی اس جانب تو کبھی اس جانب لڑھک رہا ہے … کہا یہ جارہا ہے کہ چار لڑکیاں جو بہار کے ایک میلے میں ساتھ گھوم رہی تھیں،جیسے ہی ا نہوں نے دیکھا کہ ان کا بوائے فرینڈ کسی اور لڑکی کے ہمراہ میلے میں آیا ہے، انہوں نے اس لڑکی کی پٹائی شروع کردی… مشکوک حیدرآبادی کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی ہے کہ چار لڑکیوں نے ’’ صنم بے وفا‘‘ کی دھلائی کرنے کی بجائے لڑکی کی دھلائی کیوں شروع کردی؟ویڈیو کی سرخی اس طرح لگائی گئی ’’ بوائے فرینڈ کی خاطر پانچ لڑکیوں میں لڑائی ‘‘مطلب یہ کہ پانچ لڑکیاں ایک ہی لڑکے پر فدا تھیں… سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب چارلڑکیوں کو اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ کسی انجان لڑکی کو دیکھنا برداشت نہ ہوسکا تو پھر وہ چاروں لڑکیاں کیسے ساتھ ساتھ گھوم رہی تھیںجن کا ’’عاشق آوارہ‘‘ ایک ہی لڑکا تھا؟سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی معلومات کے مطابق یہ سارا معاملہ کچھ دن پرانا ہے جو اب منظر عام پر آیا ہے۔ فی الحال اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ لڑکیاں کہاں ہیں اور لڑکا کہاں ہے۔یہاں تک کہ ویڈیو میں کسی قسم کی کوئی آڈیو بھی نہیں ہے، جس سے یہ پتا چل سکے کہ لڑائی کس بنیاد پر ہورہی ہے؟ چارلڑکیوں کی میلے میں فلمی انداز میںلڑائی سوشیل میڈیا دیوانوں کے لیے اندھے کے ہاتھ بٹیر لگنے سے کم نہ تھی … اسے مزید مصالحہ داربنانے کے لیے سوشیل میڈیا کے ’’ چنٹو‘‘ نے اپنی ویڈیوکی آڈیو غائب کرکے یہ شگوفہ چھوڑ دیا ہوگاکہ پانچ لڑکیاں ایک لڑکے کے لیے آپس میں لڑرہی ہیں(وجہ لڑائی کی جو ہو ) تاکہ اُس کی ویڈیو زیادہ سے زیادہ شیئر ہوجائے…
مشکوک حیدرآبادی،جو بھی ویڈیو یا تصویران کے پاس آتی ہے، اسے عام کردینا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں ،حالانکہ یہ حرکت بھی گناہ میں مبتلا کرسکتی ہے ۔ احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کی طرف راہ نمائی کرنے والا، اس راہ نمائی کی وجہ سے گناہ میں پڑ جانے والے کے ساتھ وبال میں شریک ہوتا ہے….سوشیل میڈیا بظاہر ’’چھوٹا بچہ‘‘ نظر آتا ہے لیکن اس ’’ چھوٹے بھیم ‘‘نے ڈینوسارس نماتھیٹرس کو تک نگل لیا ہے ،انسان سے سکون ہی نہیں،انسانیت تک چھین چکا ہے … اب کسی گرتے ہوئے کو سہارا دینے کی بجائے گرنے والے کی ویڈیو بنا کر شیئر کی جاتی ہے، مرنے والے کو بچانے کے بجائے تڑپتے سسکتے دم توڑتے انسان کی ویڈیو گرافی کی جاتی ہے اور پھربڑی بے چینی سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ انہیںکتنی لائکس حاصل ہوئی ہیں ..مدور میں ایک قلی کا پیر ٹرین کے پہیے میں پھنس کر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر لہو لہان ہوگیا، دوسرا پیر بھی شدید زخمی ہوگیا لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آیا ، بقول قلی:’’وہاں چند لوگوں کو میں نے دیکھا وہ اپنے موبائل کے ذریعہ میری ویڈیو گرافی کررہے تھے۔‘‘یہ وہ حالات کا مارا قلی ہے جو اپنے خون میں لت پت کٹے ہوئے پیر کے ساتھ ازخود سڑک تک آیا، آٹو میں بیٹھا اور اکیلے دواخانہ پہنچا اور خود کو مرنے سے بچانے میں کامیاب رہا …سوشیل میڈیا کا جنون ،اب ایک وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے ، حتیٰ کہ عبادت بھی اس وبا سے محفوظ نہیں رہی،دوران حج ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کے ذریعے تشہیر کی جانے لگی ہے کہ ہم نے حج کرلیا …
سوشیل میڈیا کا جادو ایسا چل پڑا ہے کہ یورپ میں 2019 میں کیے گئے ایک عوامی سروے کے مطابق اب نوجوان خلاباز بننے کی بجائے یوٹیوبر بننا چاہتے ہیں…سوشیل میڈیا کا ایسا جنون کہ نوجوان اچھائی اور برائی کا فرق بھولتے جارہے ہیں …لوگوں میں محض دہشت پیدا کرنے کے لیے ایسی ایسی بچکانی حرکتیں کرنے لگے ہیں کہ جن کے بارے میں سن کریا پڑھ کر ہنسی آجاتی ہے ،ایسی ہنسی جس ہنسی کے ساتھ آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں …شہرحیدرآباد کے تین نوجوان خنجر اور چاقو لے کر پارٹیوں میں شرکت کرتے تاکہ عام لوگوں میں خوف پیدا کیاجاسکے… جب اس سے بھی ان کو تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے سل فون کے ذریعہ اپنی ان حرکتوں کی ویڈیو گرافی کی اوراسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا، تاکہ لوگوںکو پتا چل سکے کہ آنجہانی گبر سنگھ کی آتما ان تینوں میں سما چکی ہے …’’ٹھاکر صاحب ‘‘یعنی پولیس کی ان پر نظر پڑی اور فی الحال تینوں جیل کی ہوا کھارہے ہیں …
انٹر نیٹ جو حضرت انسان کی کارستانی ہے، وہی اب انسانیت کے گرتے معیار کوملحوظ رکھتے ہوئے کئی ایک موقعوں پر اُسی سے کہتا ہے :
’’verify you are a human‘‘
انسان جو دن بہ دن مشین بنتا جارہا ہے ، احساسات اور جذبات سے عاری روبوٹ بنتا جارہا ہے ،اسی انسان کو پرکھنے کی خاطرویب سائٹ کی جانب سے اقرار لیا جاتاہے ، ایک سطر کمپیوٹر کے اسکرین پر نمودار ہوتی ہے ، جس پر لکھا ہوتا ہے :
’’”I Am Not a Robot.
اور انٹر نیٹ صارف کو ’’ آئی ایم ناٹ اے روبوٹ ‘‘ پرکلک کرکے آگے بڑھنا پڑتا ہے …کچھ معاملات میں اس طرح کی تحریر بھی ظاہر ہوتی ہے :
Human Verification Required
We need to verify that you are not a robot before accessing this page.
اس طرح کے پیامات عموماً اس وقت کمپیوٹر اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں جب کوئی بندہ کسی مخصوص سائٹ سے کوئی فائل ڈاون لوڈ کرنا چاہتا ہے …مزہ تو تب آتا ہے جب انٹر نیٹ صارف مندرجہ بالا مختلف مرحلوں کویعنی اپنے انسان ہونے ، روبوٹ نہ ہونے کے اقرار کے بعد فائل ڈاون لوڈ کرنے کے مقام کو پہنچتا ہے تو درج ذیل مسیج اس کا مذاق اڑاتا نظر آتاہے :
File Not Found
اور بیچارہ انٹر نیٹ صارف کلیجہ مسوس کر رہ جاتا ہے کہ خود کو انسان ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود اس کے ہاتھ کچھ نہ لگا… دو ایک سوالات بھی اسے خاصا بے چین کردیتے ہیں،وہ سوچتا ہے کیا ویب سائٹ نے اسے بطور انسان قبول نہیں کیا یاپھر وہ اب روبوٹ بن چکا ہے ؟
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
شاہ دین ہمایوں
۰۰۰٭٭٭۰۰۰