طنز و مزاحمضامین

زہر میٹھا ہو تو پینے میں مزا آتا ہے

بات زہر کی ہو تو ذہن میں سانپ کا سایہ خود بخود لہرا جاتا ہے ... ہمیںسانپوں سے ڈر ضرور لگتا ہے لیکن ہم نے سانپ کے عنوان پربنی تقریباً ساری فلمیں ’’ناگن ‘‘ سے لے کر’’ نگینہ‘‘ تک بڑے جوش و خروش کے ساتھ دیکھی ہیں...ہم نے وہ ’’ناگن ‘‘بھی دیکھی جس میں وجنتی آنٹی تھیں اور وہ ’’ناگن ‘‘بھی جس میں ریناجی تھیں ... رینائے رائے والی ’’ ناگن ‘‘کا کلائمکس ہمیں بڑابے چین کرگیا تھا، جنہوں نے فلم میںاِچھا دھاری ناگن کا کردار ادا کیا تھا اوراپنے منگیترکی موت کابدلہ لینے کے چکر میں وہ شدید زخمی ہوجاتی ہیں اور بلآخر سسک سسک کر مرجاتی ہیں ...رینارائے کا یوں مرجانا ہمیں سخت ناگوار گزرا تھا...یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم فلمی واقعات کو سچ سمجھا کرتے تھے...

حمید عادل

بات زہر کی ہو تو ذہن میں سانپ کا سایہ خود بخود لہرا جاتا ہے … ہمیںسانپوں سے ڈر ضرور لگتا ہے لیکن ہم نے سانپ کے عنوان پربنی تقریباً ساری فلمیں ’’ناگن ‘‘ سے لے کر’’ نگینہ‘‘ تک بڑے جوش و خروش کے ساتھ دیکھی ہیں…ہم نے وہ ’’ناگن ‘‘بھی دیکھی جس میں وجنتی آنٹی تھیں اور وہ ’’ناگن ‘‘بھی جس میں ریناجی تھیں … رینائے رائے والی ’’ ناگن ‘‘کا کلائمکس ہمیں بڑابے چین کرگیا تھا، جنہوں نے فلم میںاِچھا دھاری ناگن کا کردار ادا کیا تھا اوراپنے منگیترکی موت کابدلہ لینے کے چکر میں وہ شدید زخمی ہوجاتی ہیں اور بلآخر سسک سسک کر مرجاتی ہیں …رینارائے کا یوں مرجانا ہمیں سخت ناگوار گزرا تھا…یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم فلمی واقعات کو سچ سمجھا کرتے تھے…
یہ غالباً فلمی مکالمہ ہے’’خبر یہ نہیں ہوتی کہ کتے نے آدمی کو کاٹا ،خبریہ ہوتی ہے کہ آدمی نے کتے کو کاٹا…‘‘کچھ اسی طرح کا معاملہ چھتیس گڑھ میں جاریہ ماہ کے اوائل میں پیش آیا…میڈیا رپورٹس کے مطابق 8 سالہ دیپک نامی لڑکے پر کوبرا سانپ حملہ کرتے ہوئے اس کے بازو سے لپٹ گیا ،دیپک نے سانپ کو اپنے بازو سے الگ کرنے کی حتی المقدور کوشش کی تاہم وہ اپنا بازو کوبرا سے چھڑوانے میں ناکام رہا جس کے بعد اس نے جھنجھلاکرسانپ کو کچھ اس طرح کاٹا کہ زہریلا سانپ ’’ شکار کرنے کو آئے ، شکار ہوکے چلے‘‘ کے مصداق موت کے گھاٹ اتر گیا …ایسا بھی نہیں تھا کہ سانپ بوڈھا اور ناتواںتھا یا اس کے منہ میں زہریلے دانت نہیں تھے ، سانپ نے بھی دیپک کو کاٹا … لیکن جانے کیا بات ہے کہ دیپک تو جلتا رہا لیکن سانپ بجھ گیا…
چمن بیگ اس خبر کو پڑھ کر کہنے لگے ’’ یوں محسوس ہوتاہے جیسے سانپ ،انسانی زہر کو جانچنا چاہتا تھا،اس لیے اس نے دیپک کو اس قدر مجبور کیا کہ وہ اسے کاٹے تاکہ زہر کے اثر کا پتا چل سکے،وہ خود تو مرگیا لیکن سانپ برادری کو پیام دے گیا کہ بچ کے رہنا انسان سے … انسانی زہرنے سانپ کے زہر کو تک مات دے دی …‘‘
چمن بیگ ، ہیں تو چمن ٹائپ آدمی لیکن کبھی کبھی ایسی گہری باتیں کہہ جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے چنانچہ سانپ کے تعلق سے ان کے کہے کو سن کرہم ایسے سن ہوئے جیسے ہمیں سانپ سونگھ گیا…
سانپ سونگھنے پر ایک لطیفہ ذہن میں کلبلا رہا ہے، موقع کی مناسبت سے ملاحظہ فرمائیں:
ایک مولوی صاحب جذباتی انداز میں تقریر کیے جارہے تھے ’’میری زندگی کے سب سے سہانے شب و روز جس عورت کے بازوؤں میں گزرے وہ عورت میری بیوی نہیں تھی۔‘‘حاضرین کو سانپ سونگھ گیا کہ مولانا کیا کہہ رہے ہیں؟مولوی صاحب نے تجسس ختم کرتے ہوئے کہا: ’’گھبرائیے نہیں،وہ عورت میری ماں تھی۔‘‘
ایک صاحب کو یہ بات بہت پرلطف لگی،سوچا کیوں نا گھرجاکر اپنی بیوی کوبھی اس لطف میں شامل کرلوں…سیدھا کچن میں گئے،جہاں ان کی بیوی انڈے فرائی کر رہی تھیں….وہ صاحب نے کہا:’’تم جانتی ہو میری زندگی کے سب سے سہانے شب و روز جس عورت کی بازوؤں میں گزرے وہ کم ازکم تم نہیں تھی…‘‘
کچن میں کیا ہوا خدا جانے لیکن اس لطیفے کے بعد وہ ہنسنا تو چھوڑیے بولنا تک بھول گئے ،ایسے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔
بیشتر حضرات کی ہر بات سے زہر ٹپکتا ہے جب کہ ان کے چبھتے الفاظ کسی زہریلے خنجر سے کم نہیں ہوتے…
دلوں میں زہر تھا کینہ شمار کرتے رہے
برہنہ لفظ کے خنجر سے وار کرتے رہے
مسعود منور
جب سندر اور سشیل بہو نے دیکھا کہ اس کی ظالم ساس آرام کررہی ہے اور پاس ہی ایک سانپ پھن اٹھائے بیٹھا ہے۔بہو نے دورسے ہانک لگائی’’ کاٹ کاٹ…کاٹ لے،کاٹ لے ‘‘
سانپ نے منہ بناتے ہوئے کہا:’’اری ونادان ! خاک کاٹو ں گا ،میں تو خود زہر کا ایزی لوڈ کروانے آیا ہوں۔‘‘
پڑوسی ملک کے ایک شہرسے خبر آئی ہے کہ سانپ نما جرابیں پہننے پر شوہر نے غلطی سے سانپ سمجھ کر ڈنڈوں سے مار مارکر بیوی کے پاوں توڑ دیئے…
آگے لکھا تھا ’’اور کرو نئے نئے فیشن‘‘
انسان اب وہاں آباد ہورہے ہیں، جہاں کبھی سانپوں کا بسیرا ہوا کرتاتھا ….ان ویرانوں کے کچھ سانپ انسانی لاٹھیوں کا شکار ہوگئے تو کچھ جان بچا کر بھاگ نکلے لیکن اس کو کیا کیجیے کہ آستین کے سانپ جو پہلے کم نظر آتے تھے آج جگہ جگہ نظر آنے لگے ہیں …ویسے عام سانپوں کی بہ نسبت ان سانپوں کو پہچاننا خاصا دشوار ہوا کرتا ہے ۔کیوں کہ یہ اِچھا دھاری سانپوں کی طرح انسانی روپ میں ہوتے ہیں اور آدمی کو اس وقت تک پتا نہیں چلتا جب تک کہ وہ ان کو ڈس نہ لیں …
اوکیناوا یونیورسٹی کے پریس ریلیز میں یونیورسٹی کے نمائندے ڈینی ایلن کہتے ہیں کہ 1980 کے عشرے میں کچھ نر چوہوں پر تحقیق کے دوران یہ معلوم ہوا تھا کہ ان کے لعاب دہن میں ایک طرح کا زہر پایا جاتا ہے جِسے اگر دوسرے چوہوں میں داخل کیا جائے تو وہ ان کے لیے انتہائی مضر ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اگر خاص ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے صرف ایسے زہریلے چوہے تولیدی اعتبار سے نشو نما پاتے ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ چند ہزار برس بعد صرف زہریلے چوہے ہی موجود رہیں گے۔کیا انسان بھی کبھی زہریلے ہو سکتے ہیں؟ اس کے متعلق کہا گیا : اگرچہ اس کا امکان بہت کم ہے، لیکن اگر وہ خاص ماحول کبھی پیدا ہوگیا تو انسان بھی زہریلے بن سکتے ہیں…
خود اپنے زہر کو پینا بڑا کرشمہ ہے
جو ہو خلوص تو جینا بڑا کرشمہ ہے
شاہین غازی پوری
ہم اس حیدرآباد کو کیسے بھلاسکتے ہیں جس میں خالص خلوص تھا،کسی قسم کی کوئی ملاوٹ نہ تھی۔ چنانچہ کسی دکان پر ’’ یہاں اصلی گھی ملتاہے ‘‘ یا پھر ’’ یہاں اصلی شہد دستیاب ہے ‘‘جیسی مکروہ عبارتیں تحریر کرنے کی تاجروں کو ضرورت نہ پڑتی تھی۔ آج ملاوٹ کا یہ عالم ہے کہ انسان خود کو پارسا ثابت کرنے کے لیے لفظ ’’ اصلی ‘‘کو اس قدر کثرت سے استعمال کرنے لگا ہے کہ ایک حلیم کی دکان پر ہم نے لکھا دیکھا:
’’ ہمارے ہاں اصلی پوٹلے کے گوشت سے حلیم تیار کی جاتی ہے۔‘‘
ہم اس بلند بانگ دعوے کو سمجھ نہ سکے کہ پوٹلے کب سے اصلی اور نقلی ہونے لگے…ہاں انسان ضرور اصلی، نقلی ہوسکتے ہیں…آج ملاوٹ کا یہ عالم ہے کہ شہد اور گھی توکجازہر تک اصلی ملنا دشوار ہوچلا ہے ،البتہ جو زہر انسان اپنی زبان پر رکھتا ہے وہ سو فیصدی اصلی ہوتا ہے …ا ب کسی کو زہر خریدنے کے لیے بازار کا رخ کرنے کی چنداںضرورت ہی نہیںرہی…کسی کے الفاظ زہریلے ہوتے ہیں تو کسی کے لہجے میںزہرملا ہوتا ہے ،کسی کے قہقہے میں زہرہوتا ہے تو کسی کی نگاہوں میں زہر بھرا ہوتاہے۔غیرکی ضرورت نہیں،ہمارے اپنے ایسا زہر اپنی زبانوں پر لیے پھرتے ہیں کہ جو ہمارے جسم کے ساتھ روح کو تک مجروح کرجاتا ہے اورکبھی کبھی یہ زہرآہستہ آہستہ ہمیں موت کے گھاٹ تک اتارجاتاہے …باتیںزہریلی ہوں یا پیالا، انہیں دل سے یا منہ سے لگا کر کہاںکوئی بچ پاتا ہے ۔ لیکن کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو زہرپی کر بھی زندہ رہ جاتا ہے:
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
لیاقت علی عاصم
سقراط کو زہر کا پیالا پیش کرنے والے اس قدر زہریلے تھے کہ ان میں سچ کو برداشت کرنے کی ہمت ہی نہ تھی …سنا ہے کہ زہریلے سانپ تک اپنے بل سے باہر نکلنے سے پہلے بلبلا کر دعا کرتے ہیں کہ ’’ مجھے کالے سر والی مخلوق سے بچا۔‘‘ جب کہ سانپ سے بچاؤ کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ اسے بالکل بھی نہ چھیڑا جائے۔ اگر راہ چلتے یا کسی بھی مقام پر سانپ دیکھیں تو کسی قسم کے خوف اور ردعمل کا اظہار نہ کریں، اسے اس کے راستے پر جانے دیں وہ کبھی بھی پلٹ کر حملہ نہیں کرے گا… یہ تو ہوئی سانپوں کی بات لیکن ان انسان نما سانپوں کیا کریں جو چھیڑے بغیر ہی اپنا پھن اٹھا لیتے ہیں اور جن کا کاٹا پانی نہیں مانگتا…سانپ سے متعلق کئی ایک محاورے ہیں:
سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے : یہ محاورہ انسانی فطرت کو آشکارا کرتا ہے کہ وہ ہرحال میں اپنا فائدہ چاہتا ہے۔
سانپ سونگھ گیا: کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ بالکل خاموش ہو گیا یا عرف عام میں اُس کی بولتی بند ہو گئی…کبھی کبھی غلط حکمرانوں کی بدولت ترقی ایسے چپ ہوجاتی ہے جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔
سانپ کا کاٹا رسّی سے ڈرتا ہے :یہ محاورہ ’’ دودھ کا جلا چھانچ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ‘‘ کا جڑواں بھائی ہے …زمانے نے سانپ کی بجائے دودھ والے محاورے کو ترجیح دی کہ سانپ والے محاورہ کو عام کرنا، ایسا ہی ہوگا جیسے سانپ کو دودھ پلایا جارہا ہے ۔
سانپ کے منہ میں چھچھوندر : عام خیال ہے کہ اگرسانپ چھچھوندر کو پکڑ لے تو وہ نہ تو اس کو نگل سکتا ہے اور نہ ہی اُگل سکتا ہے…ورون گاندھی بی جے پی میں رہتے ہوئے پارٹی کی غلط پالیسیوں پر کھلے عام نکتہ چینی کرتے ہیں لیکن پارٹی جہاں انہیں باہر کا راستہ بتانے سے قاصر ہے تو وہیںاس کو ورون گاندھی کی بی جے پی میں موجودگی بھی کھٹکتی ہے ۔
سینے پَر سانپ لوٹنا: حسد سے جلنا …’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ سے بی جے پی کا یہی حال ہورہا ہے ۔
ایک مشہور مکالمہ یا قول ہے ’’سر کچلنے کا ہنر بھی رکھیے صاحب! سانپ کے ڈر سے جنگل نہیں چھوڑا جاتا!‘‘ لیکن جب بستیاں خود جنگل بن جائیں اور انسان زہریلے توپھر کیا کریں؟
اللہ تعالیٰ نے زبان سب کو دی ہے، کوئی اس سے زہر اُگلتا ہے تو کسی کے منہ سے مٹھاس ٹپکتی ہیں… بچھو کی دُم،بھڑکی ڈنک ، سانپ کے دانت ،کتے کی زبان اور مچھر کے سَر میں زہر ہوتا ہے،نسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل اور زبان دونوں جگہ رکھتا ہے…حتیٰ کہ اس کے جذبات تک زہریلے بنتے جارہے ہیں،فی زمانہ حسد اور جھوٹ کا زہر بڑا تیزی سے پھیل رہا ہے … حسد ایک ایسا زہر ہے کہ جسے انسان خود پیتا ہے اور توقع دوسروں کے مرنے کی کرتا ہے…جب کہ بعض حضرات کی نصیحت کا انداز تک زہریلا ہوتا ہے ،کیا ہی اچھا ہو، اگروہ اس میں تھوڑی سی مٹھاس شامل کرلیں:
زہر میٹھا ہو تو پینے میں مزا آتا ہے
بات سچ کہیے مگر یوں کہ حقیقت نہ لگے
فضیل جعفری
۰۰۰٭٭٭۰۰۰