سیاستمضامین

کرناٹک میں ہوگا کانگریس کا پہلا امتحان

مظفر حسین غزالی

اس سال کے نو میں سے شمال مشرق کی تین ریاستوں کے انتخابات ہو چکے ہیں ۔ کانگریس ترپورہ اور میگھالیہ میں اچھا مظاہرہ کر سکتی تھی ۔ لیکن اس نے الیکشن پر چھتیس گڑھ اجلاس کو فوقیت دی ۔ اب کرناٹک میں اس سال کا بڑا انتخاب ہونے والا ہے ۔ اس کو لے کر بی جے پی بہت سنجیدہ ہے ۔ وزیراعظم نریندرمودی ابھی تک چھ اور وزیر داخلہ امت شاہ کرناٹک کے الگ الگ علاقوں کے چار دورے کر چکے ہیں ۔ یہ جنوب کی اکلوتی ایسی ریاست ہے جس میں بی جے پی کی موجودگی ہے ۔ اس کا اثر مہاراشٹر، تلنگانہ اور آندھرا پردیش پر بھی پڑتا ہے ۔ 2018 کے الیکشن میں کانگریس نے 78 جے ڈی ایس 37 اور بی جے پی نے 104 سیٹوں پر جیت درج کی تھی ۔ ووٹ فیصد کی بات کریں تو بی جے پی کو 36 کانگریس کو 38 اور جے ڈی ایس کو 18 فیصد ووٹ ملے تھے ۔ جے ڈی ایس نے کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی ۔ لیکن بی جے پی نے ای ڈی، سی بی آئی، آئی ٹی، انتظامیہ، سیاسی دباؤ، گورنر اور ممبران اسمبلی کے استعفوں کے ذریعہ جے ڈی ایس کانگریس کی جگہ اپنی حکومت بنا لی تھی ۔ مشن لوٹس کا پہلا تجربہ یہیں کیا گیا تھا ۔
بی جے پی اپنے مشن میں کامیاب تو ہو گئی لیکن ریاست کو اچھی گورننس والی حکومت نہیں دے سکی ۔ سماج کو بانٹنے کے نت نئے طریقے اپنائے گئے ۔ کبھی حجاب کا مسئلہ تو کبھی حلال کا سوال اٹھایا گیا ۔ فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کی کوشش کی گئی ۔ نہ کاروبار کو فروغ دیا گیا اور نہ ہی سرکاری محکموں میں خالی پڑی جگہوں کو بھرا گیا ۔ ٹیپو سلطان کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ وکولنگا اور لنگایت جو بی جے پی کے ووٹر مانے جاتے ہیں ۔ بھاجپا حکومت میں ان کے مسائل حل نہیں ہو سکے ۔ دلت، غریب اور نوجوان حکومت سے مایوس ہوئے ۔ کسانوں کو بھی پوری طرح نظر انداز کیا گیا ۔ جبکہ کسان کرناٹک سے چل کر دہلی تک آئے ۔ انہوں نے دہلی کے جنتر منتر پر انسانی کھوپڑیاں لے کر ننگے بدن ہو کر احتجاج کیا ۔ حکومت کو متوجہ کرنے کے لئے نا جانے کیا کیا جتن کئے لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ کرناٹک میں بدعنوانی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ۔ یدورپا کی جگہ بی ایس بومئی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا ۔ لیکن کرپشن کم نہیں ہوا بلکہ یہ 40 فیصد والی سرکار بن گئی ۔ ریاست میں پے سی ایم کے پوسٹر لگے ہیں ۔ ٹھیکہ داروں کی ایسوسی ایشن اور اسکول مینجمنٹ نے وزیراعظم کو خط لکھ کر اس کی شکایت کی ۔ مگر نہ اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی بی جے پی ایم ایل اے کے گھر برآمد ہوئے آٹھ کروڑ روپے کی نقدی پر کوئی کاروائی ۔ بی جے پی کے ریاستی لیڈران کے درمیان بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ یدورپا کی بی ایس بومئی سے نہیں بنتی، بومئی کی ڈی کے روی سے ڈی کے روی کی للت اور بی ایل سنتوش سے بات نہیں ہوتی ۔ تیجسوی سوریہ سے بھی کرناٹک اکائی کے افراد ناراض ہیں ۔
ریاستی لیڈران کے آپسی انتشار اور اینٹی ان کم بین سی کی وجہ سے ہی کرناٹک کا الیکشن بی جے پی نریندرمودی کے نام پر لڑے گی ۔ وہ ہر قیمت پر کرناٹک کو جیتنا چاہتی ہے ۔ اس کے لئے کئی سطح کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔ الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہونے سے پہلے ہی وزیراعظم نریندرمودی، امت شاہ، جے پی نڈا، مرکزی وزراء کے دورے شروع ہو گئے ہیں ۔ انتخابی منصوبہ سازی کے لئے دس افراد پر مشتمل ٹیم تشکیل دی گئی ہے ۔ اس میں یدورپا، ان کے بیٹے، کرن جلے، بی ایس بومئی، سدا نند گوڑا، تیجسوی سوریہ، ڈی کے روی وغیرہ شامل ہیں ۔ لیکن الیکشن کی کمان نریندر مودی، امت شاہ اور گجراتیوں کے ہاتھ میں رہنے والی ہے ۔ چناؤ کے دوران 40 کابینہ وزیر وہاں ڈیرہ ڈالیں گے ۔ ہفتوں امت شاہ رہنے والے ہیں اور ہر تیسرے دن وزیراعظم وہاں نظر آئیں گے ۔ دوسری ریاستوں کے وزراء اعلیٰ کے دورے الگ ہوں گے ۔ الیکشن کا اعلان ہونے سے پہلے ای ڈی، سی بی آئی، آئی ٹی کی سرگرمی دکھائی دے گی ۔ ان کے نوٹس اور بلاوے کا سلسلہ شروع ہوگا ۔ اپوزیشن کا مالی تعاون کرنے والے کاروباری اور ہر مضبوط سیاسی لیڈر اس کے دائرے میں ہو سکتا ہے ۔ اس کے بعد بھی اگر بی جے پی ناکام ہوتی ہے تو نتائج کے بعد مشن کمل کو کیسے کامیاب کرنا ہے یہ بھی بی جے پی کے پیش نظر ہوگا ۔
انتخابات سے پہلے کے سروے میں ہنگ اسمبلی ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے ۔ مگر کرناٹک کے روز بدلتے سیاسی حالات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ سابق مرکزی وزیر سی ایم ابراہیم کو جے ڈی ایس کا صدر بنایا گیا ہے ۔ کچھ اور بااثر مسلمانوں کو بھی پارٹی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ادھر ایس ڈی پی آئی اور اے آئی ایم آئی ایم الیکشن میں اپنے امیدوار اتارے گی ۔ عام آدمی پارٹی بھی اس الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے ۔ ادھر اکھلیش یادو اور ممتا بنرجی نے جے ڈی ایس کے حق میں انتخابی تشہیر کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ سابق مرکزی وزیر کے رحمٰن خان کا کہنا ہے کہ سی ایم ابراہیم پہلے بھی جے ڈی ایس کے صدر رہ چکے ہیں ۔ ایس ڈی پی آئی، اویسی کی پارٹی اور عآپ کا الیکشن پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا ۔ یہ ووٹ کٹوا پارٹیاں ہیں ۔ ان سے بی جے پی کو ہی فائدہ پہنچتا ہے ۔ کرناٹک کے لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں ۔ رہا اکھلیش اور ممتا کا معاملہ تو یہ جانچ سے بچنے کے لئے مرکزی حکومت کے اشارے پر کام کر رہے ہیں ۔
کرناٹک کے عام لوگوں کا رجحان بدلاؤ کی طرف ہے ۔ اسی لئے بی جے پی کے بڑی تعداد میں ممبران اسمبلی پارٹی چھوڑ کر جانے کو تیار ہیں ۔ ایک ہوڑ سی لگی ہے وہ یا تو کانگریس میں جانا چاہتے ہیں یا پھر جے ڈی ایس کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔ انہیں روکنے کے لئے بی جے پی کو یہ اعلان کرنا پڑا ہے کہ کسی بھی ایم ایل اے کا ٹکٹ نہیں کاٹا جائے گا ۔ اس بے چینی کا فائدہ کانگریس کو اٹھانا چاہئے ۔ مگر کانگریس ہے کہ وہ جلدی نہیں جاگتی ۔ جبکہ کانگریس کی سیاسی صورتحال میں اس کے لئے موقع ہے ۔ کانگریس کے صدر اور یوتھ کانگریس کے ذمہ دار کرناٹک سے ہیں ۔ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے دلت طبقہ سے آتے ہیں ۔ کرناٹک میں دلت 19 فیصد ہیں اور 16 فیصد مسلمان ہیں ۔ ان دونوں طبقات کے 80 فیصد لوگ غریب ہیں ۔ پھر راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے سب سے زیادہ وقت کرناٹک میں گزارا تھا ۔ اسے عوام کی غیر معمولی حمایت حاصل ہوئی تھی ۔ راہل گاندھی نے کرناٹک میں پہلی انتخابی ریلی 20 مارچ کو بیل گاوی میں کی ہے ۔
کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ اگر اس کی حکومت آتی ہے تو ایس سی ریزرویشن 15 سے بڑھا کر 17 فیصد اور ایس ٹی کا ریزرویشن 3 سے بڑھا کر 7 فیصد کیا جائے گا ۔ ہر گریجویٹ کو تین سال تک تین ہزار روپے اور ڈپلومہ ہولڈرز کو دو سال تک 1500 روپے دیئے جائیں گے ۔ یہ حکومت نوجوانوں کو روزگار دینے میں ناکام رہی ہے ۔ کانگریس دس لاکھ نوجوانوں کو روزگار دے گی ۔ سرکاری محکموں میں خالی پڑی 2.5 لاکھ اسامیوں بھرا جائے گا ۔ گرہ لکشمی اسکیم کے تحت خواتین کو دو ہزار روپے دیئے جائیں گے ۔ گرہ جیوتی اسکیم میں 200 یونٹ بجلی مفت دی جائے گی ۔ بی پی ایل خاندانوں کو 10 کلوگرام چاول ہر ماہ دیا جائے گا ۔ کانگریس 224 سیٹوں والی اسمبلی میں 150 سیٹ جیتنا چاہتی ہے ۔ 2013 میں اس نے 37 فیصد ووٹ حاصل کر 112 سیٹیں جیت کر حکومت بنائی تھی ۔ اچھی گورننس دینے کا سہرا بھی اس کے سر ہے ۔
الیکشن سے چھ ماہ پہلے کانگریس نے اپنے امیدواروں کے نام جاری کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ مگر ابھی تک کانگریس کے امیدواروں کے نام سامنے نہیں آئے ہیں ۔ جبکہ اپریل کے پہلے ہفتہ میں الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہونے کی امید ہے ۔ سدا رمیہ نے کہا کہ 110 سیٹوں پر امیدوار طے کر لئے ہیں ۔ پہلی لسٹ 22 مارچ کو جاری کی جائے گی ۔ کانگریس کے ریاستی صدر ڈی کے شیو کمار نے کہا کہ 1300 لوگوں نے ٹکٹ کے لئے درخواست دی ہے ۔ ظاہر ہے سب کو ٹکٹ نہیں مل سکتا لیکن ان سبھی کو ٹکٹ دیا جائے گا جنہیں پچھلے انتخاب میں ٹکٹ نہیں دیا جا سکا تھا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوانوں اور خواتین کو زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے ۔ سدارمیہ اور ڈی کے شیو کمار کے درمیان بھی اختلاف ہیں ۔ کانگریس کی بہتر کارکردگی کے لئے انہیں اپنے اختلافات کو بھلانا ہوگا ۔ راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا میں ان دونوں کو ساتھ لائے تھے ۔ راہل گاندھی کا کرناٹک میں ہر سیٹ پر تین تین دن کا پروگرام بنایا گیا ہے ۔ اس سے کانگریس کے متحد ہوکر الیکشن لڑنے کی امید بندھی ہے ۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کرپشن کو سسٹم کے ساتھ جوڑ کر عوام کو بتایا جائے ۔ بہر حال کانگریس کے سیاسی تجربہ کا پہلا امتحان کرناٹک میں ہوگا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس میں کتنی کامیاب ہوتی ہے ۔ \
۰۰۰٭٭٭۰۰۰