مضامین

کرناٹک حکومت کا غیر آئینی اقدام

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے عین قبل کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے فرقہ وارانہ کارڈ کھیلتے ہوئے مسلمانوں کو برسوں سے دیے جانے والے ریزرویشن کو بیک جنبشِ قلم ختم کر دیا۔ حکومت کے اس تازہ فیصلہ سے کرناٹک کے مسلمان تعلیم اور روزگار کے شعبہ میں اور پیچھے ہوجائیں گے۔ کرناٹک کی بسواراج بومئی حکومت نے ریاست کے اعلیٰ طبقوں کے ووٹوں کے حصول کے لیے مسلمانوں سے ان کے چار فیصد ریزرویشن کو چھین کر ووکالیگا اور لنگایت طبقہ میں اسے تقسیم کر دیا۔ حکومت کا یہ اقدام کسی بھی حیثیت سے آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ایک سیاسی شعبدہ بازی ہے جو بی جے پی پھر سے اقتدار پر آنے کے لئے کر رہی ہے۔ ریاست کے کسی طبقہ کو کوئی مراعات دی جا تی ہیں یا ان کے ساتھ خصوصی برتاو¿ کیا جا تا ہے تو اس پر مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم کرکے کسی اور کو اس کا فائدہ پہنچانا مسلمانوں کے ساتھ کھلی نا انصافی ہے۔ کرناٹک میں بی سی کمیشن کی سفارشات کے مطابق 2Bزمرے کے تحت 4فیصد ریزرویشن مسلمانوں کو تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں حاصل ہے۔ گزشتہ جمعہ کو ہوئے کابینی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ریاست کے مسلمانوں کا کوٹہ 2Bزمرے میں ختم کر کے انہیں EWSکے زمرے کے تحت ریزرویشن دیا جائے۔ مسلمانوں کے 2Bکے ریزرویشن کو 2Cاور 2Dمیں تبدیل کرکے 4فیصد ریزرویشن کو 2.2فیصد میں بانٹ کر ووکالیگا اور لنگایت طبقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ بومئی حکومت کی یہ بندر بانٹ ان کی مسلم دشمنی کو کھلے طور پرظاہر کرتی ہے۔ ریاست کے چیف منسٹر کا دعویٰ ہے کہ حکومت کے اس جارحانہ فیصلہ سے ریاست کے مسلمانوں کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ انہیں معاشی طور پر کمزور طبقات کے زمرے کے تحت ریزرویشن دیا جائے گا۔ لیکن اس بات کی کوئی صراحت نہیں کی گئی کہ EWSزمرے کے تحت مسلمان کتنے فیصد ریزرویشن کے حقدار ہوں گے۔ کسی بھی طبقہ کے تعلق سے ریزرویشن پالیسی میں تبدیلی لانے کے لئے بی سی کمیشن کی سفارشات لازمی ہیں ۔ کرناٹک کے بی سی کمیشن نے ایسی کوئی ہدایت نہیں دی کہ مسلمانوں کو 2Bکوٹہ کے تحت دئے جا نے والے ریزرویشن کو ختم کر کے اسے ووکا لیگا اور لنگایت طبقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ حکومت کایکطرفہ اقدام ہے ۔ اس کا مقصد محض مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار سے محروم کر دینا ہے۔ حکومت نے مسلمانوں سے ان کا حق چھین کر جن دوسرے طبقوں کو دیا ہے وہ مسلمانوں سے تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں بہت آگے ہیں۔ لنگایت طبقہ تو ریاست کا ایک طاقتور طبقہ ہے ، جس کی مرضی کے بغیر کوئی حکومت چل نہیں سکتی۔ ایسے طبقوں پر حکومت کی عنایات اور اس کے لئے مسلمانوں کو نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ کرناٹک کی حکومت ریاست کے مختلف طبقوں کے درمیان دراڑ ڈالنا چاہتی ہے۔ ووکالیگا اور لنگایت طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو حکومت کسی اور طریقہ سے بھی نواز سکتی تھی۔ اس کے لیے مسلمانوں کو دیے گئے چار فیصد ریزرویشن پر ضرب کاری لگانا ضروری نہیں تھا۔ لیکن حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے۔ اس لئے ریاست میں عین الیکشن سے پہلے فرقہ وارانہ تناو¿ پیدا کرکے اپنی سیاسی دکان چمکانے کی خاطر یہ سازش رچائی گئی ہے۔ چیف منسٹربسوارج بومئی کا یہ ادعا ہے کہ ملک کی سات ریاستوں میں مذہبی اقلیتوں کو ریزرویشن حاصل نہیں ہے۔ ان کی حکومت نے بھی انہی خطوط پر کرناٹک میں مسلمانوں کو تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں دئے جانے والے چار فیصد ریزرویشن کو ختم کر دیا ہے۔ کرناٹک کے چیف منسٹر کی یہ منطق غلط معلومات کی بنیاد پر ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو ریزرویشن مذہب کی بنیاد پر نہیں دیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے بعض طبقات کو جو ریزرویشن دیا جا رہا ہے اس کی بنیاد ان کی سماجی اور معاشی پسماندگی ہے۔ مسلمانوں کے وہ طبقے جو معاشی اور سماجی طور پر کمزور ہیں وہی ریزرویشن کے زمرے میں آ تے ہیں۔ ان میں مخصوص طبقات شامل ہیں ۔ مسلمانوں کی اکثریت کا شمار عام زمرے میں کیا جاتا ہے۔ انصاف کا تقا ضا تو یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو بھی تحفظات دئے جائیں ۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے بہت سارے طبقے جن میں سید بھی شامل ہیں معاشی طور پر انتہائی کمزور ہیں۔ کرناٹک حکومت نے عام مسلمانوں کو راحت دینے کے بجائے مسلمانوں کے مخصوص طبقات کو حاصل مراعات کو بھی چھین لیا ہے۔ اب ہر سال کرناٹک میں کم از کم 300مسلم طلباءو طالبات میڈیکل کورسیس میں داخلہ سے محروم ہو جائیں گے۔ اسی طرح لگ بھگ 1600مسلم امیدوار انجینئرنگ میں داخلہ نہیں لے سکیں گے۔ سب سے زیادہ ضرب سرکاری ملازمتوں پر پڑے گی۔ پہلے ہی ہر ریاست میں مسلمانوں کا سرکاری ملازمتوں میں فیصد کم ہے۔ اب کرناٹک میں ڈھائی ہزار تا تین ہزار مسلمان سرکاری ملازمتوں میں آنے سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ تین ہزار افراد کا نقصان نہیں ہوگا بلکہ کم ازکم تیس ہزار خاندان اس سے متاثر ہوں گے۔ مرکز کی مودی حکومت جہاں سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواش کا نعرہ لگاتی ہے ، کرناٹک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر ریاستی حکومت کی کوئی سرزنش نہیں کر تی بلکہ مبینہ طور پر اس کی پشت پناہی کر تی ہے توپھر مسلمانوں کے ساتھ یہ وشواش گھات ہے۔ ریاست کی اتنی بڑی آبادی کو تعلیم اور سرکاری ملازمتوں سے محروم کر دینا ایک ایسا ظلم ہے جس کے خلاف ہر انصاف پسند کو احتجاج کرنا چاہیے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ کانگریس نے وعدہ کیا کہ اگر کرناٹک میں انتخابات کے بعد کانگریس بر سر اقتدار آتی ہے تو حکومت بننے کے اندرون 15دن مسلمانوں کے چار فیصد ریزرویشن کو بحال کر دیا جائے گا۔ ریاست کے جمہوریت پسند عوام اور بالخصوص مسلمانوں کو کانگریس کی اس یقین دہانی پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے آنے والے اسمبلی انتخابات میں اپنی حکمت عملی طئے کرنی ہوگی۔ کرناٹک میں یکے بعد دیگر جو متنازعہ موضوعات چھیڑے جا رہے ہیں اس پر روک لگانے کے لیے یہی ایک واحد راستہ ہے کہ کسی بھی طرح بی جے پی کو پھر سے ریاست میں حکومت بنانے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس کے لیے کیا طریقہ کار بہتر ہوگا اس پر ریاست کے دانشوروں، علمائ، سیاسی قائدین اوسر سماجی جہدکاروں کو اپنے سارے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مبسوط سیاسی پالیسی اختیار کر نی ہو گی۔ ہر جماعت اپنی سیاسی ، سماجی اور مذہبی ساکھ کو برقرار رکھنے میں غلطاں رہے گی تو حالات اور بھی خطرناک رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ کرناٹک میں الیکشن کا مرحلہ بالکل قریب ہے۔ فسطائی طاقتیں ماحول کو گرمانے کی پوری کوشش کریں گی ۔ لیکن مسلمانوں کو اپنے آئینی حقوق کے حصول کے لئے قانونی جدوجہد کا راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔ سڑکوں پر نکلنے اور محض نعرے لگانے سے فائدے کے بجائے نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ملک میں ابھی عدلیہ کی روح ختم نہیں ہوئی ہے۔ اس لئے ماہروکلاءکی خدمات لیتے ہوئے مسلمان اپنے چھینے ہوئے حق کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔